- بال اگانے کے خواب اور سوشل میڈیا کے فراڈ: ایک تنبیہی جائزہ
تحریر : رشید احمد گبارو
زیر نظر عنوان ایک نہایت اہم سماجی مسئلے کی طرف توجہ دلاتا ہے، جس پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہئے ۔ درج ذیل مضمون اسی موضوع پر ایک جامع، تنبیہی اور بیدارکن انداز میں قارئین کی صرف نظر کرتا ہوں، جس میں تاریخی مثال (زیڈال)، موجودہ سوشل میڈیا اشتہارات، اور عوامی آگاہی کے نکات شامل ہیں۔
بال اگانے کے خواب اور سوشل میڈیا کے فراڈ: ایک تنبیہی جائزہ
آج کل سوشل میڈیا پر ہر روز ایسے اشتہارات کی بھرمار ہے جو “قدرتی بال اگانے” کے انوکھے نسخے، جڑی بوٹیاں، جادوئی آئل یا نام نہاد “طبّی فارمولے” کے دعوے کرتے ہیں۔ یہ دعوے اتنے دلکش اور پُر امید ہوتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو گنج پن یا بالوں کی کمی کا شکار ہے، لمحہ بھر میں ان کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
زیڈال کی تاریخ:ستر کی دہائی کا سبق
یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ 1970 کی دہائی میں “زیڈال” نامی ایک نام نہاد دوا کے اشتہارات دیواروں، اخباروں اور رسالوں میں اتنے عام تھے کہ بچہ بچہ اس کے نام سے واقف تھا۔ ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ شاید بال اگانے کا قدرتی علاج دریافت ہو چکا ہے۔ مگر ہوا کیا؟ چند سال بعد وہ دوا غائب ہوگئی، منوفیکچرر نے پیسے کما لئے، اور عوام ہاتھ ملتی رہ گئی۔ زیڈال اس بات کی تاریخی مثال ہے کہ کیسے ایک مصنوعی امید کو تجارتی مفاد میں استعمال کیا گیا۔ آج وہی حکمتِ عملی، صرف میڈیا کا انداز بدل چکا ہے، آج کی دیواریں، فیس بک اور انسٹاگرام ہیں
گنج پن: ایک فطری اور سائنسی حقیقت
بالوں کا جھڑنا یا گنج پن ایک جینیاتی، ہارمونی، یا صحت سے متعلق مسئلہ ہے جس کا ابھی تک کوئی سادہ، مستقل اور قدرتی حل دریافت نہیں ہوا۔ میڈیکل
سائنس نے اگرچہ چند طبی یا جراحی سہولیات جیسے
“Finasteride” “Minoxidil” or “Hair Transplant
فراہم کئے ہیں، مگر یہ سب محدود اثرات رکھتے ہیں اور ہر شخص پر یکساں اثر نہیں کرتے۔ سچائی یہ ہے کہ
اگر کسی شخص یا ادارے نے قدرتی طور پر بال اگانے کا حقیقی علاج دریافت کر لیا، تو اسے دنیا کے مشہور ترین الیکٹرانک میڈیا کے چینلز
BBC, CNN OR AL JAZEERA
سب سے بڑی سائنسی دریافت کے طور پر کئی دنوں تک نشر کریں گے۔
سوشل میڈیا اشتہارات
خواب بیچنے والے تاجر سوشل میڈیا پر روزانہ درجنوں پیجز، فرضی ڈاکٹرز، نقلی “ہربل اسٹورز”، اور جعلی “ریویوز” کے ذریعے معصوم عوام کو جھوٹے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ ان کے اشتہارات میں کچھ ایسی چالاکیاں شامل ہوتی ہیں:”صرف 7 دن میں بال اگائیں!””100٪ قدرتی نسخہ، کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں!””یہ وہی فارمولا ہے جو حکیم لقمان نے استعمال کیا!””ہزاروں لوگوں کا آزمودہ نسخہ!”یہ تمام دعوے بغیر کسی سائنسی بنیاد، بغیر تصدیق شدہ ریسرچ اور بغیر کسی رجسٹریشن کے مارکیٹ میں بیچے جا رہے ہیں۔حکومتی اداروں کی ذمہ داری
حکومت، بالخصوص ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، سائبر کرائم ونگ, اور ایف آئی اے کو چاہئے کہ ان جعلی اشتہارات اور غیر قانونی مصنوعات کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف قانون کے تحت سخت جرمانے اور سزائیں ہونی چاہئیں۔
عوام کے لئے پیغام: ہوشیار رہیں
ا۔ہر وہ اشتہار جو “معجزاتی علاج” کا دعویٰ کرے، اس پر شک کیجئے۔
ب۔کسی بھی پروڈکٹ کو خریدنے سے پہلے اس کی میڈیکل منظوری اور اصلی صارفین کی رائے ضرور معلوم کریں۔
ج۔ کوئی بھی علاج جو فوری اثرات کا دعویٰ کرے، عموماً جعلی ہوتا ہے۔
د ۔ فیس بک اور یوٹیوب پر چلنے والے جعلی ویڈیوز اور تصاویر پہلے یا بعد پر ہرگز اعتماد نہ کریں
ح۔ اپنے ڈاکٹر یا ماہر جلد سے مشورہ ضرور کریں۔
امید اور فریب میں فرق کریں بالوں کا جھڑنا اگرچہ ایک تکلیف دہ تجربہ ہو سکتا ہے، مگر اس کا حل جھوٹے خواب خریدنا نہیں۔ سچ یہ ہے کہ ، جو بھی شخص قدرتی بال اگانے کا مستند اور سائنسی علاج دریافت کرے گا، وہ دنیا کا سب سے امیر ترین انسان اور شاید نوبیل انعام کا حق دار ہوگا یا برطانوی حکومت کی طرف سے سر کے خطاب کے خطاب سے ضرور نوازا جائے گا ۔ لہٰذا، عقل، ہوش اور تحقیق سے کام لیں۔ جھوٹے اشتہارات کے پیچھے نہ بھاگیں۔ اپنی صحت، وقت اور پیسے کو محفوظ رکھیں۔
طالب دعا، رشید احمد گبارو
- سماجی ترقی کے جہات: پاکستان میں پالیسی اور منصوبہ بندی
تحریر ؛ انجینئر رشید احمد گبارو
تاریخ: اگست ۲۰۲۵
تعارف
ترقی صرف اقتصادی نمو کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہت تصور ہے جو تعلیم، صحت، سماجی انصاف، ادارہ جاتی صلاحیت، اور پالیسی سازی کے دائرے میں ہم آہنگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستان میں ترقی کے سماجی پہلوؤں کا تجزیہ اس وقت مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اسے عالمی تناظر میں نہ دیکھیں۔
یہ تحقیقی مقالہ پاکستان کی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے تناظر میں ترقی کے مختلف سماجی جہات کا تجزیہ پیش کرتا ہے، اور اس کا موازنہ ان مراحل سے کرتا ہے جن سے ترقی یافتہ ممالک ماضی میں گزر چکے ہیں۔
---
ترقی کے ارتقائی مراحل: تاریخی تقابلی جائزہ
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے مختلف صدیوں میں ترقی کے الگ الگ مراحل طے کیے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
اٹھارویں صدی: ارتقائی مرحلہ (Evolution Stage)
یورپ اور مغرب میں صنعتی انقلاب نے زراعتی معیشتوں کو صنعتی معیشتوں میں تبدیل کر دیا۔ سائنس، فلسفہ، مشینری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلابی پیش رفت ہوئی۔ اس کے برعکس، برصغیر (جس میں موجودہ پاکستان شامل تھا) برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت تھا اور معاشی و تعلیمی پسماندگی کا شکار رہا۔
انیسویں صدی: پیش رفت کا مرحلہ (Progress Stage)
ترقی یافتہ ممالک میں عوامی تعلیم، ریلوے، سڑکیں، ادارہ جاتی ڈھانچے اور ریاستی نظم و نسق کے جدید اصولوں کی بنیاد رکھی گئی۔ جبکہ برصغیر میں ترقی کی تمام کوششیں نوآبادیاتی مقاصد سے منسلک تھیں، مقامی ضروریات کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔
بیسویں صدی: ترقی کا مرحلہ (Development Stage)
یورپی ممالک نے دو عالمی جنگوں کے بعد فلاحی ریاست کا تصور اپنایا، سوشل سیکیورٹی، صحت اور تعلیم کے شعبے ترقی یافتہ ہو گئے۔ پاکستان نے ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل کی لیکن سیاسی عدم استحکام، فوجی مداخلت، اور معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل نے ترقی کی رفتار کو سست رکھا۔
اکیسویں صدی: مضبوط معیشت کا مرحلہ (Strong Economy Stage)
آج ترقی یافتہ ممالک انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، گرین انرجی اور مالیاتی تنوع پر مبنی معیشتیں چلا رہے ہیں۔ پاکستان اب بھی توانائی کے بحران، قرضوں کے بوجھ، تعلیم و صحت کی ناکامیوں، اور کمزور اداروں جیسے مسائل سے دوچار ہے۔
---
پاکستان کا موجودہ مرحلہ: تقابلی تجزیہ
مندرجہ بالا مراحل کے تناظر میں، پاکستان بیک وقت کئی محاذوں پر جدوجہد کر رہا ہے:
ارتقاء اور پیش رفت کے درمیان کچھ شعبے ابھی بھی ابتدائی حالت میں ہیں (جیسے سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق، صنعتی پیداوار)۔
ترقی کے بنیادی اشاریے جیسے تعلیم، صحت اور ادارہ جاتی اصلاحات اب تک مکمل نہیں ہو سکیں۔
مضبوط معیشت کی طرف پیش رفت محدود ہے اور قرض، تجارتی خسارہ، اور کرپشن جیسی رکاوٹیں موجود ہیں۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اکیسویں صدی میں بھی ارتقائی اور ترقیاتی مراحل کے درمیانی درجے پر ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک معاشی و سماجی جدت کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
---
سماجی ترقی کے اشاریے: تجزیاتی جائزہ
تعلیم
پاکستان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا محض ۲ فیصد رہا ہے، جبکہ خواندگی کی شرح تقریباً ۵۸ فیصد ہے۔ دنیا میں ترقی کے لیے تعلیمی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔
خلاصہ:
⟶ خواندگی میں بہتری سست رفتار
⟶ بجٹ کی قلت
⟶ نظام تعلیم میں طبقاتی تفریق
صحت
صحت کے شعبے میں پاکستان نے جی ڈی پی کا صرف ۱.۵ فیصد خرچ کیا، جبکہ بچوں کی اموات کی شرح اب بھی بلند ہے۔
خلاصہ:
⟶ دیہی علاقوں میں سہولیات کی کمی
⟶ بنیادی صحت مراکز کی کمی
⟶ عملے کی کمی اور کرپشن
صنفی برابری
لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت صرف ۲۱ فیصد ہے جبکہ مردوں کی شمولیت ۷۹ فیصد تک ہے۔ ثقافتی رکاوٹیں، تعلیم کی کمی اور سماجی تحفظ کے فقدان کی وجہ سے خواتین ترقی کے عمل میں مکمل شراکت نہیں کر پا رہیں۔
خلاصہ:
⟶ ثقافتی رکاوٹیں
⟶ خواتین کی اقتصادی شرکت محدود
⟶ صنفی تفریق کی پالیسیاں ناکافی
---
نتیجہ: ترقی کی راہ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
پاکستان آج ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے ماضی کے ارتقائی و ترقیاتی مراحل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں اور مستقبل کی عالمی مسابقت کے لیے اپنے آپ کو تیار بھی کرنا ہے۔
یہ ممکن نہیں جب تک:
پالیسی سازی میں تسلسل اور شفافیت نہ ہو
تعلیم، صحت، اور ادارہ جاتی اصلاحات کو ترجیح نہ دی جائے
نوجوانوں اور خواتین کو ترقی کے عمل میں فعال حصہ نہ دیا جائے
ترقی یافتہ اقوام کی صدیوں پر محیط جدوجہد اور مضبوط سیاسی و سماجی اداروں نے انہیں جس مقام پر پہنچایا ہے، اس کی تقلید صرف منصوبہ بندی اور عملیت پسندی سے ممکن ہے، محض نعرے بازی سے نہیں۔
---
تجاویز
۱۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں جی ڈی پی کا کم از کم ۴ تا ۵ فیصد مختص کیا جائے۔
۲۔ طویل المیعاد قومی ترقیاتی ویژن تیار کیا جائے جسے سیاسی جماعتیں اپنی حکومت کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں۔
۳۔ سول سروس اصلاحات، مقامی حکومتوں کا قیام اور ٹیکنالوجی پر مبنی فیصلہ سازی کو فروغ دیا جائے۔
۴۔ خواتین اور نوجوانوں کو پالیسی سازی، روزگار اور اختیارات میں عملی شرکت دی جائے۔
---
تحقیق کا خلاصہ:
پاکستان اس وقت ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم از کم ایک صدی پیچھے ہے۔ لیکن باعزم قیادت، شفاف پالیسی، اور فعال ادارہ جاتی عملداری سے یہ فاصلہ کم کیا جا سکتا ہے۔
--- - Social Dimensions of Development : Policy and planning in Pakistan
Author: Engr. Rashid Ahmed
Date: August 2025
Introduction
Development is not merely an economic concept—it is a comprehensive and multidimensional process involving education, health, gender equity, institutional capacity, and public policy. In the context of Pakistan, the analysis of development must include social indicators, institutional functionality, and historical comparisons with developed nations.
This research paper explores the social dimensions of development in Pakistan, evaluating its policies, planning mechanisms, and comparative position with regard to the global evolution of development stages.Historical Comparative Framework:
Stages of Development:
18th Century – Evolution Stage
In the West, the 18th century witnessed the Industrial Revolution, characterized by technological advancements, scientific exploration, and the transformation of agrarian economies into industrial societies. In contrast, the subcontinent (now Pakistan) remained under colonial rule, with minimal investment in social infrastructure or human development.
19th Century – Progress Stage
Western nations developed institutional frameworks: railways, public education, modern law systems, and administrative reforms. Meanwhile, colonial policies in the subcontinent prioritized imperial interests, offering limited and uneven progress in infrastructure or public welfare.
20th Century – Development Stage
Developed nations shifted toward welfare states, emphasizing social security, public health, and inclusive education. Pakistan, post-1947, grappled with political instability, military rule, and inconsistent development policies that hindered sustained progress.
21st Century – Strong Economy Stage
Today, developed nations are investing in knowledge economies, AI, green energy, and global financial integration. Pakistan continues to struggle with energy crises, debt burdens, and institutional inefficiencies.
Where Pakistan Stands Today
Pakistan’s present condition indicates it is transitioning across multiple development stages simultaneously:
In education and science, it lags between the evolution and progress stages.
In infrastructure and institutional design, it hovers around the early 20th-century model.
In economic resilience and innovation, it has not yet reached the global benchmarks of the 21st century.
This hybrid position places Pakistan decades behind developed nations in terms of socio-economic evolution.
Social Indicators Analysis
Education
Pakistan allocates only 2% of its GDP to education. Literacy remains below 60%, and disparities across regions and genders persist.
Challenges: Low funding, poor infrastructure, outdated curriculum, and inequality in access.
Healthcare
Health spending is under 2% of GDP. High maternal and infant mortality rates, coupled with insufficient rural services, highlight systemic gaps.
Challenges: Shortage of staff, corruption, lack of basic health units, and urban-rural divide.
Gender Equity
Female participation in the labor force is just over 21%. Cultural barriers, inadequate education, and lack of safety limit their economic role.
Challenges: Societal norms, limited policy enforcement, and economic exclusion.
Conclusion: Pakistan’s Developmental Position
Pakistan stands at a crossroads where it must simultaneously fulfill the pending demands of previous centuries and prepare for the challenges of the current one.
Without long-term planning, consistent policy implementation, and inclusive governance, it cannot bridge the developmental gap.
Policy Recommendations
- Allocate at least 4-5% of GDP to education and health.
- Establish a long-term national development vision with cross-party commitment.
- Reform civil services and strengthen local governments.
- Promote inclusive growth by empowering youth and women.
Summary
Pakistan remains nearly a century behind developed countries in overall development. However, committed leadership, institutional reforms, and inclusive policy planning can significantly reduce this gap.
- بین الاقوامی ترقی کے مراحل : ایک تحقیقی تجزیہ اور پاکستان کی موجودہ پوزیشن
تحریر ؛ رشید احمد گبارو
پیش لفظ
اس تحقیقی مقالے کا بنیادی مقصد ترقی یافتہ اقوام کی فکری و مادی ترقی کے ان ارتقائی مراحل کا جائزہ لینا ہے جنہیں انہوں نے صدیوں پر محیط شعوری جدوجہد سے طے کیا۔ اقوامِ عالم کی ترقی کا عمل یکساں نہ رہا بلکہ ہر قوم نے اپنے مخصوص سیاسی، فکری، تعلیمی اور صنعتی پس منظر میں مختلف مراحل طے کئے۔ ہر مرحلے میں مخصوص فکری، ادارہ جاتی، اور سائنسی انقلابات رونما ہوئے جنہوں نے قومی ترقی کی رفتار کو تبدیل کر دیا۔ یہی تقابلی فریم ورک اس تحقیقی مقالے کا محور ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ مسلسل ارتقاء، جستجو، آزمائش اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ اقوام کی ترقی کسی ایک جست میں نہیں بلکہ وقت، سوچ، محنت اور حکمت کے متواتر مراحل سے گزرتے ہوئے ممکن ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک آج جس مقام پر فائز ہیں، وہاں پہنچنے کے لئے انہوں نے ایک طویل اور مشکل سفر طے کیا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام عموماً چار بنیادی مراحل سے گزریں؛ اول-ارتقائی مرحلہ، دوم-پیش رفت یعنی پراگرس کا مرحلہ ، سوئم-ترقی یعنی ڈیولپمنٹ کا مرحلہ، اور بالآخر معاشی قوت کا حصول۔ ترقی یافتہ اقوام — جیسے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان — نے صدیوں پر محیط ایک جدوجہد کے ذریعے اپنے معاشروں کو فکری آزادی، صنعتی طاقت، انسانی ترقی اور معیشت کی بنیاد پر موجودہ مقام تک پہنچایا۔ ان کی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ان کی ترقی کو مندرجہ بالا چار نمایاں مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔یہ چاروں مراحل اگرچہ مغربی دنیا نے تاریخی تسلسل کے ساتھ طے کئے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان یا برصغیر، جو ایک عظیم تہذیبی، فکری اور تاریخی پس منظر رکھتا ہے، اس وقت کس مرحلے سے گزر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ہر مرحلے کی نوعیت اور اس کے عالمی تناظر کو سمجھیں۔ ان مراحل کی ساخت، عوامل، فکری محرکات اور عملی اطلاقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مقالے کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حیثیت عالمی تناظر میں ان چار مراحل کے مطابق کس سطح پر ہے۔ یہ مقالہ بین الاقوامی تاریخ، سماجیات، معیشت، اور پبلک پالیسی کے تحقیقی حوالوں سے تقابلی مکالمہ فراہم کرتا ہے۔
دنیا کی ترقی فطری حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم شعوری، سائنسی، فکری، تعلیمی اور صنعتی محنت کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ مغرب نے ترقی کے جو مراحل طے کئے، ان میں واضح نظم، ادارہ سازی، تنقیدی فکر، سائنس و ٹیکنالوجی، اور آئین و قانون کی بالادستی شامل ہے۔ اس تناظر میں ترقی کا سفر صرف مالیات یا صنعتی پیداوار تک محدود نہیں بلکہ سماجی تبدیلی برائے بہبود آبادی، عدل و انصاف، تعلیم، انسانی فلاح، معاشرتی رواداری اور اختراعی نظام کا تسلسل ہے۔ زیر نظر مقالہ میں ان مراحل کی زمانی تقسیم، فکری جہات اور عملی اطلاقات کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش ہے۔ نیز اس تناظر میں پاکستان کی موجودہ پوزیشن کا تعین کرنا ہے۔ اختتامیہ کلمات میں پاکستان کی موجودہ سطح کی نشاندہی بھی کی گئی ہے
ترقی کے چار عالمی مراحل کا تاریخی و فکری جائزہ
ارتقائی مرحلہ (اٹھارہویں صدی)
ارتقاء کا مطلب ہے: “تبدیلی کے ذریعے تدریجی بہتری”۔
کلیدی خصوصیات
فکری بیداری
مذہب اور سائنس میں توازن کی تلاش
سائنسی تحقیق اور صنعتی سوچ کی بنیاد
ملوکیت کے خلاف فکری بغاوت
اٹھارہویں صدی موجودہ ترقی یافتہ اقوام کے لئے خوش قسمتی سے صحیح معنوں میں فکری بیداری کی علامت بنی۔ اس صدی میں “روشن خیالی” کی تحریک ابھری جس نے عقل، تجربہ، سائنسی مشاہدہ، اور انفرادی آزادی کو فکری اساس عطا کی۔ یورپ میں نیوٹن کی طبیعیات، فلسفہ دانوں کی معاشرتی فکر، سیاسیات، اور اخلاقی اصلاح نے معاشرے کی تشکیل نو کے لئے انسانی فطرت کے عین مطابق زمینی حقائق فراہم کیں۔ درسگاہوں، علمی مجالس، ذرائع ابلاغ عامہ اور سائنسی تحقیقاتی اداروں کا قیام اسی دور میں ہوا۔ یہی وہ ارتقائی مرحلہ تھا جب موجودہ ترقی یافتہ اقوام نے جہالت، روایتی سماج اور مطلق العنان بادشاہت سے بغاوت کر کے علمی و ادارہ جاتی ترقی کا راستہ چنا۔ اسی دور میں تعلیمی ادارے، تجربہ گاہیں، اور طباعت کا نظام مستحکم ہوا۔ سیاسی سطح پر ملوکیت کے خلاف بیداری نے یورپ میں اٹھارویں صدی کا دور “عصرِ تنویر” کے نام سے مشہور ہے۔ اس زمانے میں فکری جمود ٹوٹا، عقلیت، تجربہ، مشاہدہ، اور سائنسی تفکر کو اہمیت ملی، جمہوریت کی بنیاد رکھی ۔ چیدہ چیدہ فلاسفرز اور دیگر مفکرین نے فرد کی آزادی، ریاست کی ذمہ داری، اور علم کی حیثیت کو نئے انداز میں متعین کیا۔
پیش رفت–پراگرس–کا مرحلہ (انیسویں صدی)
انیسویں صدی میں مغرب نے ارتقائی افکار کو عملی جامہ پہنایا۔ صنعتی انقلاب اپنے جوبن پر تھا۔ریل، بجلی، ٹیلی فون، طب، تعمیرات اور تجارت میں زبردست پیش رفت ہوئی۔ قانون، جمہوریت اور تعلیم کے میدان میں بھی زبردست بہتری آئی۔
کلیدی خصوصیات
صنعتی انقلاب کی تیز رفتار توسیع
شہری تمدن کا عروج
نیشنل ازم اور ریاستی نظم و نسق کی تشکیل
ادارہ جاتی ترقی، پارلیمانی نظام، قوانین کا نفاذ۔
انیسویں صدی نے صنعتی انقلاب کے ذریعے مادی ترقی کا دروازہ کھولا۔ مواصلاتی نظام میں بھاپ کا انجن، ریل گاڑی اور ٹیلی گراف کی ایجادات، انسانی ضرورت کے پیش نظر بجلی کی پیداوار اور ترسیل، اور فولاد کی صنعت نے موجودہ ترقی یافتہ اقوام کو پیداواری معجزہ عطا کیا۔ سرمایہ کاری کا غلبہ، بینکنگ نظام، اور شہری تہذیب و تمدن کا فروغ اس صدی کی خاصیت رہے۔ فلسفیانہ سطح پر مدبرانہ سوچ رکھنے والوں نے سماجی و اقتصادی نظام کی نئی تعبیرات پیش کیں۔ مزدوروں کے حقوق، جمہوریت، اور تعلیم کو عام کرنا اس مرحلے کی لازمی پہچان تھی۔المختصر انیسویں صدی صنعتی انقلاب کی صدی تھی۔ ٹیکسٹائل اور مشینری نے مغربی معیشت اور سماج کو از سر نو ترتیب دیا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی نے صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا۔
ترقیات–ڈیولپمنٹ– کا مرحلہ (بیسویں صدی)
بیسویں صدی نے انسانیت کو دو عالمی جنگوں کے ذریعے ہلا کر رکھ دیا، مگر انہی جنگوں کے بعد اقوامِ عالم نے انسانی فلاح، سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم اور سماجی بہتری کی سمت میں حیرت انگیز اقدامات کئے۔ ترقی یافتہ ممالک نے فلاحی ریاست، جدید صنعتی ڈھانچے، انسانی حقوق اور عالمی اداروں کی تشکیل کے ذریعے عالمی قیادت سنبھالی۔
کلیدی خصوصیات
انسانی فلاح پر مبنی منصوبہ بندی
جدید تعلیمی اور تحقیقی ادارے
ٹیکنالوجی، ایجادات، خلائی تسخیر
فلاحی ریاست کا قیام اور پائیدار ترقی کے اصول
بیسویں صدی نے ریاستی نظام کو فلاحی مملکت میں تبدیل کیا۔ انسان کی بنیادی ضروریات کو ریاست کی ذمہ داری تسلیم کیا گیا۔ تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، رہائشی سہولیات، تعمیرات عامہ کے بنیادی ڈھانچے، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کا تحفظ، اور پالیسی سازی میں عوامی شرکت جیسے عناصر نمایاں ہوئے۔ اس صدی میں عالمی ادارے قائم ہوئے، اقوام متحدہ، یونیسکو، ورلڈ بینک جیسے ادارے عالمی نظم کو ممکن بنانے لگے۔ سائنس اور ٹکنالوجی نے کمپیوٹر، ایٹمی توانائی اور طب و جراحت کے شعبے میں انقلابات برپا کئے۔ عالمی جنگوں کے بعد مغرب میں ریاست کی ساخت تبدیل ہوئی۔ تعلیم، صحت، سوشل سیکیورٹی، لیبر لاز، اور پبلک پالیسی کو مرکزی اہمیت دی گئی۔
معاشی قوت–اکانومی– کا مرحلہ (اکیسویں صدی)
موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی کا مرکزی موضوع “معاشی طاقت” ہے۔ آج اقوام کی حیثیت ان کی معیشت سے جانی جاتی ہے۔ چین، امریکہ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی، پیداوار، برآمدات، مالیاتی ادارے، ڈیجیٹل انقلاب اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے عالمی معیشت پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اب طاقت کا معیار فوجی نہیں بلکہ معاشی برتری ہے۔
کلیدی خصوصیات
مضبوط کرنسی، مستحکم مالیاتی نظام
بین الاقوامی تجارت میں غلبہ
جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل معیشت
خود کفالت، برآمدات میں اضافہ، معاشی خود مختاری
اکیسویں صدی موجودہ دور کی ڈیجیٹل صدی کہلاتی ہے۔ انجینئرنگ کے مختلف شعبے، مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، روبوٹکس، بائیو ٹیکنالوجی اور خلائی۔ ارضی۔ بحری سائنس اب صرف نظری مباحث نہیں بلکہ معیشتوں کی بنیاد بن چکی ہیں۔ عالمی سطح پر طاقت کا تعین اب دفاعی قوت سے زیادہ معاشی و تکنیکی برتری سے کیا جاتا ہے۔ چین، جنوبی کوریا، امریکہ، جرمنی، جاپان جیسے ممالک نے اس مرحلے میں قیادت سنبھالی ہے۔ کرپٹو کرنسی، ای کامرس، بلاک چین، عالمی تجارت کے نئے معیارات اور پائیدار ترقی اب معیشت کا نیا پیمانہ ہیں۔ ترقی کو صرف معیشت نہیں بلکہ تعلیم، صحت اور معیارِ زندگی سے مشروط کیا۔
پاکستان کی موجودہ پوزیشن
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم درج ذیل مشاہدات سامنے لا سکتے ہیں۔
ہماری بڑی آبادی آج بھی عقلی سوچ، سائنسی ذہنیت، تحقیق، مطالعہ اور تعلیم سے محروم ہے۔ جامعات کی تعداد کے مقابلے میں تحقیق کا معیار نہایت پست ہے۔ معاشرہ تقلید اور جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، نہ کہ تدبر اور دلیل کی بنیاد پر۔
پاکستان آج بھی فکری، تعلیمی، ادارہ جاتی اور صنعتی ترقی کے بنیادی مرحلے یعنی ارتقائی سطح پر موجود ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں ترقیاتی پیش رفت کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن وہ مربوط قومی حکمتِ عملی، نظام میں شفافیت اور علمی تحقیق کا کلچر ابھی تک تشکیل نہیں پا سکا جس نے دیگر اقوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
صنعتی ترقی کی رفتار سست، وسائل کی کمی، توانائی کا بحران اور حکومتی پالیسیوں کا فقدان ہمیں اس دور کے ابتدائی حصے میں رکھتا ہے جہاں مغرب انیسویں صدی میں تھا۔ ہمارے ہاں ابھی تک بنیادی انفرا اسٹرکچر مکمل نہیں ہو سکا۔
فلاحی ریاست کے اصول، پائیدار ترقی، سماجی انصاف، صحت، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی شعبوں میں واضح وژن اور تسلسل نہیں۔ پالیسیاں یا تو وقتی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں یا مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔
پاکستان کا معیشتی ماڈل قرضوں، درآمدات اور سبسڈی پر مبنی ہے۔ برآمدات محدود، پیداوار کم، کرنسی غیر مستحکم اور صنعتی خود کفالت کا شدید فقدان ہے۔ ہم ابھی تک معاشی خود انحصاری کی ابتدائی سطح پر بھی نہیں پہنچے۔
نتیجہ: ہم کس مرحلے میں ہیں؟
اگر ہم مغربی ترقی کے درج بالا ان چار مراحل کو معیار بنائیں تو پاکستان فی الحال ارتقائی مرحلے اور پیش رفت کے مرحلے کے درمیانی خلا میں معلق ہے۔ نہ مکمل فکری آزادی ہے، نہ علمی تحقیق کا مزاج، نہ صنعتی خود کفالت اور نہ معاشی طاقت۔ قوم کا بڑا طبقہ معاشی، تعلیمی، فکری اور ثقافتی پسماندگی کا شکار ہے۔ ریاستی ادارے کمزور، پالیسیاں غیر مستقل، اور سیاسی نظام غیر مستحکم ہیں۔
مختصراً
پاکستان اس وقت اس مقام پر کھڑا ہے جہاں مغرب اٹھارویں اور انیسویں صدی کے درمیانی دور میں تھا۔ ہمیں ابھی بہت سے بنیادی سبق سیکھنے ہیں، سماجی شعور بیدار کرنا ہے، تعلیم کو حقیقی ترجیح بنانا ہے اور معیشت کو پائیدار خطوط پر استوار کرنا ہے۔
فکری و سائنسی سطح
مملکت خداداد پاکستان میں تحقیق کے لئے جی ڈی پی کا صرف صفر اعشاریہ تین فیصد مختص کیا جاتا ہے۔ جامعات میں تحقیقی رجحان محدود اور غیر مؤثر ہے، جبکہ نصاب میں تنقیدی و اختراعی فکر کی تربیت کمزور ہے۔تحقیقی مقالہ جات، پیٹنٹس، اور جدت کا گراف نہایت کم ہے۔ نظامِ تعلیم روایتی ہے، جس میں تحقیق اور تخلیق کو کم اہمیت حاصل ہے۔
صنعتی و ادارہ جاتی سطح
صنعتی پیداوار قومی معیشت میں اٹھارہ فیصد سے کم ہے۔جبکہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہ 30% سے زیادہ ہے۔ توانائی، ٹرانسپورٹ، اور انفرااسٹرکچر میں دیرینہ بحران، پالیسیوں کا غیر تسلسل، انفراسٹرکچر میں ناکافی سرمایہ کاری، اور ادارہ جاتی ناکارکردگی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ترقیاتی اشاریے
انسانی ترقیاتی انڈیکس میں پاکستان کا درجہ ایک سو چونٹھ ہے، جو کہ کم تر ممالک کے برابر ہے۔ تعلیم، صحت اور آمدنی کے شعبے مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ جو دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع غیر متوازن ہیں۔
معاشی پوزیشن
معیشت مسلسل قرضوں، تجارتی خسارے، درآمدی انحصار، اور مہنگائی کے بحران کا شکار ہے۔ برآمدات محدود، اور پیداواری بنیادیں کمزور ہیں۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جبکہ برآمدات محدود ہیں۔ 2024 میں کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ اور مہنگائی کی شرح 25% سے تجاوز کر چکی ہے۔
عالمی تقابل: جدول
مرحلہ ترقی یافتہ اقوام پاکستان ارتقائی
Evolutionاٹھارہویں صدی اب بھی جاری پیش رفت
Progressانیسویں صدی ابتدائی سطح پر ترقی
Developmentبیسویں صدی جزوی کوشش معاشی قوت
Economyاکیسویں صدی ابھی دور ہے علمی مکالمہ اور سفارشات
اگر ہم واقعی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں درج ذیل اقدامات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا
- سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کی اولین ترجیح
- نظامِ تعلیم میں انقلابی اصلاحات
- صنعتی و زرعی خود کفالت کی منصوبہ بندی
- معاشی ماڈل کو درآمدات سے برآمدات کی طرف منتقل کرنا
- قانون کی بالادستی، ادارہ جاتی اصلاحات اور احتساب کا نظام
پاکستان کو اگر عالمی ترقی کی دوڑ میں شریک ہونا ہے تو اسے پہلے فکری، تعلیمی اور ادارہ جاتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ترقی کوئی درآمدی شے نہیں بلکہ اندرونی فکری تبدیلی کا نام ہے۔ قوموں کی تشکیل نو کتابوں، مشینوں یا قرضوں سے نہیں بلکہ اخلاقی اور فکری قیادت، انصاف، میرٹ اور ادارہ جاتی استحکام سے ہوتی ہے۔ اگر ترقی کو صرف مادی پیمانے سے نہیں بلکہ علمی، فکری، معاشرتی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر ناپا جائے، تو پاکستان نہ صرف پیچھے ہے بلکہ فکری طور پر ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہمیں شعور، تحقیق، اور ریاستی وژن کی سطح پر “Enlightenment” کی ضرورت ہے۔
اصلاحی اقدامات
تعلیم و تحقیق کو قومی ترجیح بنایا جائے۔ قومی صنعت کو پائیدار حکمت عملی کےتحت ترقی دی جائے۔ اداروں میں شفافیت اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے۔ قومی تدبر و بصیرت اور حکمت عملی میں تسلسل برقرار رکھا جائے۔ قلیل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دی جائے۔ موجودہ عالمی تناظر اور معروضی حالات کے پیش نظر امن امان کی صورتحال کو ترجیحیی بنیادوں پر منظم و مضبوط کیا جائے۔۔سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن اصلاحات اقدامات کئے جائیں۔
ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ قوموں کو ارتقاء، پیش رفت، ترقی اور مضبوط معیشت جیسے مراحل سے صبر، عزم، قربانی اور دانشمندی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم آج بھی بیدار نہ ہوئے تو کل بھی ہمارا ماضی آج جیسا ہی ہو گا — ایک کھویا ہوا موقع، ایک ماندہ خواب۔
وللہ اعلم بالصواب۔ رشید احمد گبارو
حوالہ جات (References)
- United Nations Development Programme (2023). Human Development Report.
- UNESCO Science Report (2022).
- Pakistan Economic Survey 2023-24.
- Huntington, Samuel P. (1968). Political Order in Changing Societies.
- Giddens, Anthony. (1990). The Consequences of Modernity.
- Amartya Sen (1999). Development as Freedom.
- Fukuyama, Francis (2004). State-Building: Governance and World Order in the 21st Century
- اقامت دین، غلبہ اسلام ۔ جدید تقاضے اور فرقہ بندی
تحریر ۔رشید احمد گبارو تمہید؛۔۔۔—- اسلام محض چند انفرادی عبادات کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی انفرادی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی زندگی کے تمام شعبہ جات کو منظم کرتا ہے۔ اس مکمل نظام کے قیام اور تنفیذ کو “اقامتِ دین” کہا جاتا ہے، جو اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ رسولﷺ میں بار بار اس فریضہ کو ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور تاریخِ اسلام اس امر کی شاہد ہے کہ صحابہ کرام، تابعین، مجاہدینِ اسلام، اور علمائے حق نے ہر دور میں اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اپنی جان و مال، عزت و اقتدار، حتیٰ کہ جانوں کی قربانی بھی پیش کی۔اسلام صرف ایک روحانی یا شخصی مذہب نہیں بلکہ ایک کامل نظامِ حیات ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ قرآنِ مجید نے اقامتِ دین ،یعنی دین کے عملی نظام کو قائم کرنے کو، ایک مستقل فریضہ قرار دیا ہے، جو نہ صرف عبادات، اخلاق اور عقائد کو شامل کرتا ہے بلکہ سیاست، عدل، معیشت، اور سماجی نظام کو بھی اپنے دائرے میں لیتا ہے۔ اس جامع مضمون میں ہم اقامتِ دین کے قرآنی اور عملی اساسیات، آثارِ صحابہ، مجاہدین و علماء حق کا تسلسل، فرقہ واریت کی رکاوٹ، اور جدید دور میں اس تصور کی تعبیر پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
اسلام کا بنیادی مقصد “اقامت دین” یعنی دین کے نظام کو زندگی کے تمام شعبوں پر قائم و نافذ کرنا ہے۔ عصرِ حاضر میں جب سیکولرزم، لبرل ازم، اور مادیت پرستی کا سیلاب ہر طرف چھایا ہوا ہے، اقامتِ دین کی دعوت ایک چیلنج اور آزمائش بن چکی ہے۔
جدید دنیا میں اقامت دین کی فکری و عملی تعبیر کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں، اور مسلم دنیا میں اس کے نفاذ کی راہیں کیا ہو سکتی ہیں۔
اسلام دینِ وحدت ہے، جو انسانیت کو ایک اللہ، ایک رسول ﷺ، ایک کتاب اور ایک امت میں جوڑتا ہے۔ مگر آج مسلم دنیا انتشار کا شکار ہے، اور اس انتشار کی سب سے مہلک صورت فرقہ واریت ہے، جس نے امت کو فکری، اعتقادی اور عملی لحاظ سے ٹکڑوں میں بانٹ کر اقامتِ دین جیسے عظیم فریضے کو معطل کر دیا ہے۔
زیر نظر مضمون اسی المیے کا تفصیلی جائزہ ہے، فرقہ واریت کا مفہوم، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مذمت، صحابہ کا طریقہ، تاریخی اسباب، موجودہ صورتحال اور اقامت دین کی راہ میں اس کی رکاوٹیں۔
اسلامی تاریخ شہادت، قربانی اور دعوت و جہاد سے مزین ہے۔ اگرچہ اقامتِ دین کا حکم قرآن کریم کی بنیادی ہدایات میں شامل ہے، لیکن اسلام کے عملی نفاذ کے لیے جو جماعتیں سب سے آگے رہی ہیں، وہ مجاہدین اسلام، علماء ربانیین، اور فقہائے حق کا طبقہ ہے۔انہوں نے دین کو محض خانقاہ یا مدرسے کی چار دیواری تک محدود نہ رکھا بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اس کے نفاذ اور غلبے کے لیے جدوجہد کی۔ یہ مضمون ایسے ہی کرداروں کی ایک تاریخی دستاویز ہے جو امت کے لیے چراغِ راہ ہیں۔
اسلامی تاریخ میں عدل و قسط کے قیام کے لیے اٹھنے والے اہلِ حق کو ہمیشہ باطل طاقتوں کی طرف سے ظلم، قید، اور قتل کا سامنا رہا۔ وہ لوگ جو محض اللہ کی شریعت کو غالب کرنا چاہتے تھے، معاشرے میں عدل کا بول بالا اور ظلم کا خاتمہ چاہتے تھے—انہیں فتنہ پرور، باغی، اور مجرم ٹھہرایا گیا۔یہ مضمون انہی مظلوم مگر باعزم افراد کے بارے میں ہے، جنہوں نے عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کی، اور نتیجتاً اپنی جان کی بازی لگا دی۔
اقامتِ دین یعنی دین کے مکمل نظام کو زندگی میں قائم کرنا ہر دور میں اہلِ ایمان کا فریضہ رہا ہے، لیکن جدید دور میں یہ فریضہ کئی رکاوٹوں، فکری انحرافات، اور سیاسی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکا ہے۔آج کے دور میں اقامتِ دین کو یا تو محض انفرادی اصلاح تک محدود کر دیا گیا ہے، یا اسے شدت پسندانہ مزاحمت کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے، جس سے اس عظیم قرآنی فریضے کی جامعیت، اعتدال، اور مقصدیت دھندلا چکی ہے۔
اقامتِ دین کا حقیقی نمونہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرامؓ کی عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ صحابہ کرام وہ نفوسِ قدسیہ تھے جنہوں نے وحی کے سائے میں پرورش پائی، براہِ راست رسول ﷺ سے دین سیکھا، اور اس کو دنیا کے سامنے ایک زندہ و تابندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ اقامتِ دین یعنی دین کو اجتماعی، سیاسی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی نظام کے طور پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد صحابہ کی زندگیوں کا مرکزی عنوان تھی۔
ا…اقامتِ دین۔ قرآنی اور عملی بنیادیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:حسبى اللّٰهُ لا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ…سورہ التوبہ.. ١٢٩…اسلام صرف عقیدے کا نام نہیں بلکہ ایک عملی نظام ہے، جس کی اقامت کا مطالبہ قرآن بار بار کرتا ہے:الذينَ إِن مَكَّنّٰهُم فِي الأرضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الأُمورِ۔ الحج۔٤١۔ اقامت دین کی بنیاد اللہ کی حاکمیت و ربوبیت کو تسلیم کرنا۔ انسانی زندگی میں شریعتِ الٰہی کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا۔ باطل نظاموں کا انکار اور حق کے نظام کا قیام۔۔ اقامت دین کی قرآنی بنیادیں قرآن مجید نے اقامتِ دین کو محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے اجتماعی اور ریاستی ذمہ داری قرار دیا۔۔ وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔ آل عمران ..١٠٤۔۔ اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ یہ آیت اقامت دین کے لیے منظم جماعت کی تشکیل کا حکم ہے۔ مزید برآں، سورۂ توبہ کی آیات میں قتال (جہاد) کو اقامت دین کا ذریعہ بتایا گیا۔ قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ … وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ۔ التوبہ . ٢٩…. ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور دینِ حق کو قبول نہیں کرتے۔ یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اقامت دین صرف دعوت یا وعظ تک محدود نہیں بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ دین حق کو عملاً غالب کیا جائے۔
٢…. آثارِ صحابہ۔ اقامت دین کے عملی نمونے
اقامتِ دین: صحابہ کی زندگی کا مرکز و محورصحابہ کرام کا ایمان کسی نجی عبادت یا انفرادی نجات تک محدود نہ تھا، بلکہ ان کی زندگی کا محور لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ …الحدید. ٢٥ تھا—یعنی عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا۔ انہوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کی، اور اسی راہ میں ہجرت، قربانیاں، جہاد، اور حتیٰ کہ جانوں کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کیا۔خلفائے راشدین کا عملی اسوہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ اول کی حیثیت سے سب سے پہلے ان کا اقدام ارتداد اور منکرینِ زکوة کے خلاف اعلانِ جہاد تھا۔ انہوں نے فرمایا.. واللہ! اگر وہ اونٹ کی رسی بھی روکیں گے جو رسول ﷺ کے زمانے میں دیتے تھے، تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ صحیح بخاری.. یہ اقامت دین کے اصولی تحفظ کی علامت تھی کہ دین کا ایک بھی جزو ترک نہ ہونے پائے۔حضرت عمر بن خطابؓ اپنے دورِ خلافت میں عدل، مشاورت، نظمِ حکومت اور حدود اللہ کے قیام کو باقاعدہ ادارتی شکل دی۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں انہی کی قیادت میں زیر ہوئیں۔حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن کریم کی واحد مستند قرأت کے ذریعے دین کی تحریف سے حفاظت کی۔ خلافت کے نظم کو وسعت دی، بحری بیڑہ قائم کیا، اسلامی فتوحات کو آگے بڑھایا۔حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دورِ فتن میں دین کی اصل روح کو بچانے کے لیے باطل قوتوں کے خلاف قیام کیا، اور اصول و اخلاق کی جنگ لڑی۔خلفائے راشدین و صحابہ۔۔۔ اقامت دین کی پہلی جماعت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین زکوٰۃ سے قتال کیاحضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی عدل و قانون کا پہلا باقاعدہ نظام نافذ کیا۔۔ حضرت علیؓ المرتضى امت کے انتشار میں بھی اقامت حق کی علامت بنے۔۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ، ان حضرات نے دین کو نظامِ عدل و سیاست کے طور پر نافذ کیا، نہ کہ محض ذاتی عبادت۔فاتحین صحابہ اقامت دین کی عالمی توسیع ۔۔۔ حضرت خالد بن ولیدؓ، سیف اللہ کہلائے۔ روم و فارس کی فوجوں کے خلاف عظیم فتوحات حاصل کیں۔ اقامتِ دین کے لیے ان کی شمشیر ہمیشہ میدان میں رہی۔حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر کو فتح کیا اور اس خطہ میں اسلامی حکومت کا نظام قائم کیا، جس نے بعد ازاں دنیا میں علوم و تمدن کی عظیم روایات کو جنم دیا۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، ایران کا مشہور معرکہ قادسیہ انہی کی قیادت میں ہوا۔ مدائن اور تیسفون فتح کر کے اسلامی ریاست کو فارس تک وسعت دی۔سعد بن ابی وقاصؓ — فاتحِ قادسیہ ایران کو فتح کرکے وہاں اقامتِ دین کی بنیاد رکھی۔ ان کے ذریعے اسلامی عدل و قانون وہاں قائم ہوا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اقامت دین کے فریضے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ ان کی جدوجہد نہ صرف تبلیغی تھی بلکہ نظامِ جاہلیت کے خلاف عملی اقدام پر بھی مشتمل تھی۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایران کی سلطنت کو عدل و توحید کے پیغام سے بدل دیا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر کو ظلم و کفر سے نکال کر اسلام کے نظام کے تابع کیا۔ امین الامت حضرات ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے شام میں اسلامی حکومت قائم کر کے اقامت دین کی روشن مثال قائم کی۔ سیدین السعیدین الشباب اہل الجنہ حسنین کریمینؓ کی قربانیاں، خصوصاً امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت، اقامتِ دین کی وہ روشن مثال ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
٣… مجاہدین اسلام اور اکابر علمائے و فقہاء حق کا کردار
اقامت دین کی جدوجہد میں علماء و مجاہدین کی تاریخ ساز خدمات ۔صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین، مجاہدین اور علمائے حق نے اقامت دین کا سلسلہ جاری رکھا۔ سیدنا زید بن علیؒ نے اموی سلطنت کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ سیدنا محمد نفسِ زکیہؒ نے عباسی خلفاء کی بے دینی و ظلم کے خلاف مدینہ میں جہاد کیا۔امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہاء امت محمدیہ نے حاکموں کے ظلم کے باوجود حق کا علم بلند رکھا۔ اکابر علمائے دیوبند، اہل حدیث، بریلوی اور دیگر مکاتب فکر کے علماء نے دین کے تحفظ اور اقامت کے لیے قربانیاں دیں۔ مجاہدین و علمائے ربانیین، اقامت دین کے علمبردار طبقہ اسلام صرف عقائد یا عبادات کا نام نہیں، بلکہ ایک نظامِ حیات ہے۔ اس نظام کے نفاذ کے لیے ہر دور میں اللہ نے ایسے مجاہدین و علماء پیدا کیے جنہوں نے:باطل نظاموں سے ٹکر لی عوام الناس میں دینی شعور بیدار کیا اپنے علم کو صرف “قال و قیل” نہیں بلکہ “عمل و قتال” کا ذریعہ بنایاقرآن کریم۔۔۔ وَلَيَنصُرَنَّ اللّٰهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ الحج۔ ٤٠۔ ترجمہ۔ اللہ ضرور اُن کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں، بیشک اللہ قوی اور غالب ہے۔ بنو امیہ و عباسی ادوار کے علماء و مجاہدین، امام ابو حنیفہ… نے ظالم حکمرانوں کی بیعت سے انکار کیاقید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔۔ امام مالکؒ نے ۔۔۔ طلاق مکرہ، یعنی زبردستی طلاق کا مسئلہ ۔۔ جیسا فتویٰ دے کر حکمرانوں کے غلط فیصلے پر جرأت کی۔۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فتنہ خلق قرآن میں کوڑے کھائے، مگر باطل کے آگے نہ جھکے نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ، علمائے حق کا یہ طبقہ تلوار سے نہیں بلکہ علم و عمل، استقلال و استقامت سے اقامت دین کا عملی مظہر بنا۔۔ مجاہدین اسلام، شمشیر و علم کے وارث ، صلاح الدین ایوبیؒ نے نہ صرف بیت المقدس آزاد کرایا بلکہ اسلامی عدل کو فروغ دیاعلماء، قضاۃ اور محتسبین کی سرپرستی کی ۔۔ نور الدین زنگیؒ نے اقامت عدل، اور نظام قضا کے اصلاحی اقدامات منبرِ اقصیٰ بنوایا تاکہ یروشلم کی بازیابی کی یاد قائم رہے۔۔۔ امیر تیمورؒ نے فاسق حکمرانوں، غیر اسلامی بادشاہتوں کے خلاف خروج کیا مدارس، مساجد، اور اسلامی حکومت کو فروغ دیا۔۔۔ برصغیر کے علمائے حق نے فتنہ استبداد و استعمار کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے مغل شہنشاہ اکبر کے دین الہٰی کو للکارا ۔ اکبر کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں جھکنے سے انکار کیا۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسلامی خلافت و سیاست کی بحالی کا فلسفہ مغل زوال کے دور میں جہاد کا فکری مقدمہ تیار کیا۔۔ سید احمد شہیدؒ و شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سکھوں کے خلاف مسلح جہاد، اسلامی حکومت کے قیام کی عملی کوشش ، توحید اور اتباع سنت، کا انقلابی پیغام دیا ۔علمائے دیوبند نے 1857 کی جنگ آزادی، تحریک ریشمی رومال مدارس کے ذریعہ فکری و دینی مزاحمت کی۔۔ مولانا مودودیؒ نے اقامت دین کو جدید علمی، سیاسی اور دستوری زبان دی”تحریک اسلامی” کا فکری خاکہ پیش کیا اقامت دین کے حق میں ان علماء کا مشترکہ منہج نظامِ باطل سے براءت اسلامی حکومت کے قیام پر زور تعلیم، دعوت، اور سیاست کو دین کے تابع کرنے کی کوشش کتاب و سنت، اجماعِ صحابہ، اور تعاملِ امت کی روشنی میں تحریکات برپا کرنا ۔۔۔۔۔اقامت دین کا فریضہ علماء اور مجاہدین کی وراثت ہے ، اقامت دین صرف قاضی یا خلیفہ کا کام نہیں ہر صاحب علم، بصیرت اور غیرت مند فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ فکری جہاد کرے دعوتی و تعلیمی کوشش کرے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اگر موقع ہو تو سیاسی اور عملی اقدام بھی کرے۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ، علمائے ربانی، مجددین، فقہائے دین اور مجاہدین اسلام نے ہمیں بتا دیا کہ دین کا غلبہ صرف اقوال یا خطبات سے نہیں آتا، بلکہ علم، عمل، قربانی، قیادت اور حکمت عملی سے ممکن ہے۔آج اقامت دین کے خواہاں افراد کو انہی کے راستے پر چلنا ہوگا: اتحاد، اخلاص، جرأت، استقامت اور قربانی کا راستہ۔
٤… عدل و انصاف کے قیام اور اہلِ قسط کا قتل
قرآن کی رو سے:“وَالَّذِينَ قُتِلُوٌا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ” ترجمة، جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردئے جاتے ہیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔۔سورہ۔محمد آیت ٤۔۔۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اقامت دین اور عدل و قسط کے قیام کے لئے نکلے، انہیں ظالم حکمرانوں نے شہید کر دیا۔۔ سیدنا امام حسینؓ کی شہادت حضرت زید بن علیؒ اور حضرت نفس زکیہؒ کا قتل، امام احمد بن حنبلؒ پر کوڑوں کی بارش، امام ابو حنیفہ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اقامت دین کی راہ میں جان دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ قرآنی اصول کے تحت عدل و قسط کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا فرمان ، ۔۔۔إِنَّ اللّٰهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤدُّوا الأَماناتِ إِلىٰ أَهلِها ۖ وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ…۔۔۔ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل سے فیصلہ کرو. سورہالنساءآیت ٥٨…..۔ اسلام میں عدل محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ریاست و معاشرے کا بنیادی ستون ہے۔ مگر تاریخ میں بارہا عدل کے داعی کو فتنہ گر اور قسط کے قائم کرنے والے کو مفسد قرار دیا گیا۔ حق کے داعیوں پر خروج کا الزام ، حق کی دعوت جب طاقتور ظالم نظام کے مقابل آتی ہے، تو حکمران اُسے دین کا انکار نہیں بلکہ اقتدار کا چیلنج سمجھتے ہیں۔ یوں دین پر عمل کو بغاوت قرار دیا جاتا ہےحق گو کو فتنہ پرداز اور غدار کہا جاتا ہےاصلاح کی کوشش کو خروج اور مفسد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔ جو اللہ کے بندے عدل کا قیام چاہتے ہیں، وہ باطل کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں۔۔۔حضرت امام حسینؓ کا کردار۔۔۔ عدل کی خاطر شہادت کا جامع پی لیا اور یزید کی بے انصافی و ظلم کے خلاف قیام ، خلافت کو وراثت بنانے کے خلاف احتجاج مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا تک کا سفر عدل و انصاف تک رسائی اور دین کی سربلندی کے لئے تھا۔۔شہید کربلا کا پیغام۔۔۔ میں خروج اس لیے کر رہا ہوں تاکہ امت کو رسول اللہ ﷺ کے دین پر واپس لاؤں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں گا نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ حق کے قیام کی پاداش میں شہادت اور خاندانِ نبوت کی قربانی تاریخ کی ابدی حقیقت بن گئی۔ اہلِ قسط کا قتل،۔۔۔ تاریخ کی تکرار۔۔۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی مکہ مکرمہ میں اسلامی خلافت کی کوشش کی اور حجاج بن یوسف کے ظلم سے شہادت کا جام نوش فرمایا ۔۔۔۔ امام زید بن علیؒ کی خلافتِ امیہ کی ناانصافی کے خلاف خروج اور اس کی پاداش میں شہادت اور سر کو کوفہ کی گلیوں میں لٹکایا گیا۔۔۔ علماء حنفیہ و مالکیہ۔۔۔جابر حکمرانوں کی بیعت سے انکارپر قید، کوڑے، اور قتل کے واقعات۔۔۔ امام نوویؒ، امام ابن تیمیہؒ کی ظلم کے خلاف فتویٰ و تحریر، قید و بند اور جلا وطنی۔۔۔ برصغیر میں قسط کے داعی ۔۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد بریلوی نے توحید، سنت، اور عدل کا پرچم بلند کیا ،سکھ استبداد کے خلاف جہاد کیا اور بالاکوٹ میں شہادت پائی ۔۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ۔۔خلافت اور عدل اسلامی کا داعی جلا وطنی، قید و مشقت، مگر فکر پر قائم ، تحریک خلافت و جنگ آزادی ، عدل کی بحالی، استعمار کے خلاف اتحاد، قید و شہادت ،جدید دور میں خروج برحق اور ظالم نظام کی طرف سے ظلم ۔ مسلم دنیا میں۔۔۔ عرب میں علماء و مصلحین کا قتل مصر، شام، اور فلسطین میں عدل کے داعیوں پر پابندیاں کشمیر و افغانستان میں مزاحمت کرنے والوں پر دہشت گردی کے الزامات۔ ۔ یہ قربانیاں پیغام دیتی ہیں کہ اسلامی عدل و قسط کو نافذ کرنا ایک قانونی جنگ سے زیادہ، اخلاقی و دینی فریضہ ہے، جس کی راہ میں قربانیاں ناگزیر ہیں۔ عدل و قسط کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں قدرتی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ اہل حق قتل ہوتے رہے، مگر ان کا پیغام زندہ رہا اقامت دین اور عدل کی جدوجہد کو آج بھی زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرہ اگر خاموش رہے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے۔۔ عدل و قسط کا قیام انبیاء، صحابہ، اور علماء کا مشترکہ مشن ہے۔ اس راہ میں قتل، قید، اور الزام جیسے مراحل آتے ہیں، لیکن یہی قربانیاں قوموں کی تقدیر بدلتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم تاریخ کے ان درخشاں نقوش کو مشعلِ راہ بنائیں اور ظلم کے نظام کو عدل کے نظام میں بدلنے کی کوشش کریں۔
٥…. فرقہ واریت، اقامت دین کی سب سے بڑی رکاوٹ
فرقہ واریت دین اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرتی آرہی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔۔۔إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ۔۔ یفعلون — سورہ الأنعام ۔١٥٩ … ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ ہو گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، پھر ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے۔۔۔۔۔— فرقہ واریت کی وجوہات..— اصول دین میں اختلافات صحابہ کے تعامل سے انحراف خواہشات اور سیاسی مفادات کو دین کا رنگ دینا ..— اسلام کا پیغام ہے کہ اتحاد، اجتماعیت اور صراطِ مستقیم پر استقامت ۔۔ کتاب و سنت کی اصل تعبیر۔۔—- تفسیراتِ صحابہ اور اجماعِ امت۔ قرآنی تنبیہات، تاریخی حقائق، اور موجودہ دور کی تقسیم۔ فرقہ واریت۔۔۔۔— دین میں تفرقہ ڈالنے والوں سے رسول اللہ ﷺ بیزار ہیں۔یہ تفرقہ وہ ہے جو اصول دین میں کیا جائے، یعنی ایمان، توحید، رسالت، اور آخرت جیسے بنیادی عقائد میں۔فرقہ واریت کی قرآن و سنت میں شدید وعید آئی ہے ..— سورۃ آل عمران، آیت ١٩ میں اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔ إنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔۔۔—ترجمہ، بیشک اللہ کے نزدیک (معتبر) دین اسلام ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے آپس کی ضد و حسد سے، علم آنے کے بعد اختلاف کیا، اور جو اللہ کی آیات کا انکار کرے تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔—–سورہ روم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔—مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا…الروم.آیت ٣٢…— فرقہ بندی اقامتِ دین کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن فرقہ واریت کو دین سے انحراف قرار دیتا ہے۔ کہ جو لوگ اصولِ دین میں پھوٹ ڈالیں اور فرقے بن جائیں، وہ اس دین کا حصہ نہیں رہے جس کے داعی نبی کریمﷺ تھے۔۔۔۔—تفسیر مظہری ۔۔تشریح۔ جمہور صحابہ کرام کے منہج سے ہٹ کر قرآن و سنت کی تاویلات کرنا فرقہ واریت کی بنیاد ہے۔ اختلاف فروع میں ہو سکتا ہے، اصول میں نہیں۔ یہی فرقہ واریت ملتِ اسلامیہ کو کمزور کر چکی ہے اور غلبہ دین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔فرقہ بندی محض جہالت نہیں، بلکہ علم رکھنے کے باوجود ضد اور بغض کی پیداوار ہے۔یہ اختلاف عقیدہ اور غلبۂ دین کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔فرقہ واریت کا آغاز۔۔۔— علمی و سیاسی انحراف خلفائے راشدین کا دور۔۔۔— پوری امت ایک مرکز پر جمع تھی اصول دین، حکومت، قضاء، تعلیم، اور جہاد سب ایک مرکز سے چلتے تھے۔ بعد ازاں خلافت ، ملوکیت میں بدلی اور سیاسی و قبائلی مفادات غالب آئے۔ اصول دین میں مناظرانہ اختلافات پیدا ہوئےاعتقادی فرقے (خوارج، قدریہ، مرجئہ، رافضیہ اور ناصبی ، معتزلہ وغیرہ) ابھرنے لگے۔۔ صحابہ کرامؓ کا منہج۔۔۔—- تفرقہ سے بچاؤ کی عملی مثال—ما أنا عليه وأصحابي — وہی راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں—۔۔ حدیث افتراق امت۔۔۔—صحابہ کرامؓ نے قرآن و سنت کو اجتماعی فہم کے تحت سمجھا ، اختلافِ رائے تھا، مگر اصول دین میں کوئی تفریق نہ تھی ان کا تعامل (عملی اتفاق) ہی دین کا معیار ٹھہرا۔ فرقہ واریت اس وقت پیدا ہوئی جب جمہور صحابہؓ کی تفسیر، تعامل اور فہم کو چھوڑ کر ہر فرقہ نے اپنی بات کو حقیقی دین قرار دینا شروع کیا۔ اور اسی میں خوش ہوئے—-موجودہ دور میں فرقہ واریت کی خطرناک شکل اور فکری تقسیم۔۔—ایک فرقہ دوسرے کو کافر، بدعتی، یا گمراہ سمجھتا ہےدعوت، اصلاح اور اقامت دین کی تحریکیں بکھر گئیں۔۔۔— عملی تقسیم۔۔— اتحاد امت کی بجائے گروہی رسومات، مخصوص میلاد، مجالس، اور جلسے دین کا مزاج قبائلی سیاسی پارٹیوں جیسا ہو گیا۔۔ مساجد، مدارس، اور خانقاہیں بھی گروہی نشانیاں کہ یہ فلاں فرقہ کی مسجد ہے، اتحاد کی بجائے پہچان کی علامت بن گئیں ۔ اقامت دین پر فرقہ واریت کا عملی اثر دین کی اجتماعی دعوت غیر مؤثر ہو گئی ۔ حکمرانی، معیشت، اور قانون سازی میں دین کا غلبہ مقصد نہیں رہا، ہر فرقہ اپنے جزوی مسائل میں الجھ کر اقامت دین کو بھول گیا المختصر اقامت دین ایک اجتماعی فریضہ ہے، اور فرقہ واریت اجتماعیت کو ختم کر کے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔۔۔۔—علاج اور راہِ نجات،۔۔۔— فکری اتحاد، کتاب و سنت، اور تعامل صحابہؓ۔ الف۔ اصول دین میں وحدت پر زور ۔ ۔—-توحید، رسالت، آخرت، قرآن، سنت – ان میں کوئی اختلاف نہ ہو جمہور صحابہ کا منہج معیار ہو۔ ب۔ فروعات میں وسعت۔۔۔— ائمہ دین، محدثین، فقہاء کا اختلاف دلیل و حکمت پر تھا ان کو فرقہ نہ بنایا جائے ۔۔— ج، دعوتِ اقامت دین کو مرکز بنایا جائے۔۔–”فقہی و کلامی بحثوں کی بجائے نظامِ دین کی بحالی پر زور ہو سیاسی، تعلیمی، معاشی میدانوں میں اتحاد عمل ہو۔۔۔ اتحاد، اقامت دین کی بنیاد ہے، امت کا اصل زوال اس وقت شروع ہوا جب اس نے اصول دین میں اختلافات پیدا کر لئے اور جمہور امت، صحابہ اور سلف کے منہج کو چھوڑ دیا۔ فرقہ واریت نہ صرف فکری گمراہی ہے بلکہ اقامت دین کی راہ میں شیطانی رکاوٹ ہے، جس سے نجات پانا ہر اہل حق کی شرعی اور تاریخی ذمہ داری ہے۔
٦… سورہ العصر کی روشنی میں اقامت دین کا منہج۔وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ ترجمہ۔ زمانے کی قسم۔بیشک انسان ضرور خسارے میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔۔۔۔—- یہ سورت اقامت دین کا جامع منہج پیش کرتی ہے۔۔۔— ایمان عمل صالح، حق کی دعوت اور صبر و استقامت ہی چار عناصر اقامت دین کے ستون ہیں۔۔۔—۔یہ سورت اقامتِ دین کی چاروں بنیادی شرائط کو سمیٹتی ہے۔ ایمان دینی نظریہ، عمل صالح، انفرادی و اجتماعی نیکی ، تواصی بالحق۔ سچائی اور دین حق کی دعوت تواصی بالصبر، مزاحمت، استقامت اور قربانی۔۔۔—-
٧… جدید دور میں اقامت دین کی تعبیر
اقامت دین کی قرآنی تعبیر ۔ وقت سے ماورا فریضہ
وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰى أَمْرِه، وَلٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ..— یوسف۔۔ آیت ۔٢١
ترجمہ: اللہ اپنے حکم پر غالب ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔
اقامت دین آج بھی ایک زندہ فریضہ ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ فکری طور پر قرآن و سنت پر مبنی ہے، عملی طور پر صحابہ کرام، اہلِ بیت العظام اور مجاہدین کے راستے پر، اور حکمت کے ساتھ موجودہ حالات میں ایک متوازن، پُرعزم اور تعمیری جدوجہد کا نام ہے۔
حاصل کلام۔۔۔— اقامت دین وقت کی ضرورت بھی ہے، امت کا مشن بھی—-
لہذا دین کی جامعیت کو پیش کریں۔۔
فرقہ واریت سے دور رہ کر اتحاد پر کام کریں۔۔۔
آن لائن دعوتی مواد تخلیق کریں۔۔۔۔
خود تعلیم یافتہ بنیں اور دین کا علم سیکھیں۔۔۔
عملی نکات.
کردار سازی، مہارت اور دعوت کا امتزاج کو اپنا شعار بنائیں۔۔
فکری غلامی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔۔
جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو فکری بیداری کی تعلیم دیں۔
اقامت دین اور مسلم نوجوان…. امید کا سرچشمہ ہے۔۔۔
طاغوتی طاقتوں کے خلاف عملی مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔۔
اسلامی آئین، نظامِ حکومت، دعوتی نظم پیدا کریں ۔۔
اقامت دین کے لئے تعلیمی، دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کریں …
تفرقہ بازی سے پرہیز کریں۔۔
اسلامی تنظیمی ڈھانچے
زکوٰۃ و وقف کے جدید ادارے قائم ہوں۔
اسلامی مالیاتی نظام کی ترویج ہو۔۔
سود سے پاک بینکنگ کا نظام متعارف ہو۔۔
اسلامی معیشت کا قیام کو لازمی جز بنائیں۔
فکری رہنمائی کے لئے مؤثر بیانیہ کو تشکیل دیں۔۔
ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو دعوت الی اللہ کا ذریعہ بنائیں۔۔
جدید علوم کے ساتھ فقہی و شرعی شعور کو بیدار رکھیں۔
تعلیم و تربیت کی اسلامی تشکیل کے لئے اسلامک ورلڈ ویو پر مبنی نصاب متعارف کرائیں۔۔
جدید تناظر میں اقامت دین کے لئے مؤثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کریں۔۔
آپس میں مشاورت، شفاف حکومت، بیت المال، عدالتی نظام، دعوت و تبلیغ دین کو فروغ دیں۔
قانون سازی اور نظامِ زندگی میں صرف شریعت کی اطاعت کریں۔
اللہ تعالٰی ہی کو حاکمِ اعلیٰ مانیں ۔۔
توحید پر راسخ العقیدہ اور غیر متزلزل ایمان رکھیں۔۔
اقامتِ دین کی فکری بنیادیں، عصرِ جدید کی روشنی میں رکھیں۔
اقامت دین کا میدان صرف منبر و محراب پر ہی نہ چھوڑیں، بلکہ میڈیا، یونیورسٹیاں، معیشت اور قانون سازی کے اداروں کو بھی شامل کریں۔
منفی پیغام۔ جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے!
اسلامی نظام کو بنیاد پرست اور شدت پسند لوگوں سے دور رکھیں۔۔
مغربی اقدار کے فروغ سے اجتناب کریں۔۔
استحصالی مالیاتی ادارے جو اسلامی اصولوں سے متصادم ہیں کے قرضوں سے بچیں۔۔
سودی نظام کے غلبے سے بچیں۔۔
دین کو نجی یا ذاتی معاملہ قرار دینے سے احتراز کریں۔۔
سیکولر نظام کی حوصلہ شکنی کرنے والی حکمت عملی اپنائیں۔۔
جدید چیلنجز اور اقامتِ دین کے لیے بدلتا ہوا میدان!
اسلامی اصولوں کا غلبہ ہی اقامتِ دین ہے۔ معیشت سے لے کر سیاست تک، تعلیمی نظام سے لے کر عدلیہ تک،
مندرجہ ذیل آیت کریمہ ہر دور میں مسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کامل نظام ہے جسے غالب آنا ہے۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ۔ سورہ۔۔ الفتح
ترجمہ، وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کرے۔
آج اقامت دین کی کوششوں کو درج ذیل صورتوں میں بروئے کار لانا ضروری ہے۔۔۔—- دعوت و تبلیغ کا احیاء، شریعت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا فروغ۔۔—، شریعت کیمطابق عدل و انصاف اور معیشت کا قیام۔۔۔— میڈیا، قانون اور سیاست میں دین کی بالا دستی۔۔۔—۔ فقہی اختلافات کو امت کے اتحاد پر قربان کرنا۔۔۔—-
اقامت دین ایک قرآنی، نبوی، صحابہ اور علما کا مشن ہے جو آج بھی جاری ہے۔ فرقہ واریت، نفسانیت، اور مصلحت پرستی اقامت دین کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم کتاب و سنت اور آثار صحابہ کے منہج پر استقامت سے جمے رہیں، اور دین اسلام کو مکمل نظام حیات سمجھ کر اسے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی جدوجہد کریں۔
ولله اعلم بالصواب، طالب دعا۔۔ رشید احمد
- دین کی تکمیل: روحانی اصلاح یا سیاسی غلبہ؟ — ایک تنقیدی اور تقابلی تجزیہ
تحریر : رشید احمد گبارو
مولانا وحیدالدین خانؒ کی اصل عبارت کہ ،مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ انہوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ حکومت اور سیاسی عظمت ہے۔ حقیقت میں، مسلمانوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ اللہ سے تعلق اور اللہ کے آگے جوابدہی کا احساس ہے۔— مولانا وحید الدین خانؒ اس قول میں مسلمانوں کی اجتماعی سوچ پر تنقید فرما رہے ہیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمومی طور پر یہ باور کروایا گیا ہے کہ ان کے زوال کی وجہ صرف سیاسی اقتدار اور دنیاوی حکومت کا ختم ہونا ہے۔ یعنی انہوں نے جو کچھ کھویا ہے، وہ صرف خلافت، سلطنت یا دنیاوی طاقت ہے۔ مولانا مرحوم کے مطابق یہ ایک سطحی اور ظاہری سوچ ہے۔ دراصل، مسلمانوں نے جو اصل چیز کھوئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے جڑا ہوا روحانی تعلق ہے، اور آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہی کا گہرا احساس ہے۔ یہی وہ تقوی کی بنیاد تھی جو مسلمان کی شخصیت، کردار اور معاشرت کو مضبوط بناتی تھی۔ جب اللہ سے تعلق اور جوابدہی کا شعور ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں اخلاقی زوال، برےاعمال اور باہمی انتشار نے جنم لیا، جس کا اثر سیاسی میدان میں بھی ظاہر ہوا۔ یہ اقتباس دراصل ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم محض سیاسی یا دنیاوی اقتدار کی بحالی پر زور کے علاوہ اپنی اصلاح، ایمانی تعلق، اور تقویٰ کی طرف بھی پوری توجہ دیں۔ جب مسلمان دوبارہ اللہ کی بندگی، خشیت اور جوابدہی کے احساس کو اپنی زندگی میں مرکزی حیثیت دیں گے، تب ہی حقیقی عروج ممکن ہوگا۔
ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اور اسلام کے بطور دین اسکی جامعیت اور ہمہ گیری اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے صرف عبادات یا صرف سیاست و حکومت تک محدود نہ کیا جائے۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سنت نے دین کو انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا نظام قرار دیا ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں ایک خاص رجحان سامنے آیا ہے جس میں بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ، جب تک خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ عبادات قبول فرماتا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف تنگ نظری کو فروغ دیتا ہے بلکہ دین کی جامع روح کو محدود کر دیتا ہے۔یہ مضمون مندرجہ ذیل تین مرکزی نکات کا احاطہ کرتا ہے؛
بہلا نکتہ ، مولانا وحیدالدین خان کا فکری تناظر ؛ مولانا وحیدالدین خان کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دین کا اصل مقصد فرد کی اصلاح ہے۔ ان کے نزدیک اسلام ایک پرامن دعوتی تحریک ہے جو فرد کی فکری اور اخلاقی اصلاح کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا کرتی ہے۔بقول علامہ اقبال رح ، افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔ مولانا وحید الدین خانؒ کے مشہور کلمات کہ ، رسالت محمدیؐ کے بعد اس دنیا میں اب صرف دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں، قرآن اور صاحبِ قرآن کی سیرت۔ یہی دو چیزیں قیامت تک کے لئے انسانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔مولانا کے فکری نکات، کہ دین اسلام کو دعوت، اخلاق اور تدبر کے ذریعے غالب کیا جائے گا، نہ کہ بزورِ شمشیر۔موجودہ دور میں حکومت و خلافت کے قیام پر زور دینا، جبکہ اخلاقی بگاڑ اور فکری انتشار عام ہو، بے وقت کی راگنی ہے۔اسلامی انقلاب کا آغاز فرد کی ذات سے ہوتا ہے، نہ کہ ریاست کے قیام سے۔
دوسرا نکتہ ، قرآنِ مجید اور سنت نبوی کی روشنی میں دین کا مفہوم اور غلبہ
سورۃ البقرہ، آیت ٢٠٨، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
یہ آیت تمام مسلمانوں کو دین میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیتی ہے، یعنی ان کا عمل، اخلاق، لین دین، تعلقات، سب اللہ کی مرضی کے مطابق ہوں۔ اس آیت کا مطلب صرف سیاسی نظام میں داخل ہونا نہیں، بلکہ پوری زندگی کا اللہ کے حکم کے تابع بن جانا ہے۔
سورۃ الفتح، آیت ٢٨ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا
یہ آیت دین کے غلبے کی خبر دیتی ہے، مگر “غلبہ” کا مفہوم محض سیاسی تسلط ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی فکری، اخلاقی اور روحانی بالادستی بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا مکی دور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دین کی دعوت سیاسی اقتدار کے بغیر بھی غالب ہو سکتی ہے۔
سورۃ المائدہ، آیت ٣ ، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
یہ اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا جبکہ خلافت یا ریاست وجود میں آئے کم و بیش دس سال گزرے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی تکمیل صرف حکومت یا سیاسی غلبے سے ہی مشروط نہیں بلکہ وحی رسالت، عقائد، اخلاق، عبادات اور نظامِ حیات کے نازل ہو جانے سے ہو گئی۔
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ الذين یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۔ سورة النصر
جب اللہ کی مدد اور فتح (فتح مکہ) آ جائے ۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجئے اور ان سے مغفرت طلب کیجئے ۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے سورہ النصر۔
اس سورت میں نبی کریمﷺ کی بعثت کے مشن کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے، نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آپﷺ کی رخصت اس دنیا سے قریب ہے؛ لہذا آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ کثرت سے اللہ تعالی کی تسبیح وتحمید بیان کریں اور استغفار کریں۔حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی اچھے کام سے فارغ ہو جائیں، تو کام کی تکمیل پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی کی حمد و تسبیح کریں، نیز استغفار بھی کریں، تاکہ اللہ تعالی ان کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائیں، جو کام کے دوران ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس سورت میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق ہے کہ جب وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب ہو جائے، تو وہ اللہ تعالی کی طرف متوجّہ ہو کر تسبیح وتحمید اور استغفار کرے۔ام المومنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ مندرجہ ذیل ذکر پڑھتے تھے۔
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
حدیث شریف میں وارد ہے کہ اللہ تعالی کا یہ ذکر
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللهِ العَظِيم
قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بہت زیادہ وزن دار ہوگا کیونکہ یہ زبان میں پڑھنے میں ہلکے اور رحمٰن کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم روزانہ کچھ وقت نکال کر یہ ذکر اہتمام کے ساتھ کریں۔اسی طرح آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بکثرت
أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
پڑھتے تھے۔ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہﷺ نفل نماز کے اندر اپنے رکوع اور سجدہ میں
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغِفُرُ الله
پڑھا کرتے تھے۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ خوش خبری ہے اس شخص کے لئے، جو قیامت کے دن اپنے نامئہ اعمال میں کثرت استغفار پائے۔اس حدیث شریف میں اس شخص کو خوش خبری دی گئی ہے، جو ہمیشہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے۔چنانچہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر نظر نہ کرے اور نہ اپنے نیک کاموں سے مطمئن ہو جائے، بلکہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور اللہ تعالی کے سامنے اپنی بے بسی، عاجزی اور کمزوری کا اظہار کرے اور ہمیشہ اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی معافی مانگتا رہے۔دنیاوی حکومت کا کھونا اصل نقصان نہیں؛ اللہ سے رشتہ کھونا اصل نقصان ہے۔امت کی اصلاح کا آغاز سیاسی نعروں سے نہیں بلکہ قلبی تبدیلی سے ہوگا۔ اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو؟ اگر ہم واقعی امت کی عزت اور عظمت کی بحالی چاہتے ہیں توہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ ہمیں اپنی عبادت، اخلاق، اور کردار کو درست کرنا ہوگا۔ہمیں احساسِ آخرت کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ہوگا۔
تیسرا نکتہ، موجودہ انتہا پسندانہ موقف کا تنقیدی جائزہ
کچھ مسلمان بھائیوں کا یہ اجتہاد ہے کہ جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، نماز، روزہ، زکوٰۃ، دعوت و تبلیغ سب بے کار ہیں۔ دین مکمل نہیں اور اللہ راضی نہیں ہوتا۔بعض افراد کا اس حد تک یہ موقف سامنے آتا ہے کہ ، جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں ہوتا، عبادات قابلِ قبول نہیں ہوتیں، سود کا خاتمہ، زکوٰۃ کی تقسیم اور عدل کا قیام ممکن نہیں، اور اللہ کی ناراضگی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس موقف میں عبادات اور انفرادی اصلاح کو کم تر، اور سیاسی غلبے یا خلافت کو دین کی اصل قرار دیا گیا ہے۔ اس نظریے کی حمایت میں ادخُلوا فِی السِّلمِ کافَّةً ۔البقرہ اور ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی… الفتح، جیسی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن واقعتاً دین کے مکمل ہونے کو حکومت کے قیام سے مشروط کرتا ہے؟کیا اسلام کی اصل دعوت فرد کی اصلاح ہے یا نظام کا غلبہ؟ غلبہ کا مطلب فکری، روحانی، اور اخلاقی بالادستی بھی ہے۔نبی ﷺ کے مکی دور میں حکومت نہیں تھی، مگر دین نے فکری اور اخلاقی انقلاب برپا کر دیا۔اگر غلبہ کا مطلب صرف سیاسی تسلط لیا جائے، تو پھر مکہ کے تیرہ سالہ نبوی مشن کو دین کے غلبے سے خارج ماننا پڑے گا — جو سراسر غلط ہے۔
یہ نظریہ قرآن کے مزاج سے متصادم ہے:قرآن کریم میں بار بار انفرادی اعمال کی قبولیت پر زور دیا گیا ہے
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ . المائدہ: ٢٧
اللہ صرف پرہیزگاروں کا عمل قبول کرتا ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ. فصلت،٤٦
جو نیکی کرے، وہ اپنے ہی لئے کرے
قرآن کے مطابق، مومنین پر اصل نعمت اور احسان کیا ہے؟
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ۖ— آل عمران، ١٦٤
بیشک اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا جب اُن میں خود اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُن پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے، اُنہیں پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے
قرآن کی روشنی میں، اصل کامیابی کا معیار
روز محشر اللہ تعالٰی کے حضور، احساسِ جوابدہی جب ختم ہو جائے تو پھر قوموں کے اندر فساد، بےعملی، ظلم اور زوال جنم لیتا ہے۔
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ— سورۃ الزلزال
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی، وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی، وہ بھی اسے دیکھے گا
جب انسان یہ بھول جائے کہ اسے ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، تو پھر نہ انصاف باقی رہتا ہے، نہ دیانت، نہ اخلاق۔ سورۃ الزلزال میں قیامت کا وہ منظر بیان کیا گیا ہے جو ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے۔
احساسِ جوابدہی، بھولی ہوئی حقیقت
یہ قول مولانا وحیدالدین خانؒ کے بیان کی تائید کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پیش کردہ اسلام اور اللہ سے سچا تعلق ہی اصل عزت اور بلندی کا ذریعہ ہے۔
صحابہ کرامؓ کا فکری ورثہ
خلیفہ الراشد الثانی، امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق بن خطابؓ کا قول تاریخ کا ایک انمول سرمایہ ہے:
نحن قوم أعزنا الله بالإسلام، فمهما ابتغينا العزة بغيره أذلنا الله
ہم ایک ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، جب بھی ہم کسی اور ذریعے سے عزت چاہتے ہیں، اللہ ہمیں ذلیل کر دیتا ہے۔
زوال کی اصل وجہ، قرآن کی گواہی
قرآن مجید ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ انسان کی فلاح کا دار و مدار دنیاوی فتوحات یا اقتدار کے علاوہ اللہ تعالٰی سے سچا تعلق، عملِ صالح، اور تقویٰ پر ہے۔
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”— سورۃ الأنفال۔٥٣
یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی قوم کی نعمت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل دے
یہ آیت کریمہ اس امر کی صریح وضاحت کرتی ہے کہ زوال کسی خارجی سازش یا دشمنی سے نہیں بلکہ اندرونی فساد اور روحانی کمزوری سے آتا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ— سورۃ الأعلى
بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک کیا، اور اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی
یہ آیت کریمہ ظاہر کرتی ہے کہ کامیابی کا معیار وہی ہے جو اندرونی طہارت، اللہ کی یاد اور بندگی سے جُڑا ہوا ہو۔
خلافت یا حکومت دین اسلام کو نافذ کرنے کا مرکز ہے
خلافت یا اسلامی حکومت دین کے مقاصد کو نافذ کرنے کا مرکز و محور ہے۔ اگرصرف حکومت ہی سب کچھ ہوتی تو نبی کریم ﷺ مکہ میں تیرہ سال تک صرف تبلیغ اور تربیت پر زور نہ دیتے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو اجتماعی طور پر مرکز کی ضرورت ہر وقت ہے۔ تاکہ افراد اس مرکز سے جڑے رہیں۔
عبادات کو ناقابلِ قبول قرار دینا فتنہ پروری ہے
امت مسلمہ کے ایک طبقے کا یہ کہنا کہ جب تک حکومت نہ ہو، حج، نماز، دعوت و تبلیغ، زکوٰۃ سب بے کار ہیں، قرآن و سنت کی صریح مخالفت ہے۔
تکفیر اور شدت پسندی کی راہ
یہ نظریہ لوگوں کو عام حکومتوں کو کافرانہ نظام قرار دے کر فتنہ، بغاوت اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرتا ہے، جو کسی طور بھی اسلامی مزاج کے مطابق نہیں۔
دین کا توازن اور ترتیب اسلام ایک ہمہ گیر، توازن پر مبنی دین ہے۔
عقیدہ و توحید | عبادا ت و اخلاق | معاملات و معاشرتی اصلاح| حکومت و خلافت | عملی نفاذ کا ذریعہ یعنی دین کا آغاز فرد کی اصلاح سے ہوتا ہے، جبکہ انتہا ریاست کے قیام سے۔ اور یہی نبوی ترتیب ہے۔۔۔ پہلے قرآن سے دلوں کو بدلنا، پھر معاشرتی تبدیلی لانا، اور آخر میں عدل و حکومت کا قیام۔-سچ یہ ہے کہ،
ہم نے صرف خلافت ہی نہیں، اپنے نبی رحمت ﷺ کی تعلیمات، اللہ تعالی کی یاد ، اور روز محشر اپنے رب کے حضور احساسِ جوابدہی کھو دیا ہے۔
معروضی حالات میں واپسی کا راستہ صرف حکومت ہی نہیں، تقویٰ، علم اور عملِ صالح ہے۔یہ کہنا کہ “جب تک خلافت نہ ہو، اللہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کچھ قبول نہیں کرتا”، قرآن کے روحانی تصورِ بندگی سے متصادم ہے۔
خلافت کی اہمیت — لیکن ترتیب میں
اسلامی حکومت/ خلافت، عدل، اور نظامِ زکوٰۃ کی بہت اہمیت ہے، لیکن:
یہ مقاصدِ دین میں سے ہیں۔
یہ نتیجہ ہوتے ہیں۔
جو شخص یہ کہے کہ “نماز، روزہ، تبلیغ بے فائدہ ہیں جب تک خلافت نہ ہو”، وہ نہ صرف قرآن کے مزاج کو نظرانداز کر رہا ہے، بلکہ دین کی اصل روح سے بھی دور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دین کو فرد سے شروع کیا — دل سے، نیت سے، کردار سے — اور پھر امت کی اصلاح و تنظیم کی طرف بلایا۔
خلافت ہو یا حکومت، یہ دین کا اہم ترین جزو ہے۔
اسلام ایک تدریجی، توازن پر مبنی، ہمہ جہت دین ہے
نتیجہ و خلاصہ
فتنہ تکفیر، شدت پسندی اور بغاوت کی فضا بنانا
عام مسلمانوں کو مایوسی اور بدگمانی میں مبتلا کرنا
انفرادی اصلاح کو نظرانداز کرنا
عبادات کی توہین اور بے وقعتی
انتہا پسندانہ بیانیے کے خطرات
رسول اللہ ﷺ نے پہلے تزکیہ، تعلیم، دعوت، صبر اور حکمت کو بنیاد بنایا، تب جا کر مدینہ کی ریاست قائم ہوئی۔–اللہ! ہمیں دین کی صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے جو دین کو سیاست کا کھیل، یا طاقت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی سیرت کے مطابق توازن، حکمت اور رحمت سے دین پر چلنے کی توفیق دے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اپنے وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کے دو قومی نظریے اور سرحدوں کی حفاظت اور دفاع بشمول جملہ اسلامی ممالک پر بیرونی حملوں کی صورت میں جم کر ثابت قدمی سے دفاع کرنے کی ہمت دے ۔ رب ذوالجلال طاغوتی قوتوں سے امت مسلمہ کےمقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی قوت اور حوصلہ عطا فرمائے۔۔اللہ تعالٰی اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ہدایت اور ہمت عطا کرے تاکہ وہ اپنے زیر حکمرانی ریاستوں میں اسلام نظام نافذ کر سکیں۔۔۔
۔وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ
وللہ اعلم بالصواب۔ طالب دعا : رشید احمد
- دین کی تکمیل: روحانی اصلاح یا سیاسی غلبہ؟ — ایک تنقیدی اور تقابلی تجزیہ
تحریر : رشید احمد گبارو ؛
مولانا وحیدالدین خانؒ کی اصل عبارت کہ ،مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ انہوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ حکومت اور سیاسی عظمت ہے۔ حقیقت میں، مسلمانوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ اللہ سے تعلق اور اللہ کے آگے جوابدہی کا احساس ہے۔— مولانا وحید الدین خانؒ اس قول میں مسلمانوں کی اجتماعی سوچ پر تنقید فرما رہے ہیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمومی طور پر یہ باور کروایا گیا ہے کہ ان کے زوال کی وجہ صرف سیاسی اقتدار اور دنیاوی حکومت کا ختم ہونا ہے۔ یعنی انہوں نے جو کچھ کھویا ہے، وہ صرف خلافت، سلطنت یا دنیاوی طاقت ہے۔ مولانا مرحوم کے مطابق یہ ایک سطحی اور ظاہری سوچ ہے۔ دراصل، مسلمانوں نے جو اصل چیز کھوئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے جڑا ہوا روحانی تعلق ہے، اور آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہی کا گہرا احساس ہے۔ یہی وہ تقوی کی بنیاد تھی جو مسلمان کی شخصیت، کردار اور معاشرت کو مضبوط بناتی تھی۔ جب اللہ سے تعلق اور جوابدہی کا شعور ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں اخلاقی زوال، برےاعمال اور باہمی انتشار نے جنم لیا، جس کا اثر سیاسی میدان میں بھی ظاہر ہوا۔ یہ اقتباس دراصل ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم محض سیاسی یا دنیاوی اقتدار کی بحالی پر زور کے علاوہ اپنی اصلاح، ایمانی تعلق، اور تقویٰ کی طرف بھی پوری توجہ دیں۔ جب مسلمان دوبارہ اللہ کی بندگی، خشیت اور جوابدہی کے احساس کو اپنی زندگی میں مرکزی حیثیت دیں گے، تب ہی حقیقی عروج ممکن ہوگا۔
ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اور اسلام کے بطور دین اسکی جامعیت اور ہمہ گیری اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے صرف عبادات یا صرف سیاست و حکومت تک محدود نہ کیا جائے۔ قرآن مجیداور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سنت نے دین کو انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا نظام قرار دیا ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں ایک خاص رجحان سامنے آیا ہے جس میں بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ، جب تک خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ عبادات قبول فرماتا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف تنگ نظری کو فروغ دیتا ہے بلکہ دین کی جامع روح کو محدود کر دیتا ہے۔یہ مضمون مندرجہ ذیل تین مرکزی نکات کا احاطہ کرتا ہے؛
بہلا نکتہ ، مولانا وحیدالدین خان کا فکری تناظر ؛ مولانا وحیدالدین خان کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دین کا اصل مقصد فرد کی اصلاح ہے۔ ان کے نزدیک اسلام ایک پرامن دعوتی تحریک ہے جو فرد کی فکری اور اخلاقی اصلاح کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا کرتی ہے۔بقول علامہ اقبال رح ، افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔ مولانا وحید الدین خانؒ کے مشہور کلمات کہ ، رسالت محمدیؐ کے بعد اس دنیا میں اب صرف دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں، قرآن اور صاحبِ قرآن کی سیرت۔ یہی دو چیزیں قیامت تک کے لئے انسانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔مولانا کے فکری نکات، کہ دین اسلام کو دعوت، اخلاق اور تدبر کے ذریعے غالب کیا جائے گا، نہ کہ بزورِ شمشیر۔موجودہ دور میں حکومت و خلافت کے قیام پر زور دینا، جبکہ اخلاقی بگاڑ اور فکری انتشار عام ہو، بے وقت کی راگنی ہے۔اسلامی انقلاب کا آغاز فرد کی ذات سے ہوتا ہے، نہ کہ ریاست کے قیام سے۔
دوسرا نکتہ ، قرآنِ مجید سنت نبوی کی روشنی میں دین کا مفہوم اور غلبہ
سورۃ البقرہ، آیت ٢٠٨، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
یہ آیت تمام مسلمانوں کو دین میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیتی ہے، یعنی ان کا عمل، اخلاق، لین دین، تعلقات، سب اللہ کی مرضی کے مطابق ہوں۔ اس آیت کا مطلب صرف سیاسی نظام میں داخل ہونا نہیں، بلکہ پوری زندگی کا اللہ کے حکم کے تابع بن جانا ہے۔
سورۃ الفتح، آیت ٢٨ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا
یہ آیت دین کے غلبے کی خبر دیتی ہے، مگر “غلبہ” کا مفہوم محض سیاسی تسلط ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی فکری، اخلاقی اور روحانی بالادستی بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا مکی دور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دین کی دعوت سیاسی اقتدار کے بغیر بھی غالب ہو سکتی ہے۔
سورۃ المائدہ، آیت ٣ ، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
یہ اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا جبکہ خلافت یا ریاست وجود میں آئے کم و بیش دس سال گزرے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی تکمیل صرف حکومت یا سیاسی غلبے سے ہی مشروط نہیں بلکہ وحی رسالت، عقائد، اخلاق، عبادات اور نظامِ حیات کے نازل ہو جانے سے ہو گئی۔
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۔ سورة النصر
جب اللہ کی مدد اور فتح (فتح مکہ) آ جائے ۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجئے اور ان سے مغفرت طلب کیجئے ۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے
اس سورت میں نبی کریمﷺ کی بعثت کے مشن کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے، نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آپﷺ کی رخصت اس دنیا سے قریب ہے؛ لہذا آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ کثرت سے اللہ تعالی کی تسبیح وتحمید بیان کریں اور استغفار کریں۔حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی اچھے کام سے فارغ ہو جائیں، تو کام کی تکمیل پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی کی حمد و تسبیح کریں، نیز استغفار بھی کریں، تاکہ اللہ تعالی ان کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائیں، جو کام کے دوران ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس سورت میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق ہے کہ جب وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب ہو جائے، تو وہ اللہ تعالی کی طرف متوجّہ ہو کر تسبیح وتحمید اور استغفار کرے۔ام المومنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ مندرجہ ذیل ذکر پڑھتے تھے۔
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
حدیث شریف میں وارد ہے کہ اللہ تعالی کا یہ ذکر
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللهِ العَظِيم
قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بہت زیادہ وزن دار ہوگا کیونکہ یہ زبان میں پڑھنے میں ہلکے اور رحمٰن کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہیں۔لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم روزانہ کچھ وقت نکال کر یہ ذکر اہتمام کے ساتھ کریں۔اسی طرح آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بکثرت
أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
پڑھتے تھے۔ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہﷺ نفل نماز کے اندر اپنے رکوع اور سجدہ میں
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغِفُرُ الله
پڑھا کرتے تھے۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ خوش خبری ہے اس شخص کے لئے، جو قیامت کے دن اپنے نامئہ اعمال میں کثرت استغفار پائے۔اس حدیث شریف میں اس شخص کو خوش خبری دی گئی ہے، جو ہمیشہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے۔چنانچہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر نظر نہ کرے اور نہ اپنے نیک کاموں سے مطمئن ہو جائے، بلکہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور اللہ تعالی کے سامنے اپنی بے بسی، عاجزی اور کمزوری کا اظہار کرے اور ہمیشہ اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی معافی مانگتا رہے۔دنیاوی حکومت کا کھونا اصل نقصان نہیں؛ اللہ سے رشتہ کھونا اصل نقصان ہے۔امت کی اصلاح کا آغاز سیاسی نعروں سے نہیں بلکہ قلبی تبدیلی سے ہوگا۔ اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو؟ اگر ہم واقعی امت کی عزت اور عظمت کی بحالی چاہتے ہیں توہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ ہمیں اپنی عبادت، اخلاق، اور کردار کو درست کرنا ہوگا۔ہمیں احساسِ آخرت کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ہوگا۔
تیسرا نکتہ، موجودہ انتہا پسندانہ موقف کا تنقیدی جائزہ :
کچھ مسلمان بھائیوں کا یہ اجتہاد ہے کہ جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، نماز، روزہ، زکوٰۃ، دعوت و تبلیغ سب بے کار ہیں۔ دین مکمل نہیں اور اللہ راضی نہیں ہوتا۔بعض افراد کا اس حد تک یہ موقف سامنے آتا ہے کہ ، جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں ہوتا، عبادات قابلِ قبول نہیں ہوتیں، سود کا خاتمہ، زکوٰۃ کی تقسیم اور عدل کا قیام ممکن نہیں، اور اللہ کی ناراضگی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس موقف میں عبادات اور انفرادی اصلاح کو کم تر، اور سیاسی غلبے یا خلافت کو دین کی اصل قرار دیا گیا ہے۔ اس نظریے کی حمایت میں ادخُلوا فِی السِّلمِ کافَّةً ۔البقرہ اور ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی… الفتح، جیسی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن واقعتاً دین کے مکمل ہونے کو حکومت کے قیام سے مشروط کرتا ہے؟کیا اسلام کی اصل دعوت فرد کی اصلاح ہے یا نظام کا غلبہ؟ غلبہ کا مطلب فکری، روحانی، اور اخلاقی بالادستی بھی ہے۔نبی ﷺ کے مکی دور میں حکومت نہیں تھی، مگر دین نے فکری اور اخلاقی انقلاب برپا کر دیا۔اگر غلبہ کا مطلب صرف سیاسی تسلط لیا جائے، تو پھر مکہ کے تیرہ سالہ نبوی مشن کو دین کے غلبے سے خارج ماننا پڑے گا — جو سراسر غلط ہے۔
یہ نظریہ قرآن کے مزاج سے متصادم ہے:قرآن کریم میں بار بار انفرادی اعمال کی قبولیت پر زور دیا گیا ہے
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ . المائدہ: ٢٧
اللہ صرف پرہیزگاروں کا عمل قبول کرتا ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ. فصلت،٤٦
جو نیکی کرے، وہ اپنے ہی لئے کرے
قرآن کے مطابق، مومنین پر اصل نعمت اور احسان کیا ہے؟
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ۖ— آل عمران، ١٦٤
بیشک اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا جب اُن میں خود اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُن پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے، اُنہیں پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے
قرآن کی روشنی میں، اصل کامیابی کا معیار
روز محشر اللہ تعالٰی کے حضور، احساسِ جوابدہی جب ختم ہو جائے تو پھر قوموں کے اندر فساد، بےعملی، ظلم اور زوال جنم لیتا ہے۔
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ— سورۃ الزلزال
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی، وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی، وہ بھی اسے دیکھے گا
جب انسان یہ بھول جائے کہ اسے ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، تو پھر نہ انصاف باقی رہتا ہے، نہ دیانت، نہ اخلاق۔ سورۃ الزلزال میں قیامت کا وہ منظر بیان کیا گیا ہے جو ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے۔
احساسِ جوابدہی، بھولی ہوئی حقیقت
یہ قول مولانا وحیدالدین خانؒ کے بیان کی تائید کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پیش کردہ اسلام اور اللہ سے سچا تعلق ہی اصل عزت اور بلندی کا ذریعہ ہے۔
صحابہ کرامؓ کا فکری ورثہ
خلیفہ الراشد الثانی، امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق بن خطابؓ کا قول تاریخ کا ایک انمول سرمایہ ہے:
نحن قوم أعزنا الله بالإسلام، فمهما ابتغينا العزة بغيره أذلنا الله
ہم ایک ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، جب بھی ہم کسی اور ذریعے سے عزت چاہتے ہیں، اللہ ہمیں ذلیل کر دیتا ہے۔
زوال کی اصل وجہ، قرآن کی گواہی
قرآن مجید ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ انسان کی فلاح کا دار و مدار دنیاوی فتوحات یا اقتدار کے علاوہ اللہ تعالٰی سے سچا تعلق، عملِ صالح، اور تقویٰ پر ہے۔
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”— سورۃ الأنفال۔٥٣
یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی قوم کی نعمت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل دے
یہ آیت کریمہ اس امر کی صریح وضاحت کرتی ہے کہ زوال کسی خارجی سازش یا دشمنی سے نہیں بلکہ اندرونی فساد اور روحانی کمزوری سے آتا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ— سورۃ الأعلى
بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک کیا، اور اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی
یہ آیت کریمہ ظاہر کرتی ہے کہ کامیابی کا معیار وہی ہے جو اندرونی طہارت، اللہ کی یاد اور بندگی سے جُڑا ہوا ہو۔
خلافت یا حکومت دین اسلام کو نافذ کرنے کا مرکز ہے
خلافت یا اسلامی حکومت دین کے مقاصد کو نافذ کرنے کا مرکز و محور ہے۔ اگرصرف حکومت ہی سب کچھ ہوتی تو نبی کریم ﷺ مکہ میں تیرہ سال تک صرف تبلیغ اور تربیت پر زور نہ دیتے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو اجتماعی طور پر مرکز کی ضرورت ہر وقت ہے۔ تاکہ افراد اس مرکز سے جڑے رہیں۔
عبادات کو ناقابلِ قبول قرار دینا فتنہ پروری ہے
امت مسلمہ کے ایک طبقے کا یہ کہنا کہ جب تک حکومت نہ ہو، حج، نماز، دعوت و تبلیغ، زکوٰۃ سب بے کار ہیں، قرآن و سنت کی صریح مخالفت ہے۔
تکفیر اور شدت پسندی کی راہ
یہ نظریہ لوگوں کو عام حکومتوں کو کافرانہ نظام قرار دے کر فتنہ، بغاوت اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرتا ہے، جو کسی طور بھی اسلامی مزاج کے مطابق نہیں۔
دین کا توازن اور ترتیب اسلام ایک ہمہ گیر، توازن پر مبنی دین ہے۔
عقیدہ و توحید | عبادا ت و اخلاق | معاملات و معاشرتی اصلاح| حکومت و خلافت | عملی نفاذ کا ذریعہ یعنی دین کا آغاز فرد کی اصلاح سے ہوتا ہے، جبکہ انتہا ریاست کے قیام سے۔ اور یہی نبوی ترتیب ہے۔۔۔ پہلے قرآن سے دلوں کو بدلنا، پھر معاشرتی تبدیلی لانا، اور آخر میں عدل و حکومت کا قیام۔-سچ یہ ہے کہ،
ہم نے صرف خلافت ہی نہیں، اپنے نبی رحمت ﷺ کی تعلیمات، اللہ تعالی کی یاد ، اور روز محشر اپنے رب کے حضور احساسِ جوابدہی کھو دیا ہے۔
معروضی حالات میں واپسی کا راستہ صرف حکومت ہی نہیں، تقویٰ، علم اور عملِ صالح ہے۔یہ کہنا کہ “جب تک خلافت نہ ہو، اللہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کچھ قبول نہیں کرتا”، قرآن کے روحانی تصورِ بندگی سے متصادم ہے۔
خلافت کی اہمیت — لیکن ترتیب میں
اسلامی حکومت/ خلافت، عدل، اور نظامِ زکوٰۃ کی بہت اہمیت ہے، لیکن:
یہ مقاصدِ دین میں سے ہیں۔
یہ نتیجہ ہوتے ہیں۔
جو شخص یہ کہے کہ “نماز، روزہ، تبلیغ بے فائدہ ہیں جب تک خلافت نہ ہو”، وہ نہ صرف قرآن کے مزاج کو نظرانداز کر رہا ہے، بلکہ دین کی اصل روح سے بھی دور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دین کو فرد سے شروع کیا — دل سے، نیت سے، کردار سے — اور پھر امت کی اصلاح و تنظیم کی طرف بلایا۔
خلافت ہو یا حکومت، یہ دین کا اہم ترین جزو ہے۔
اسلام ایک تدریجی، توازن پر مبنی، ہمہ جہت دین ہے
نتیجہ و خلاصہ
فتنہ تکفیر، شدت پسندی اور بغاوت کی فضا بنانا
عام مسلمانوں کو مایوسی اور بدگمانی میں مبتلا کرنا
انفرادی اصلاح کو نظرانداز کرنا
عبادات کی توہین اور بے وقعتی
انتہا پسندانہ بیانیے کے خطرات
رسول اللہ ﷺ نے پہلے تزکیہ، تعلیم، دعوت، صبر اور حکمت کو بنیاد بنایا، تب جا کر مدینہ کی ریاست قائم ہوئی۔–اللہ! ہمیں دین کی صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے جو دین کو سیاست کا کھیل، یا طاقت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی سیرت کے مطابق توازن، حکمت اور رحمت سے دین پر چلنے کی توفیق دے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اپنے وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کے دو قومی نظریے اور سرحدوں کی حفاظت اور دفاع بشمول جملہ اسلامی ممالک پر بیرونی حملوں کی صورت میں جم کر ثابت قدمی سے دفاع کرنے کی ہمت دے ۔ رب ذوالجلال طاغوتی قوتوں سے امت مسلمہ کےمقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی قوت اور حوصلہ عطا فرمائے۔۔اللہ تعالٰی اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ہدایت اور ہمت عطا کرے تاکہ وہ اپنے زیر حکمرانی ریاستوں میں اسلام نظام نافذ کر سکیں۔۔۔
۔وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ
وللہ اعلم بالصواب۔ طالب دعا : رشید احمد گبارو
- گلگت ۔بلتستان کے ضلع دیامر کی وادی بابوسر کو ویران کر دینے والی سیلابی طغیانی — فطرت کا انتباہ اور انسان کی بے حسی کا انجام
تحریر: رشید احمد گبارو
بابوسر کی بلندیوں سے گزرنے والی وہ پر ہیبت سڑک، جو سیاحوں کے دلوں میں جنت کی سی تصویر بسا دیتی تھی، حالیہ دنوں میں ایک بھیانک خواب بن گئی۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی وادی تھک بابوسر میں اچانک آنے والے طوفانی سیلاب نے نہ صرف قیامت برپا کی بلکہ فطرت کے انتباہی پیغام کو ناقابلِ فراموش انداز میں ہم تک پہنچا دیا۔سیلابی تباہ کاریوں میں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کئی ایک زخمی ہیں جن میں کئی کی حالت نازک ہے، اور پندرہ سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ آٹھ سے زیادہ گاڑیاں پتھروں سے بھرے ہوئے طغیانی کے ریلے میں بہہ گئیں۔ مقامی باشندے اور حکومتی انتظامیہ نے بروقت ریسکیو آپریشن کیا، مگر ناموافق حالات اور ٹوٹا ہوا مواصلاتی نظام امدادی سرگرمیوں میں بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ آپٹکل فائبر لائن تباہ ہو چکی ہے اور ہزاروں سیاح وادی بابوسر سے پیچھے صوبہ خیبر پختون خواہ کی وادی کاغان/ناران اور آگے صوبہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر چلاس شہر اور وادی بابوسر کے مختلف دیہات پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہ ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے — انسانیت سے!
اس سانحے کو محض ایک قدرتی آفت کہنا سادہ لوحی ہوگی۔ یہ ایک نتیجہ ہے ، ان غیر فطری مداخلتوں کا، جو ہم برسوں سے قدرتی ماحول کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ ہم نے پہاڑوں کے سینے چیرے، قدرتی جنگلات کو کاٹا، ندی نالوں اور دریا کے بہاؤ کو روکا، اور سبز زمین و شاداب حسین وادی کو سیمنٹ اور اسٹیل کے قبرستانوں میں بدل دیا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان اعمال کا انجام کیا ہوگا؟ اب فطرت خاموش نہیں ہے۔ وہ بول رہی ہے ۔ طغیانی اور سیلاب کی گرج میں، زلزلے کی جھٹکے میں، اور بے موسمی بارشوں کے عذاب میں۔بند آنکھیں اور کھلے زخم بابوسر کا منظر آج صرف ایک جغرافیائی یا جیالوجیکل تباہی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی ناکامی اور بدعنوانی کا آئینہ ہے۔ ہم نے ترقی کے نام پر جو راستے اپنائے، وہ ہمیں زمین کی گہرائیوں میں تو لے گئے، لیکن شعور کی بلندی تک نہ پہنچا سکے۔ تھک بابوسر آج فطرت کی زبان میں کہہ رہا ہے:”مجھے چھیڑو نہیں، ورنہ میں بھی تمہیں چین سے جینے نہیں دوں گا۔فطرت کا قانون اٹل ہے یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب توازن بگڑتا ہے تو ردعمل آتا ہے۔ بابوسر وادی کے تھک نالے کے طغیانی کی صورت میں بپھرنا اسی ردعمل کی ایک قسط ہے۔ قدرتی جنگلات سے بھری وادیاں جو کبھی لہکتی اور مہکتی تھیں، آج ویران ہو چکی ہیں۔ ہریالی کی جگہ ملبے کا ڈھیر ہے۔ چشمے جو صحت مند زندگی کی ضمانت تھے، آج تباہی کا پیغام بن چکے ہیں۔ قدرت کے اس انتباہ کو اگر ہم نے پھر بھی نہ سنا تو کل بابوسر کی جگہ کوئی اور سرد صحرائی پہاڑی علاقہ ہوگا، اور منظر شاید اس سے بھی بھیانک ہوگا۔
کیا ہم جاگیں گے؟سوال یہی ہے۔
کیا ہم بابوسر کے المیے کو محض ایک خبر سمجھ کر بھول جائیں گے؟ یا اسے ایک موقع بنا کر اپنی روش پر نظر ثانی کریں گے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ترقی کو فطرت سے ہم آہنگ کریں، نہ کہ اس کے خلاف۔۔۔۔۔ آخری بات…بابوسر کا سیلاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت کی مہلتیں لا متناہی نہیں ہوتیں۔ اگر ہم نے زمین کو سنبھالا نہ دیا تو وہ ہمیں سنبھالنا چھوڑ دے گی۔اور اُس دن، انسانیت شاید صرف ایک خبر بن کر رہ جائے گی۔
وادی تھک/ بابوسر میں سیلابی تباہ کاریاں
چلاس سےوادی کاغان / ناران شاہراہ پر کل آنے والے خطرناک طغیانی والے سیلاب نے تو قیامت ہی برپا کر دی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سیلابی ریلے میں سیاحوں کی 8 سے زائد گاڑیاں بہہ گئیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے 4 زخمی سیاحوں کو بحفاظت نکال کر ہسپتال منتقل کر دیا ہے، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ تین سیاحوں کی لاشیں بھی نکال لی گئی ہیں جبکہ پندرہ سے زائد سیاح تاحال لاپتہ ہیں۔ سیلابی طغیانی کے باعث ہزاروں سیاح وادی بابوسر اور کاغان کے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ قدرت کا سر سبز تاج اور قومی درخت دیار کے گھنے جنگلات، بے دردی سے کاٹ کر زمین کو ویرانی کا لباس پہنا دیا گیا۔ سرسبز و شاداب وادیوں کو بے جان اور سرد صحرا میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی وادی کے پشتنی باشندگان نے زمین کو اب چونکہ ویرانی کا لباس پہنا دیا ہے۔ لہذا فطرت کے عین مطابق اب اس کے مضر اثرات، قدرتی آفات کے شکل میں رونما تو ہونگے۔۔
گلگت بلتستان کی وادی تھک / بابوسر میں اس اچانک آنے والے طوفانی سیلاب نے نہ صرف قیامت کا منظر پیش کیا بلکہ کئی قیمتی جانوں کا چراغ بھی گل کر دیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق، اس سانحے میں جاں بحق،اور زخمی افراد تاحال لاپتہ ہیں کی تعداد میں لمحہ بہ لمحہ اضافے کی خبریں آرہی ہیں ۔ سیلابی ریلے کی بے رحم موجوں میں بہی جانے والی گاڑیوں میں بھی ہر گزرتے گھڑی کے ساتھ اضافے کی بھی خبریں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں بغیر کسی تفصیل کے ساتھ موصول ہو رہی ہیں۔ اطلاع دینے والے حضرات کے مطابق زخمیوں کو مقامی باشندوں اور حکومتی ریسکیو ٹیموں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چلاس شہر کے ریجنل اسپتال منتقل کیا، جہاں بتایا جاتا ہے زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ۔
وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں، اس ے پہلے کہ فطرت مکمل طور پر بیدار ہو جائے۔
جب تک ہم نے اپنی روش نہ بدلی، بابوسر جیسے مناظر بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے آئیں گے — کبھی شمال کی برف پوش وادیوں میں، کبھی جنوب کی ساحلی پٹی پر۔
ہمیں رک کر سوچنا ہوگا — کب تک ہم فطرت کو آزماتے رہیں گے؟ کب ہم زمین کو صرف “وسائل” سمجھنے کے بجائے ایک “زندہ نظام” کے طور پر تسلیم کریں گے؟
یہ صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ایک انتباہ ہے۔
فطرت اپنے انداز میں حساب لیتی ہے۔ یہ سیلاب، یہ طوفان، یہ زلزلے، اور یہ بےموسمی بارشیں — سب اس بے دردی کا ردعمل ہیں جو ہم نے اپنی سر زمین کے ساتھ روا رکھا ہے۔ ہم نے پہاڑ کاٹ ڈالے، درخت اکھاڑ دیے، ندیاں روک لیں، اور سمجھے کہ فطرت کو زیر کر لیا ہے۔ لیکن قدرت کی خاموشی کو کمزوری سمجھنا ہماری سب سے بڑی بھول تھی۔
ہرگز نہیں۔
قدرت کے وہ حسین نظارے — جو کبھی ان وادیوں کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے — حضرت انسان نے اپنی خود غرض ترقی کے نام پر کاٹ کر زمین کو صحرا کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ وہ سر سبز و شاداب، زرخیز، اورصحت مند زندگی سے بھرپور خطے اب بےجان، سنسان اور ویران ہو چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا فطرت خاموش رہے گی؟
وادیاں جو کبھی سانس لیتی تھیں، اب سسک رہی ہیں۔
سیلاب نے نہ صرف زمینی راستوں کو کاٹ کر رکھ دیا بلکہ پورا مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ جدید مواصلاتی نظام متاثر ہو چکا ہے اور ہزاروں سیاح بابوسر کے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے لمحہ بھر کے لئے حضرت انسان کے غرور زدہ ترقی پر خاموشی توڑ دی ہو۔
یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک کڑی وارننگ ہے — قدرت کی طرف سے، فطرت کے ساتھ کی گئی انسان کی طویل بےرحمی کا جواب۔
نوٹ: یہ تحریر رائے عامہ کی بیداری کے لئے لکھی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اسے سنجیدگی سے پڑھیں اور آگے بڑھائیں۔ طالب دعاء ، رشید احمد گبارو
تھک / بابوسر وادی میں فلیش فلڈ اور سیلابی طغیانی سے تباہی کے مناظر / تصاویر
- فاتح اندلس، بطلِ اسلام طارق بن زیاد رحمہ اللہ تعالٰی علیہ
بطل اسلام عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد ؒ ، نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) اور پرتگال یعنی اندلس کی مسیحی حکومت پر قبضہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا، اور ٧١١-٧١٨ عیسوی میں ویسیگوتھک ہسپانیہ یعنی موجودہ اسپین اور پرتگال پر مسلمانوں کے فتح کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی فوج کے ہمراہ شمالی افریقہ کے ساحل سے آبنائے جبل الطارق کو عبور کیا ، انھوں نے اپنی فوجوں کو اس مقام پر مستحکم کیا جسے آج جبرالٹر کی چٹان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبرالٹر عربی نام جبل الطارق کا ہسپانوی ماخذ ہے،انھیں یورپ کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ خلافت اموی کے صوبہ افریقہ کے گورنر جناب موسی بن نصیر ؒ کے فوجی جرنیل اور کمانڈر تھے۔طارق بن زیاد 675ء میں الجزائر کے مغربی صوبہ وہران میں پیدا ہوئے، زندگی کی 45بہاریں دیکھنے کے بعد 720ء میں وفات پا گئے۔ طویل القامت طارق بن زیاد کی نسل سے متعلق مختلف روائتیں پائی جاتی ہیں۔پہلی روایت ان کو شمالی افریقہ کے بربر قبیلے سے جوڑتی ہے، دوسری روایت کے مطابق ان کا تعلق ایران کے صوبے حمدان سے تھا۔ تیسری روایت کہتی ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق یمن کے علاقے حضرموت سے تھا۔ طارق بن زیاد کے نسب کی طرح ان کی زندگی کا اختتام بھی پراسراریت کے پردوں میں دبا ہوا ہے۔
احراق سفن کا قصہ۔۔۔۔ طارق بن زیاد نے رمضان ٩٢ھ بمطابق جولائی٧١١ء میں اندلس کو فتح کیا۔ کہا جاتاہے کہ طارق جب آبنائے بحیرہ روم کے ذریعہ سمندر کو پار کرکے اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی فوج کو ہسپانوی فوج سے جنگ پر اکساتے ہوئے کہا: “اب بھاگنے کی جگہ کہاں۔ سمندر تمہارے پیچھے ہے اور دشمن تمہارے آگے ہے۔ خدا کی قسم اب تمہارے لئے صدق اور صبر کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حقائق کا گہرا تجزیہ بتاتا ہے کہ کشتیوں کو جلانے کا یہ قصہ محض قصہ گو قسم کے لوگوں کی ایجاد ہے ، وہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں۔ ایک عرب مصنف نے لکھا ہے کہ اسپین میں ایک مثل ہے کہ میں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی ساری طاقت خرچ کر دی۔ یعنی جنگ کرو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ ممکن ہے کہ یہی ہسپانوی مثل عربی میں ترجمہ ہوئی ہو، اورپھر کچھ لوگوں نے اس کو محض الفاظ کے معنی میں لے کر خود سے ہی کشتیوں کو جلانے کا افسانہ گھڑ لیا ہو۔طارق بن زیاد کا قافلہ پہلی صدی ہجری کے آخری عشرے میں ہسپانوی ساحل سمندر میں داخل ہوا ہے۔ اس زمانےکی معاصر تاریخ میں یا کسی بھی قریبی زمانے کی تاریخی دستاویز میں کشتیوں کے جلانے کا کوئی ذکر نہیں ۔ ابتدائی دور کی تمام کتب اس کے ذکر سے خالی ہیں۔ یہ قصہ پہلی بار ان کتابوں میں ملتا ہے جو اصل واقعہ کے ساڑھے چار سو سال بعد چھٹی صدی ہجری میں لکھی گئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جس واقعے کی خبر معاصر مؤرخین کو یا قریبی زمانے کے تاریخ دانوں کو نہ ہو سکی، اس کی خبر صدیوں بعد کے مصنفین کو کیسے ہو گئی۔طارق بن زیاد کے فتح ہسپانیہ ٩٢ھ کے بارے میں قدیم ترین ماخذ دو کتابوں کو مانا گیا ہے۔ یہ دونوں کتا بیں چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں۔ اور ان میں کشتیاں جلانے کا مطلق کوئی ذکر نہیں۔ وہ کتا بیں یہ ہیں : تاریخ افتتاح الاندلس ، ابن القوطیہ ، اخبار مجموعہ ، مصنف کا نام نامعلوم ، یہ کتاب چوتھی صدی ہجری ییں لکھی گئی۔ ان کے علاوہ چوتھی صدی ہجری میں کئی مشہور مسلم مؤرخ گزرے ہیں ۔ مثلاً ابن عبدالحکیم (فتوحات مصر و المغرب و الاندلس ) عبد الملک بن حبیب (مبتدأ خلق الدنیا) ابو بکر محمد القرطبی ( تاریخ افتتاح الاندلس) احمد بن محمد ، ابن الفرضی ( تاریخ علماء الاندلس )الخشنی (قضاة قرطبہ ) وغیرہ ۔ ان مؤرخین کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ طارق بن زیاد نے اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد اپنی کشتیوں کو آگ لگادی تھی۔ حتّٰی کہ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون تک کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ۔احراق سفن (کشتیوں کو جلانے) کا واقعہ پہلی بار چھٹی صدی ہجری میں بیان کیا گیا ۔ ابو مروان عبد الملک بن الکردبوس چھٹی صدی ہجری کا ایک مؤرخ ہے۔ اس نے اپنی کتاب تاریخ الاندلس میں اس قصے کو درج کیا۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ قصہ اس کو کس ذریعےسے معلوم ہوا۔ اس لئے آج ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس کے مآخذ کی تحقیق کریں۔دوسرا شخص جس نے ابتداءً اس قصے کو بیان کیا وہ بھی چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ یہ ابو عبد اللہ محمد الادریسی (م ٥٦٠ھ) اس نے نزھۃ المشتاق کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں احراق سفن کا قصہ درج کیا۔ مگر اس نے بھی اس کا کوئی ذریعہ نہیں بتایا۔ انھیں دونوں کتابوں کے حوالے سے دوسرے لوگوں نے اس قصہ کو نقل کرنا شروع کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ جو واقعہ لوگوں کو ساڑھے چار سو سال تک معلوم نہ تھا ، وہ ساڑھے چار سوسال بعد کس طرح لوگوں کے علم میں آ گیا۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ قصہ سراسر فرضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی دانش مند جرنیل ایسا نہیں کر سکتا۔ اسپین میں قیام کے دوران طارق بن زیاد کا رابطہ شمال مغربی افریقہ سے برابر جاری رہا۔ بفرض محال اگر کشتیاں جلا بھی دی جاتیں تو یہ رابطہ کیوں کر ممکن ہوتا۔ طارق بن زیاد نے اسپین کے حالات کا اندازہ کرنے کے بعد اموی گورنر موسٰی بن نصیر مقیم افریقہ سے مدد طلب کی۔ چنانچہ موسی بن نصیر نے پانچ ہزار مزید فوجی بطور امداد روانہ کئے ۔ یہ پیغام رسانی اور سمندر میں لشکر کی منتقلی کشتیوں کے بغیر کیسے ممکن ہوئی۔
تاریخی تفصیلات ما قبل و مابعد فتح اندلس
طارق بن زیاد رمضان ۹۱ ھ میں اسپین کے ساحل پر اترے تو ان کے ساتھ سات ہزار کا لشکر تھا۔ ساحل افریقہ اور اسپین کے درمیان دس میل کی آبنائے بحیرہ روم کو ، ان کے لشکر نے چار کشتیوں کے ذریعہ پار کیا تھا۔ اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانےکے ایک “مؤرخِ اسلام” لکھتے ہیں: “اس سے اس زمانہ کے جہازوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنے بڑے تھے” ۔موصوف نے قیاس کیا کہ پورا لشکر ایک ہی بار چار کشتیوں پر سوار ہو کر دوسری طرف پہنچ گیا ہوگا۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اس زمانہ میں ایسی کشتی وجود میں نہیں آئی تھی جس پر دو ہزار فوجی اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ بیک وقت بیٹھ سکیں۔ اصل یہ ہے کہ ان لشکریوں نے کئی پھیروں میں آبنائے جبل الطارق کو پار کیا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے آخر تک مسلمانوں نے افریقہ کو بحیرہ روم کے آخری ساحل تک فتح کر لیا تھا۔ بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ سے ختم ہو چکی تھی ۔ تاہم مراکش کے ساحل پر واقع سبطہ اور اس کے مضافات کے علاقے فتح اندلس سے پہلے ہسپانوی گورنر کاؤنٹ جولین کے قبضے میں تھے۔ یہاں رومیوں نے زبر دست قلعہ بنایا تھا۔ اموی گورنر موسٰی بن نصیر ؒ نے اس کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی طاقت دیکھ کر بالآخر انھوں نے مصلحت یہ سمجھی کہ جولین سے صلح کرلیں اور اس ساحلی قلعہ کو اس کے قبضہ میں چھوڑ دیں۔ افریقہ سے بازنطینی سلطنت کے خاتمے کے بعد سبطہ کے حاکم جولین نے اپنے سیاسی تعلقات اندلس کی عیسائی حکومت سے قائم کر لئے۔ اندلس سے برابر کشتیوں کے ذریعہ اس کو مدد پہنچتی رہتی تھی۔یہاں یہ سوال ہے کہ جو مسلمان سبطہ کے گورنر جولین سے خود اپنے مفتوحہ براعظم میں صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے ، انھوں نے سمندر پار کر کے خود اسپین پر حملہ کس طرح کیا۔ اس کا جواب زیر بحث مسئلہ کے تاریخی مطالعہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔415ء میں قوط قبائل اسپین میں گھس آئے اور پانچ سو سالہ رومی سلطنت کو ختم کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ بعد میں ان لوگوں نے ٹھیک اسی طرح مسیحی مذہب کو اختیار کر لیا، جس طرح سلجوقی سلاطین نے مسلم دنیا پر قابض ہونے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ گاتھ کا مقصد اس تبدیلی ٔمذہب سے یہ تھا کہ مقامی عیسائیوں کو مطمئن کر کے اسپین میں اپنے سیاسی اقتدار کو مستحکم کریں۔ جس زمانے میں مسلمانوں نے بازنطینی اقتدار کو شام، مصر، فلسطین سے ختم کیا ، طلیطلہ (ٹالیڈو) پر گاتھ کا آخری بادشاہ وئیکا (فیطشہ) حکمران تھا۔ وئیکا کی بعض کمزوریوں سے اس کے ایک فوجی افسر رذریق (راڈرک) کو موقع ملا کہ وہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے اور خود ہسپانیہ کا حکمران بن جائے۔سبطہ کا گورنر جولین اگرچہ وئیکا کا رشتہ دار تھا ۔ تاہم اس نے مصلحت کے تحت اپنی وفاداریاں رذریق سے وابستہ کر دیں۔ مگر بعد میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کو بے حد مشتعل کر دیا۔ اور اس کو اپنے بادشاہ کا مخالف کر کے مسلمانوں کے قریب کر دیا جو افریقی براعظم میں اس کے جغرافی پڑوسی تھے۔اس زمانے میں ہسپانیہ کا حکمراں طبقہ بدترین قسم کی عیاشیوں کا شکار تھا۔ رواج کے مطابق امراء کی لڑکیاں ایک خاص عرصے تک شاہی محل میں رکھی جاتی تھیں تاکہ شاہی آداب و قواعد کو سیکھ سکیں اور بادشاہ کی خدمت کریں۔بادشاہ رذریق کے عہد میں جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی اسی رواج کے مطابق شاہی محل میں داخل ہوئی۔ لڑکی جوان ہوئی تو بادشاہ رذریق اس پر فریفتہ ہو گیا اور جبری طور پر اس کی عصمت دری کی ۔لڑکی نے کسی طرح اس واقعے کی اطلاع اپنے باپ کو دے دی۔جولین کو اس واقعہ کا انتہائی صدمہ ہوا۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک رذریق کی سلطنت کو دفن نہ کرلے ، سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ چنانچہ وہ طلیطلہ گیا اور لڑکی کی ماں کی بیماری کا بہانہ کر کے اس کو سبطہ واپس لایا۔ اس کے بعد وہ موسی بن نصیر سے ملا اور درخواست کرکے تسخیر اندلس پر آمادہ کیا۔ اس نے موسٰی بن نصیر کو اندلس کی اندرونی کمزوریاں بتائیں اور وعدہ کیا کہ وہ خود اور اندلس کے بہت سے لوگ اس مہم میں اسلامی فوج کا ساتھ دیں گے۔ یہ واقعہ ٩٠ھ کا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جولین نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام مسلم رکھا تھا۔اس کے بعد اموی گورنر موسی ٰ بن نصیر ؒ نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک سے خط و کتابت کی۔ کئی خطوط کے بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے لکھا: ” مسلمانوں کو خوفناک سمندر میں نہ ڈالو ۔ اگر تم پُراُمید ہو تو ابتداءً تھوڑی سی فوج بھیج کر صحیح اندازہ کرو”۔ جناب موسٰی بن نصیر ؒ نے رمضان ۹۱ ھ میں مسلمانوں ایک کمانڈر طریف جناب ابوزرعہ طریف ؒ کو پہلی مہم کے طور پر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ اسپین روانہ کیا۔ سبطہ کے گورنر جولین (جو مسلمان ہوچکا تھا )بھی ان کے ساتھ تھا۔ شمالی افریقہ کے ساحلی ملک مراکش اور اسپین کے درمیان دس میل کا آبی فاصلہ ہے۔ ان لوگوں نے چار کشتیوں کے ذریعے اس کو عبور کیا اور دوسری طرف ساحل پر اتر گئے۔ یہ لوگ ساحلی علاقوں میں رہے اور وہاں کےحالات کا اندازہ کر کے دوبارہ واپس آگئے۔ اس کے بعد اگلے سال رمضان ٩٢ھ میں عظیم مجاہد جرنیل جنابطارق بن زیاد رحمہ اللہ کی سرکردگی میں سات ہزار کا لشکر دس میل کی آبنائے کو پار کر کے اسپین کے ساحل پر اترے تو کہا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد نے اپنی تمام کشتیاں جلادیں ۔ مگر کشتیاں جلانے کا واقعہ بعد کا اضافہ شدہ افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس زمانےمیں ، اور آج بھی ، فاتحین کی داستانوں میں اس قسم کے افسانوی اضافے عام رہے ہیں۔ تاریخ اندلس کی قدیم کتابوں میں یہ واقعہ سرے سے مذکور نہیں ۔ سینکڑوں سال بعد کے مؤرخین نے یہ مشہور کیا کہ آبنائے سمندر کو پار کر کے جب طارق بن زیاد اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنے فوجیوں کو خطبہ دیا کہ اے لوگو ! دشمن تمہارے سامنے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے ہے، تمہارے لئے خدا کی قسم اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ صبر کرو اور جم کر مقابلہ کرو۔اپنے سپہ سالار کے اس جوشیلے تقریر کو سن کر لشکری چیخ اٹھے : . طارق ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ جبکہ اس زمانے کے قریبی مؤرخین کے متفقہ تاریخ کے مطابق مخالف فوجوں سے مقابلہ ساحل پر اترتے ہی فورا ً پیش نہیں آیا تھا۔ بلکہ یہ خطبہ اس وقت دیا گیا تھا جب کہ عملاً مقابلہ پیش آیا تھا ۔ اندلس پر حملے سے پہلے طارق بن زیاد کے خطبے کےالفاظ: ” سمندر تمہارے پیچھے ہے۔ اللہ کی قسم اب سوائے ہمت و استقلال کے تمھارے لئے کوئی راستہ نہیں۔ یہی دونوں اوصاف ہیں، جو شکست نہیں کھا سکتے۔ تمھارا دشمن اپنی فوج اور سامانِ جنگ کے ساتھ مقابلے پر آچکا ہے۔ اس کے پاس سامانِ رسد کا ذخیرہ بھی وافر ہے، مگر تمھارے پاس کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دشمن سے یہ اسباب چھین کر حاصل کرلو۔ اگر تم نے کوتاہی کی اور بزدلی دکھائی تو تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ میں تمھیں ایسے مقام پر لایا ہوں، جہاں سب سے سستی چیز انسانوں کی جانیں ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے آپ سے شروع کرتا ہوں۔ مجھے تم جو کچھ کرتا ہوا دیکھو، اسی کی پیروی کرو۔ اگر میں حملہ کروں تو تم بھی ٹوٹ پڑو۔ لڑائی کے میدان میں سب مل کر ایک شخص واحد کی صورت اختیار کرلو‘‘۔ اس پُرجوش خطبے سے فوج کے دل عزم و ہمت، جوش و خروش اور فتح و ظفر کی امیدوں سے معمور ہوگئے۔ جب ۲۷؍ رمضان ۹۲ھ/ ١٩؍ جولائی ٧١١ء کی یادگار صبح کا سپیدہ نمودار ہوا تو طبل جنگ بجایا گیا۔ حملے کی ابتدا ہسپانیہ کے لشکر کی طرف سے ہوئی۔ گھمسان کا رن پڑا۔ ۲۷؍ رمضان سے ۵؍ شوال تک جنگ جاری رہی۔ بطل اسلام جناب طارق بن زیاد اور اس کی بہادر فوج نے بالآخر جنگ جیت لی اور اندلس کا اکثر حصہ فتح ہوگیا ، لوگوں میں عام ہوئے تو قصہ گووں نے اس میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا کہ یہ تقریر کشتیوں کو جلانے کے بعد کی گئی تھی۔ شاید ان کے نزدیک سمندر کے پیچھے ہونے کے لئے ضروری تھا کہ سمندر اور فوجوں کے درمیان سے کشتیوں کو ہٹایا جا چکا ہو۔ وائرلیس کے دور سے سینکڑوں سال پہلے سمندر پار کے ملک میں اترنے والا ایک کمانڈر اس حقیقت سے بےخبر نہیں رہ سکتا تھا کہ اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد یہی کشتیاں وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے وہ اپنے مرکز سے رابطہ میں رہ سکتا ہے۔ طارق بن زیاد اور گورنر افریقہ موسٰی بن نصیر کے درمیان پیغام رسانی کا دوسرا کوئی ذریعہ اس زمانے میں ممکن نہ تھا۔ یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ، ساحلِ اسپین پر اترنے اور مقابلہ پیش آنے کے درمیان تقریباً دو ماہ تک یہی کشتیاں تھیں جو دونوں کے درمیان باہمی رابطہ اور پیغام رسانی کا ذریعہ بنی رہیں۔ طارق جس مقام پر اترے اس کا نام قلۃ الأسد یعنی شیر کا چٹان تھا۔ بعد میں وہ جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام سے مشہور ہوا۔ طارق بن زیاد اسپین کے جس ساحل پر اترے وہ اس وقت ایک غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں ایک دشوار گزار پہاڑی کو جائے پناہ قرار دے کر وہ لوگ اکٹھے ہوگئے ، تاکہ حالات کو سمجھ کر آئندہ کا نقشہ بنا سکیں۔ اسپین کا بادشاہ رذریق ان دنوں بنبلونہ کی ایک جنگ میں مشغول تھا ، جہاں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی تھی۔ اس کو جب طارق بن زیاد کے اسپین میں داخلہ کی خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ ایک لاکھ فوج جمع کی جائے تاکہ مداخلت کاروں کو باہر نکالا جاسکے۔ طارق کا جاسوسی نظام بھی کام کر رہا تھا۔ انھیں جب رذریق کی تیاریوں کی خبر ملی تو انھوں نے فوراً اپنا ایک قاصد مزید کمک کے لئے گورنر افریقہ موسٰی بن نصیر کے کے پاس روانہ کیا۔ ادھر جناب موسی بن نصیر ؒ بھی بے تاب تھےاور مسلسل جنگی تیاریوں میں مشغول تھے۔ چنانچہ انھوں نے کشتیوں کے ذریعہ پانچ ہزار مزید سپاہی بھیج دیئے ۔ اس طرح طارق بن زیاد کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی۔ طارق بن زیاد نے پیغام رسانی کا یہ تمام کام کشتیوں کے ذریعہ کیا۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس زمانےمیں ممکن نہ تھا۔ اور پھر یہ کشتیاں ہی تھیں جنھوں نے پانچ ہزار فوجیوں کی دوسری قسط کو اسپین کے ساحل پر اتارا ، جس کے بعد طارق اس قابل ہوگئے کہ وہ اندلس کی سلطنت پر حملہ کر سکیں۔ طارق اگر اسپین کے ساحل پر اترتے ہی اپنی کشتیوں کو جلا دیتے تو یہ پیغام رسانی ممکن نہ ہوتی اور نہ مقابلہ کے وقت مزید کمک پہنچ سکتی۔
اس معرکہ میں گورنر سبطہ جولین بھی پوری طرح طارق بن زیاد کے ساتھ تھا۔ اس نے شاہ رذریق کے خلاف مقامی باشندوں کی ناراضگی سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تعلقات کی بنیاد پر ہسپانوی شہریوں کی ایک جماعت طارق بن زیاد کی خدمت میں حاضر کر دی۔ ان لوگوں نے دشمن کی خبریں فراہم کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور فوجی اعتبار سے کمزور مقامات کی اطلاع مسلمانوں کو دی اور مسلمانوں کی رہبری کرتے رہے ۔ دریں اثناء یہ واقعہ بھی مسلمانوں کے لئے ایک نعمت ثابت ہوا کہ تین سال ٨٨-٩٠ھ تک اندلس میں سخت قحط پڑا تھا ، اس کی وجہ سے اتنے لوگ مرے کہ کہا جاتا ہے کہ اندلس کی آبادی آدھی رہ گئی۔ مزید یہ کہ رذریق کی ایک لاکھ فوج میں ایک عنصر ایسا بھی تھا جو سابق ہسپانوی بادشاہ سے عقیدت رکھنےکی وجہ سے بیشتر باغی اندرون خانہ بادشاہ رذریق کے مخالف تھے۔ ان کے فوجی سرداروں میں شسسرت اور ابتہ بھی تھے جو سابق شاہ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے اپنی خفیہ میٹنگ کی اور کہا : “رذریق خبیث ہمارے ملک پر خواہ مخواہ مسلّط ہوگیا ہے ، حالانکہ شاہی خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہمارے یہاں کے کمینوں میں سے ہے۔ رہے مسلمان ، وہ تو صرف وقتی لوٹ مار کے لئے آئے ہیں۔ اس کے بعد اپنے وطن کو واپس چلے جائیں گے۔ اس لئے مقابلے کے وقت اس خبیث کو زک پہنچانے کے لئے ہم کو خود شکست کھا جانا چاہئے” ۔بادشاہ رذریق کی فوج کے ایک حصہ نے نہایت سخت جنگ کی مگر غیر مطمئن فوجیوں نے جنگ میں زور نہیں دکھایا۔ بالآخر شکست ہوئی اور رذریق میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کے بعد وہ نہ زندہ مل سکا نہ مردہ ۔ کہاجاتا ہے کہ بھاگنے کے دوران وہ ایک دلدل میں پھنس کر مر گیا۔
اسپین کے بعض علاقوں کو طارق بن زیاد نے فتح کیا۔ بعض کو مغیث رومی نے ، بعض کو موسی بن نصیر ؒ نے، جو بعد میں ۱۸ ہزار فوج کے ساتھ اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ رعایا کی اپنے بادشاہ اور سرداروں سے بیزاری کی وجہ سے ان کو خود ہسپانیوں میں مددگار اور جاسوس ملتے چلے گئے۔ تمام مؤرخین لکھتے ہیں کہ غیر مسلم جاسوسوں نے اسپین کی ابتدائی فتوحات میں بہت مدد کی تھی۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ١٩٨٤ نے لکھا ہے کہ اسپین پر مسلمانوں کا حملہ گاتھ کی دعوت پر ہوا تھا نہ کہ محض اپنی تحریک پر ۔ ۷۰۹ء میں وٹیزا کی موت سے اسپین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں رذریق کے مقابلہ میں وٹیزا کے خاندان نے موسی بن نصیر سے مدد چاہی۔ اس کے بعد طارق بن زیاد ٧١١ ء میں آبنائے جبل الطارق کو پار کر کے اسپین میں اترے اور رذریق کو فیصلہ کن شکست دی۔اس کے بعد تعجب خیز طور پر اکثر ہسپانیوں نے رضا کارانہ طور پر اس کی اطاعت قبول کرلی۔ بیس ہزار کی ایک فوج کے ہاتھوں اس تیز رفتار فتح کا سبب غالباً یہ تھا کہ اس وقت اسپین کے لوگوں میں اتحاد نہ تھا۔ مزید یہ کہ مسلمانوں سے اسپین کے لوگوں کو بہت فائدے پہنچے۔ مثلاً نئے حکمرانوں نے ان کے اوپر سے ٹیکس کا بوجھ کم کر دیا۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو آزادی حاصل ہوگئی ۔ یہود پر عیسائیوں کی طرف سے ہونے والے مظالم ختم ہو گئے اور انہیں سماج کے اندر برابری کا درجہ مل گیا۔ اس طرح آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف حصہ میں مسلم اسپین کے اندر ایک نیا اور بالکل مختلف سماج قائم ہو گیا۔ طارق بن زیاد کی زندگی سے ہمیں قیادت، ہمت اور اپنے مقصد کے لئے جانفشانی سے کام کرنے کا سبق ملتا ہے۔ انہوں نے انتہائی کم وسائل کے باوجود ایک عظیم فتح حاصل کی ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیدے اور عزم کے ساتھ کوئی بھی ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان کی زندگی سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ایک کامیاب رہنما کو اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔
طارق بن زیاد کی زندگی سے ملنے والے چند اہم اسباق درج ذیل ہیں
عزم اور ہمت
، طارق بن زیاد نے انتہائی مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھیں.
قیادت
انہوں نے اپنی فوج کی قیادت کی اور انہیں فتح کے لئے تیار کیا۔ انہوں نے اپنی فوج کو متاثر کیا اور ان میں اعتماد پیدا کیا۔
استعداد
طارق بن زیاد نے کم وسائل کے باوجود اپنی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے فتح حاصل کی۔
استقامت
طارق بن زیاد نے کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔
انتظام
انہوں نے اپنی فوج کو منظم کیا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔
تعلیم و تربیت
طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو تعلیم اور تربیت دینے پر بھی توجہ دی۔طارق بن زیاد کی زندگی سے ملنے والے یہ اسباق آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم اپنے مقاصد کے لیے عزم اور ہمت سے کام کریں تو کوئی بھی ہدف حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔
بہادری اور عزم کا پیکر ، بطل اسلام جناب طارق بن زیاد رحمہ اللہ کا نام تاریخ میں امر ہو کر متعدد مقامات کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے جن میں سرِفہرست جبل طارق ہے۔سال ٢٠١٢ء میں برطانیہ کے مرکزی بینک نے جبرالٹر کی حکومت کے لئے پانچ پاونڈ کا ایک کرنسی نوٹ جاری کیا جس پر طارق بن زیاد کی خیالی تصویر ہے۔
طارق کی دعا
مصور پاکستان، شاعر مشرق، علامہ محمد اقبال رح کی ایک مشہور نظم بال جبریل میں اسی معرکہ سے متعلق ہے ۔ اس نظم بعنوان اندلس کے میدان جنگ میں، شاعر مشرق علامہ اقبال نے طارق بن زیاد اور امت محمدیہ کے مجاہدین کی بہادری اور جذبے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نظم میں، اقبال نے مومن کی شہادت کی خواہش اور خدا کی راہ میں لڑنے کے جذبے کو اجاگر کیا ہے۔
نظم کے چند اہم نکات یہ ہیں
مجاہدین اسلام کی بہادری۔ بال جبریل سے اقتباس اس نظم کے شروع میں علامہ اقبال ؒ نے اسلام کے ہیرو یعنی بطل اسلام ،عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد ؒ اور مجاہدین اسلام کی بہادری اور ان کے جذبے کو بیان کیا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ وہ مجاہدین ہیں جنہیں خدا نے اپنے دین کی محبت عطا کی ہے۔
شہادت کی خواہش، اقبال ؒ کیمطابق مومن کے لئے شہادت سب سے بڑا مقصد ہے، مالِ غنیمت یا فتح نہیں۔
عشقِ الٰہی، نظم میں عشقِ الٰہی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، کہ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو دنیاوی خواہشات سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
عزائم کی تجدید، علامہ اقبال دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں پھر سے وہ بجلی پیدا ہو جو نعرہ لاتذر میں تھی۔ وہ مسلمانوں کے عزائم کو بیدار کرنے اور ان کی نگاہوں کو تلوار بنانے کی دعا کرتے ہیں۔یہ نظم مسلمانوں میں جذبہ ایمانی اور جہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ نظم علامہ اقبال کی مشہور اور مؤثر کلام میں سے ایک ہے۔
(اندلس کے میدان جنگ میں)
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیئے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دےعلامہ اقبال ؒ نے اِس دلدوز اور مؤثر نظم ”طارق کی دُعا“ میں بطلِ اسلام فاتحِ اندلس عظیم مجاہد جرنیل جناب طارق بن زیاد رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے اُن جذبات کی عکاسی اپنے الفاظ میں کی ہے جو آغازِ جنگ سے پہلے اس مردِ مومن کے دِل میں موجزن ہوئے ہوں گے اور پھر دعا کی صورت میں اس کی زبان تک آئے ہوں گے۔ یہ اشعار بلاشبہ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی تخیّل کی قوت کے کمال کی دلیل ہیں کیونکہ اگرچہ دعا کے الفاظ اپنے کلام کی صورت میں اُن عظیم مجاہدین تک نہیں پہنچے لیکن جو کچھ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے میدان کار زار کا نقشہ منظوم شکل میں پیش کیا ہے، اس کو پڑھ کر ہم پر آشوب نظارہ کر سکتے ہیں کہ غالباً طارق بن زیاد اور مجاہدین اسلام نے اللہ تعالٰی سے اسی نوعیت کی ہی دعا کی ہوگی۔(ترتیب و تالیف ۔ طالب دعاء، رشید احمد گبارو )
- جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو۔ڈٹ جاﺅ تم حسینؓ کے انکار کی طرح
امام عالی مقام سیدنا حسینؓ شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر سن کر سیدِ عرب و عجم، سرکار دو عالم محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی ﷺ اپنے لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اور نومولود سیدنا امام حسینؓ کے کانوں میں اذان دی اور آپؓ کے منہ میں اپنا مبارک لعاب دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ کا نام نامی حسینؓ رکھا۔ نواسۂ رسولؐ،جگر گوشۂ بتول ؓ،نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسولؐ سید نا حضرت حسینؓ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا امیرالمومنین سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ جناب فاطمۃ الزہراءؓ کے عظیم فرزند اور سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سید، طیب، مبارک، سبط النبیؐ، ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسولؐ القابات ہیں۔سیدنا حسینؓ نے تقریباً سات سال تک سرور کونین، جناب رسالت مآب ﷺ کے سایۂ لطف نبوت و رسالت میں پرورش پائی۔ نبی کریم ﷺ سیدین السعیدین جناب حسنینؓ الکریمین سے غیر معمولی محبت و شفقت فرماتے اور تمام صحابہ کرامؓ بھی رسالت مآب ﷺ کی اتباع میں سیدین السعیدین حسنین کریمینؓ سے خصوصی شفقت و محبت رکھتے اور اکرام فرماتے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلیفۃ الرسولؐ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا ذی النورین عثمان غنیؓ بھی حضرات حسنینؓ کو نہایت عزیز اور مقدم رکھتے اور انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔ سیدنا امام حسینؓ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ آپؓ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے شبیہ تھے۔ آپؓ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبویؐ میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپؓ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا حسینؓ کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر آپؓ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپؓ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ آپؓ کو نماز سے بے حد شغف تھا۔ اکثر روزے سے رہتے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کا ذوق اتنا کہ متعدد حج پاپیادہ ادا فرمائےتمام ارباب سیرت نے سیدنا امام حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بڑے درجے کے حامل تھے۔ امیرالمومنین سیدنا علیؓ المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم قضاء و افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ نے بھی حصول علم کے بعد مسند تدریس کو زینت بخشی اور مسند افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابرین مدینہ منورہ مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ دور نبوت کے ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘۔ (ترمذی)۔سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت، ناانصافی، عہد شکنی، ظلم و جبر اور فسق و فجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے دور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیادیں رکھی جانے لگیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہوگیا، لہٰذا اس نازک وقت اور سنگین دور میں یہ عظیم سعادت سیدنا حسینؓ کا مقدر ٹھہری۔ آپؓ ایمانی جذبے سے سرشار ہو کر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوئے اور برائی کے سدِّباب کے لئے آپؓ نے ہر ممکن کوشش کی۔ امام حسینؓ نے تمام خطرات کے باوجود اسلام کی خاطر رخصت کے بجائے عزیمت کی راہ اختیار کی، کیونکہ ایک طرف ذاتی خطرات تھے اور دوسری طرف ناناﷺ کا دین اور امت محمدیؐ کا مفاد تھا، لہٰذا آپؓ نے نہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سربلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کردیا تمام ارباب سیرت نے امام عالی مقام سیدنا حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بہت بڑے درجے کے حامل تھے۔ ۔سبط رسولؐ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپؓ کےتبحر علمی، علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپؓ کے خطبات سے کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے کچھ آج بھی کتب سیرت میں موجود ہیں۔جگرِ گوشۂ بتولؓ، سیدنا امام حسینؓ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ آپؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہ رسالتﷺ میں حضرات حسنینؓ کریمین کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی آخر الزمانﷺ اپنے دونوں نواسوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپؓ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:٭… ’’حسن ؓاور حسینؓ، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)٭… سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا: ’’حسنؓ و حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں‘‘۔ (ترمذی) ۔ حضرت ابن ابی نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے آپ ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کیا (کہ اگر محرم کے لباس کو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟) سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ: اہلِ عراق میں سے ہوں۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! یہ مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے، حالانکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے (نواسے) کو شہید کر ڈالا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: یہ (حسن و حسین) دونوں میرے دنیا کے پھول ہیں۔‘‘(صحیح البخاری، رقم: ۵۹۹۴) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’رسولِ خدا ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: حسن ؓ و حسین ؓ سے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘(ترمذی: ۳۷۷۲) سیدنا ابوبریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ: اچانک سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ منبر سے اُترے، دونوں حسنین کریمین ؓ کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔‘‘ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہے) میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر اُنہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۷۷۴)۔ رحمتِ عالم ﷺ اپنے ان پیارے نواسوں کو ان خوب صورت الفاظ میں دم کرکے شیطان اور نظرِ بد وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیتے تھے:’’أُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ۔‘‘ ’’ میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات سے ہر شیطان، تکلیف دہ چیز اور ہر قسم کی بدنظری سے پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘نیز فرماتے کہ: ’’جناب سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی اسی طرح اپنے صاحبزادوں سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق علیہم السلام کو پناہ ِ خداوندی میں دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۳۷۱)۔ امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ یوم عاشور، ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا،جس میں امام مظلوم سیدنا امام حسینؓ اپنے فرزندوں، بھتیجوں اور اپنے دیگر عزیزوں اور جانثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے اور باطل کو وہ شکست فاش دی کہ رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی ، حق و صداقت کی وہ لازوال شمع روشن کی جو کفر و باطل کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انسانیت کے لئے راہِ نجات اور چراغ راہِ منزل ہے۔ رحمتِ دوعالمﷺ نے فرمایا: ’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔(نسائی، ترمذی) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔”جس نے بھی امام حسینؓ کو شہید کیا ان کے قتل میں مدد کی یا ان کے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ اللہ تعالیٰ نہ اُن کے عذاب کو دور کرے گا اور نہ اس کا عوض قبول کرے گا“۔[فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد 4 صفحہ 487 ] ۔ جبکہ سیدنا امام حسینؓ نے دور ظلم و جور میں جس شان سے افضل جہاد کیا اور جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ایمان و عمل، ایثار و قربانی، تسلیم و رضا کی جو بے مثال داستان رقم کی، تاریخ انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؓ کے قیام نے لوگوں کے شعور کو جلا بخشی، جذبہ حریت بیدار ہوا اور خلافت کی حدود کا تعین ہوا۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ کے قیام کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق، اللہ تعالیٰ کی سر زمین میں اللہ جل شانہ کی حکومت کا قیام، دین مبین کی ترویج و اشاعت اور حق و صداقت کی نشر و اشاعت تھا۔ نواسۂ رسولؐ سیدنا حسینؓ نے اپنی بے مثال قربانی سے لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم اُجاگر کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 10 محرم الحرام، یوم عاشور 61 ہجری کے دن جب امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اس دن روئے زمین کے اپر آپ سے محترم و برتر کوئی شخصیت نہ تھی۔۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر اگر امام حسینؓ قیام نہ فرماتے تو حقیقت یہ ہے کہ شاید آج تک حقیقت مشتبہ ہی رہتی، کچھ معلوم نہ ہوتا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا؟ ہمیں کون سا نظام اختیار کرنا ہے اور کس نظام سے بچنا ہے؟اگر آپؓ قیام نہ فرماتے تو ملوکیت کو سند جواز مل جاتی، تاریخی فرض ادا کرنے پر امام حسینؓ بجاطور پر خیر الاُمم ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ استبدادی حالات اور ظلم و جور کی حکومت میں امام حسینؓ کا اقدام یقینا سنت قائم کرتا ہے۔ اگر سیدنا حسینؓ کا اسوہ ہمارے سامنے نہ ہو تو جبر و استبداد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا اور ظلم کے خلاف کوئی تحریک نہیں چل سکتی۔ امام الشہداء سیدنا امام حسینؓ کا فلسفۂ شہادت نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل انسانیت کے لئے ایک دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیں اور انسانی اقدار کی عظمت و اہمیت کو فروغ دیا۔ لہٰذا استبدادی حالات اور ظلم و جور کی حکومت میں سیدنا حسینؓ کا اقدام ہمارے لئے درس فراہم کرتا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، باطل چاہے کتنا ہی طاقت ور ہو، شر اور یزیدی قوتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں ،حق و صداقت کا علم اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت، اسوۂ نبویؐ کے احیاء اور دین کی سربلندی کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے، چاہے اس راہ حق میں جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے، چاہے اس راہ حق میں اپنی جان ہی چلی جائے، راہِ حق میں اپنی گردن ہی کیوں نہ کٹوانی پڑے۔آج چودہ سو برس گزرنے کے باوجود سیدنا حضرت امام حسینؓ کا پیغام اور فلسفہ حق و صداقت دین اسلام کی سربلندی کا روشن نشان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ، جملہ اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہ عنہم اور خاندانِ نبوت کے تمام افراد کی محبت و اُلفت عطا فرمائے اور اُن کے نقوشِ پا پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین۔
“اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ”.
- یکم محرم الحرام یوم شہادت، شہید محراب النبی،صاحب الرائے بالقران، مرادِ رسول، خلیفہ الراشد الثانی، امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
مراد رسول ، شہید محراب، خلیفہ الراشد ثانی امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ: ابوحفص سیدنا عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی ( 586مکہ – 590 ع مدینہ) خلیفہ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ الراشد محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ الاسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار سابقون الاولون ، علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634 عیسوی بمطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13 ھجری کو مسند خلافت سنبھالی۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نسب نویں پشت میں نبی آخر الزمان رسول اللہ ﷺسے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ: ’’عمررضی اللہ عنہ ، مرادِ رسول ﷺہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسولﷺ ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسولﷺ ہیں۔ ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام ،حکمائے اسلام اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا، لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلانِ نبوت نعوذ باللہ! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔ اہلِ مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔ جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لائو، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھائوں گی، انہوںنے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الاسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الاسلام بأبی الحکم بن ھشام و بعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِی صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد) چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جائوں اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّی عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہوں ۔ ۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میں درج کی ہے کہ :’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘غزوۂ بدر کے قیدی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشورہ :غزوۂ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا عظیم معرکہ تھا جو ۱۷ رمضان ۲ ہجری کو بدر کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ درحقیقت حق اور باطل کے درمیان پہلا کھلا تصادم تھا۔ مسلمان تعداد میں محض ۳۱۳ تھے جن کے پاس صرف دو گھوڑے، ستر اونٹ، اور معمولی اسلحہ تھا۔ دوسری طرف قریش کا لشکر ایک ہزار سے زائد تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل تھا جو پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ باوجود اِس کمی کے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی قیادت، ایمان کی طاقت، اور اللہ کی نصرت حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرمائے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قتال کیا اور یوں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔اِس جنگ میں قریش کے ستر سردار مارے گئے اور ستر قیدی بنائے گئے۔ ان قیدیوں میں کئی ممتاز شخصیات شامل تھیں، جیسے نبی کریم ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، حضرت علیؓ کے بھائی عقیل بن ابی طالب، سہیل بن عمرو اور حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص بن ربیع۔جنگ کے دوران بہت سے قریشی سردار مارے گئے، جن میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ شامل تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اسلام کے سخت ترین دشمن تھے اور مسلمانوں پر مکہ میں ظلم ڈھاتے آئے تھے۔اِسی جنگ میں حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ کے دل میں ایمان اتنا غالب آ چکا تھا کہ خونی رشتہ بھی حق کے مقابلے میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ بعد میں جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اسلام کے مقابلے میں خون کا رشتہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘‘جب جنگ ختم ہوئی اور قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ، جو نرم دل اور صلح جُو طبیعت کے مالک تھے، عرض کیا: “یا رسول اللہ! یہ ہمارے رشتہ دار ہیں، اگر ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کر دیا جائے تو ممکن ہے اِن کے دل نرم ہو جائیں اور اسلام کی طرف مائل ہوں۔” دوسری طرف حضرت عمرؓ نے فرمایا: “یا رسول اللہ! یہ سب اسلام کے دشمن اور فتنہ پرور لوگ ہیں، میں کہتا ہوں کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، ہر صحابی اپنے رشتہ دار قیدی کو قتل کرے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اسلام خونی رشتوں پر بھی مقدم ہے۔ علیؓ کو حکم دیں عقیل کو قتل کرے، حمزہؓ کو حکم دیں عباس کو قتل کریں اور مجھے میرے رشتہ دار کے بارے میں حکم دیں۔”نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو ترجیح دی اور فیصلہ فرمایا کہ قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے بعض قیدیوں کو مال کے بدلے رہا کیا گیا جبکہ کچھ پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دینے کی شرط پر آزاد کیا گیا۔ یہ فیصلہ اس وقت نرم مزاجی اور مصلحت پر مبنی تھا۔چند دنوں بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت تنبیہ نازل ہوئی۔ سورہ انفال میں فرمایا:ما کان لنبی أن یکون لہ أسری حتی یثخن فی الأرضیعنی “کسی نبی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ زمین میں غلبہ حاصل کرنے سے پہلے قیدی بنائے۔”پھر فرمایا:لولا کتاب من الله سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم یعنی “اگر اللہ کا پہلے سے فیصلہ نہ ہوتا تو جو تم نے کیا، اس پر تمہیں سخت عذاب پہنچتا۔”یہ آیات دراصل حضرت عمرؓ کی رائے کے حق میں تھیں۔ بعد میں حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ “اس دن اگر میری رائے مانی جاتی تو یہ تنبیہ نہ آتی۔”غزوہ بدر نہ صرف ایک عسکری فتح تھی بلکہ نظریاتی بنیادوں پر بھی اسلام کی بالادستی کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ ہمیں سکھاتا ہے کہ بعض اوقات رحم اور نرمی کی جگہ سختی اور فیصلہ کن اقدام زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب دشمن دین کی جڑیں کاٹنے پر تلا ہو۔ حضرت عمرؓ کی غیرت ایمانی، عدل اور فیصلہ کی طاقت نے بعد کے واقعات میں بارہا امت کو فائدہ پہنچایا، اور اُن کی رائے کا درست ثابت ہونا ایک بار پھر اُن کی بصیرت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا أخی أشرکنا فی صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک وموتا فی بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے۔ عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔ مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔۔‘‘آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ
- حدیث نبویﷺ میں ہے کہ جنگ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے اور اللہ سے عافیت مانگنی چاہئے
شرح حدیث( متفق علیہ ۔صحیح بخاری شریف و صحیح مسلم) صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کا کسی لڑائی میں دشمن سے سامنا تھا، آپ ﷺ نے انتظار کرتے ہوئے جنگ کی ابتدا سورج ڈھلنے تک نہیں کی۔ جب سورج ڈھل گیا، تو صحابۂ کرام سے خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے-جب کہ عام معمول کے مطابق آپ کے خطبے، نماز کے بعد ہوا کرتے تھے- آپ ﷺ نے دوران خطاب دشمن سے مقابلہ کرنےکی تمنا کرنے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ اس میں خود پسندی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ (اس کی بجائے ) آپ ﷺ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کریں۔ پھر فرمایا کہ جب دشمن سے لڑنا پڑ جائے، تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ جنگ برپا کر دے اور دشمنوں سے مقابلے میں تمھاری آزمائش کا موقع آجائے، تو میدان جنگ میں جم جاؤ، تشویش و اضطراب کو بالائے طاق رکھ دو اور جان رکھو کہ تمھیں دو بھلائیوں میں سے ایک ضرور حاصل ہو کر رہے گی؛ یا تو اللہ تعالیٰ تمھیں دشمنوں پر فتح و نصرت عطا فرمائے گا اور تمھیں غلبہ حاصل ہوگا، اس طرح اللہ تعالی تمھیں دنیا میں دشمن پر غلبہ اور آخرت میں اجر وثواب دونوں ہی سے نوازے گا یا یہ کہ جہاد میں پوری طاقت صرف کرنے کے باوجود تمھیں شکست سے دوچار ہونا پڑجائے، تو (اپنی جاں بازی و نثاری کے بدلے) تمھیں اخروی اجر و ثواب حاصل ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ” اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایے تلے ہے” کے معنی یہ ہیں کہ جہاد جنت میں داخل ہونے کا باعث ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے، اس کی نازل کردہ شریعت اور اس کی قدرت کاملہ کا وسیلہ لیتے ہوئے، اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد و نصرت کی دعا فرمائی۔ جنگ کوئی کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے، تو حقیقت کھلتی ہے کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔اس لئے آرزو یہ ہونی چاہئے کہ یہ موقع ہی نہ آئے تو اچھا ہے۔ مگر جب مبارزت اور آمنے سامنے ہونا لازمی ٹھہرے۔ تو اللہ تعالٰی پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت و شجاعت کا بھر پور اظہار کرنا چاہئے۔ ۔تفصیل:صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔” اس حدیث میں دو باتیں اہم ہیں۔1) جنگ کی خواہش نہ کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود سے جنگ کی ابتدا نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ہی جنگ کی خواہش کرنی چاہیے، کیونکہ جنگ میں بہت سے نقصانات اور مصائب ہوتے ہیں۔ 2) اللہ سے عافیت مانگنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اللہ سے عافیت اور سلامتی کی دعا کرنی چاہیے، اور جنگ سے محفوظ رہنے کی دعا کرنی چاہیے۔تاہم، اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اس حدیث میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ اگر دشمن سے سامنا ہو جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ:1) صبر کریں:یعنی ثابت قدم رہیں، گھبرائیں نہیں اور ہمت سے کام لیں۔2) جنت کی امید رکھیں:کیونکہ اگر مسلمان صبر سے کام لے کر میدان جنگ میں شہید ہو جائیں تو ان کے لئے جنت ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ امن اور سلامتی کی کوشش کرنی چاہیے، اور جنگ کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ طلبِ عافیت! سب سے بہتر اور جامع دعا ترمذی شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ سے ایک جامع دعا نقل کی گئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ اگرچہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور تمام مصائب و مشکلات سے پناہ شامل ہے۔ ’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘ (ترمذی،ابواب الدعوات، ج: ۲، ص : ۱۹۱،ط:قدیمی) ’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘ کثرتِ دولت سے عافیت افضل ہے؛ کثرتِ دولت ہر فرد کے حق میں مفید نہیں ہوتی، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ کثرتِ دولت کے ساتھ ساتھ دین کی نعمت اور اپناخوف بھی نصیب فرمائیں اور وہ مال کے تمام حقوق ادا کرنے والے بنیں، ورنہ دولت کی فروانی انسان کو ہزاروں فکروں اور پریشانیوں میں ڈال دیتی ہے۔ عافیت کے بغیر مال ودولت ہیچ ہیں۔ لکھنؤ کے ایک نواب کا واقعہ ے کہ اس نواب کا معدہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے کی چیز معدہ ہضم نہیں کر پارہا تھا، حتیٰ کہ ململ کے کپڑے میں قیمہ رکھ کر چوسا کرتا تھا، وہ بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ اسی شہر کے کنارے ایک لکڑہارے (جوجنگل سے لکڑیاں جمع کرکے لاکر شہر میں فروخت کرتا ہے) کا مکان تھا، اس نواب صاحب نے ایک دن دیکھا کہ وہ لکڑہارا لکڑیاں سر پر اُٹھا کر لا رہا ہے اور گھر پہنچ کر اس نے لکڑیوں کا گٹھا سر سے اُتارا، ہاتھ منہ دھوئے اور اپنے پاس تھیلی سے دو روٹیاں نکالیں، پیاز سے کھانا کھایا اور وہیں سوگیا۔ اس نواب صاحب کو نیند بھی نہیں آتی تھی۔ لکڑہارے کی یہ صورت حال دیکھ کر نواب صاحب اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ “میں دل سے راضی ہوں اگر میری یہ حالت ہوجائے، یعنی پیاز سے ہی روٹی کھا کر میں ہضم کرسکوں اور اس طرح جلدی پُرسکون نیند مجھے مل جائے، تو اس کے عوض میں اپنی ساری نوابی اور ساری ریاست دینے کو تیار ہوں۔” نواب کے پاس سب کچھ تھا، حتیٰ کہ ان کے کتے بھی سب کچھ کھاتے تھے، لیکن نواب صاحب اس نعمت سے محروم تھے۔اس لئے انسان کثرتِ مال واسباب کے بجائے اپنے رب سے عافیت اور سکون مانگے، عافیت اور سکون میسر ہو تو تھوڑا بہت بھی کافی ہوجاتا ہے اور انسان کی زندگی پُرسکون گزرتی ہے، ورنہ ساری دولت کے موجود ہوتے ہوئے انسان اس سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، وہ انسان کے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے بعض بزرگوں کا یہ قول کتابوں میں منقول ہے کہ: ’’القلیل مع العافیۃ خیر من الکثیر مع القوارع۔‘‘ ۔۔۔۔۔’’ عافیت کے ساتھ تھوڑا مال اُس زیادہ مال سے بہتر ہے جو مصیبتوں کے ساتھ ہو۔‘‘ البتہ انسان کی لالچ، طمع کے بغیر اگر اللہ تعالیٰ کچھ عطا فرمادیں تو وہ اللہ کی نعمت ہے، انسان پھر اس کا حق ادا کرے۔ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ کی انگوٹھی کا نقش؛ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ابن شہاب زہری ؒ جو بڑے محدث گزرے ہیں- کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی انگوٹھی میں یہ عبارت کندہ کروائی تھی، ’’محمد یسأل اللّٰہَ العافیۃَ‘‘ کہ ’’محمد اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتاہے۔‘‘ان کا نام محمد بن شہاب زہری ہے، ‘‘انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحت نصیب ہوتی ہے، بلاؤں، پریشانیوں اور امراض سے انسان محفوظ رہتا ہے، یہ بھی عافیت کاحصہ ہے،صحت کے زمانہ میں اس عافیت کی دولت کی قدر ہمیں نہیں ہوتی، اسی لیے عقل مندوں کا یہ قول ہے کہ ’’عافیت تو ایک تاج ہے جوتندرست لوگوں کے سروں پر سجا ہوا ہے، وہ خود تو اس تاج کو نہیں دیکھ سکتے، ہاں! جو مریض ہوں‘ وہ اس تاج کو تندرستوں کے سروں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک بزرگ کا ہمہ وقت عافیت کا سوال کرنا؛ ایک اللہ والے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ہمیشہ یوں کہا کرتے تھے: ’’ اے اللہ! عافیت عطا فرما۔‘‘ ایک بار اُن سے پوچھا گیا :’’مَا معنٰی ہٰذا الدُّعاء؟‘‘ اس دعا کا کیا مطلب ہے؟ آپ ہمیشہ عافیت کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے: میں پہلے بار برداری کا کام کرتا تھا، یعنی مزدور تھا، سامان بوجھ وغیرہ اُٹھایا کرتا تھا، ایک دن میں آٹے کا بھاری بھر کم بوجھ اپنے اوپر لادے ہوئے تھا، جس کی وجہ سے مجھے بہت مشقت اور تکلیف ہوئی، میں نے تھک کر کچھ دیر کے لئے اس بوجھ کو رکھا، تاکہ تھوڑا دم لے لوں، اس وقت میں اللہ سے یوں دعا مانگنے لگا: ’’یا رب! ولو أعطَیتَنیْ کلّ یوم رغیفین من غیر تعب لکنتُ أکتفی بِہِمَا‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’پروردگار! اگر تو مجھے روزانہ صرف دو روٹیاں بغیر محنت ومشقت کے عطا کردے تو میرے لیے کافی ہیں، میں اسی پر قناعت کئے رہوں گا۔‘‘ اتنے میں ٗمیں نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں، میں ان کے درمیان صلح صفائی کی غرض سے آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک ایک آدمی نے غلطی سے میرے سر پر کوئی چیز دے ماری، جو وہ دوسرے آدمی کو مار رہا تھا، مگر غلطی سے میرے سر پر لگ گئی، چنانچہ میرا چہرہ خون آلود ہوگیا، پولیس والا پہنچا اور اس نے ان دونوں آدمیوں کو پکڑلیا، جب اس نے مجھے خون آلود دیکھا تو یہ سمجھا کہ میں بھی اس لڑائی میں ملوث ہوں، اس نے مجھے بھی مجرم سمجھ کر گرفتار کرلیا، چنانچہ مجھے بھی جیل پہنچا دیا۔ ایک مدت تک میں جیل میں رہا، جہاں مجھے روزانہ دو روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ ایک رات خواب میں ٗمیں نے ایک آواز سنا کہ وہ مجھ سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہا ہے: ’’إنّک سألتَ الرّغیفین کلَّ یومٍ من غیر نصب، ولَمْ تسأل العافیۃَ!‘‘ تو نے روزانہ کی دو روٹیاں بلا مشقت مانگی تھیں، عافیت نہیں مانگی تھی! تو میں نے تجھے تیرا مانگا دے دیا، یعنی اللہ سے عافیت مانگنی چاہئے تھی کہ اے اللہ! اس کام میں بہت محنت، مشقت اور تکلیف ہے، مجھے آسان ذریعۂ معاش نصیب فرما اور عافیت دے۔ اس دعاکے بجائے تو نے یہ کہا تھا کہ”’ دوروٹیاں مل جائیں‘‘ لہٰذا دو روٹیوں کی طلب تجھے جیل تک لے آئی۔ بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت ہوش آیا اور سمجھ آئی کہ مجھے عافیت مانگنی چاہئے، تو اَب میں فوراً یوں ہی کہنے لگا: عافیت، عافیت۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ جیل کا دروازہ کھٹکا اور پوچھا گیا: ’’أین عمر الحمال؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’عمر بار بردار کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں ہوں۔ عافیت کی دعاکے بعد مجھے جیل سے نجات اور رہائی مل گئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے پریشانی اور مشقت کے ازالے کے لیے عافیت کی دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ! میں کمزور ہوں، مجھے عافیت نصیب فرما۔ اب عافیت میں ساری بھلائیاں اور سہولیات شامل ہوجائیں گی، لہٰذا ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہیں، اپنی ذات کے لحاظ سے بھی، اپنے اہل وعیال کے لحاظ سے بھی، دنیاوی واُخروی زندگی کے لحاظ سے بھی۔ ایمان واسلام کی بنیاد میں امن وسلامتی کا مفہوم پورے طور پر موجود ہے اور اللہ تعالٰی کے ہر برگزیدہ نبی معصوم نے امن و سلامتی ہی کادرس دیا ہے اور سب سے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے امن کو بہت فروغ بخشا اور ساری دنیا کو سلامتی کا درس دیا۔ حضور نبیِّ کریم ﷺ کی زندگی کے ہر حصہ میں عافیت اندیشی نمایاں نظر آتی ہے۔ عافیت اندیشی کہتے ہیں صحت ، سلامتی ، امن ، نیکی ، بھلائی اور خیر چاہنے کو۔ اس معنی کے اعتبار سے اللہ کے ہر نبی و رسول عافیت اندیش تھے مگر رحمتِ عالم ﷺ نے اس عافیت اندیشی کو وہ عروج وکمال عطا کیا کہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے ایسی مثال قائم فرما دی جس کا کوئی جواب نہیں ۔مکی زمانہ ہو یا مدنی ، نجی زندگی ہو یا معاشرتی ، سفر ہو یا حضر اور حالت امن ہو یا حالت جنگ الغرض ہر حال میں اور ہر موقع پر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عافیت اندیشی برقرار رہی۔ حتّٰی کہ جب دشمن کی خود سری وسرکشی لاعلاج ہوجاتی اور جہاد و قتال کی ضرورت پڑتی تب بھی آخری نبی ﷺ کا عافیت اندیشی والا کردار نمایاں رہتا۔ وقت کے بادشاہوں کو خط لکھے تو ”اَسْلِم تَسْلِم یعنی اسلام قبول کرو سلامت رہو گے“ کے فرمان سے عافیت اندیشی کا پیغام دیا ، ہجرتِ حبشہ و ہجرتِ مدینہ بتاتی ہیں کہ تصادم ( ٹکراؤ ) کی راہ ترک کرکے عافیت اندیشی کو اختیار کرنا چاہئے ، جنگوں میں بچّوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور جنگ نہ کرنے والوں سے تعرض نہ کرنے اور باغات و مویشیوں کو اپنی حالت پر باقی رکھنے کے احکامات کوئی عظیم عافیت اندیش ہی دے سکتا ہے ، یونہی حدیبیہ کی صلح اور فتحِ مکّہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان بھی نبیِّ کریمﷺ کی عافیت اندیشی کی زبردست مثالیں ہیں۔پیشِ نظر مضمون میں واقعات و فرامینِ نبی کی روشنی میں حضور نبیِّ کریم ﷺ کی عافیت اندیشی ، خیرخواہی اور امن پروری کو ملاحظہ کیجئے اور اپنی زندگی کو عافیت و بھلائی اور امن و سکون کے دائرے میں لانے کے لئےاسوۂ حسنہ کے اس خوب صورت پہلو کو اختیار کرنے کی کوشش فرمائیں۔ عافیت کی دعا اور ترغیب دعا؛ رسول اللہ ﷺ نے دعائے عافیت کو بہت اہمیت دی ، نہ صرف خود یہ دعا بکثرت فرماتے بلکہ اُمّت کو بھی اس کی بہت زیاد ترغیب ارشاد فرمایا کرتے تاکہ ظاہری وباطنی اور دنیاوی و اُخروی تکالیف وآزمائشوں سے بچا جائے ، چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے : 1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح و شام یہ دعائیں ترک نہ فرماتے تھے : اَللّٰھمَّ اِنِّی اَسْاَلكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ ، اللَّھمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِی دِینی وَدُنْیای وَاَھلی وَمَالِی ، اَللّٰھمَّ اسستر عَوْرَتِی یعنی اے میرے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرتا ہوں ، اے میرے اللہ ! میں تجھ سے درگزر اور اپنے دین و دنیا اور اہل و مال میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ ! میرے پردے کی حفاظت فرما۔ 2) رسول اللہ ﷺ جب گرج چمک کی آواز سنتے تو دعا کرتے : اَللّٰھمَّ لَاتَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَاتُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ ترجمہ : اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ کرنا اور نہ ہمیں اپنے عذاب سے تباہ کرنا اور ہمیں اس سے پہلے عافیت عطا فرما دینا۔ 3) ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم منبر رسول کے پاس کھڑے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو یاد کرکے رونے لگے ، پھرفرمایا : بے شک رسولِ پاک ﷺ نے ہجرت کے پہلے سال اسی جگہ ارشاد فرمایا : لوگو ! اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرو ( یہ تین مرتبہ فرمایا ) کیونکہ کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ 4) ایک شخص نے حضورِ اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ ﷺ ! سب سے افضل دعا کون سی ہے؟ ارشادفرمایا : اپنے ربِّ کریم سے عافیت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا سوال کیا کرو۔ دوسرے دن بھی اس شخص نے حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! سب سے افضل دعا کون سی ہے؟ آپ نے اسی دعا کا ارشاد فرمایا۔ تیسرے دن آکر پھر اس نے یہی سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں دنیا و آخرت میں عافیت مل جائے تو تم کامیاب ہوگئے۔ 5 ) رسولِ پاک ﷺے ارشاد فرمایا : بندہ اس سے افضل کوئی دعا نہیں مانگتا ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ° ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتاہوں۔ یوں ہی ارشاد فرمایا: اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے کہ اُس سے عافیت کا سوال کیا جائے۔ عبادات ومعمولات میں عافیت اندیشی؛ میانہ روی بھی عافیت ہی کا ایک گوشہ ہے، جبکہ حضور نبی کریم ﷺ نے عبادات ومعمولات میں اسے اپنانے کی بہت زیادہ ترغیب ارشاد فرمائی ہے کیونکہ آپ ﷺ کو یہی محبوب تھا کہ عبادات میں بھی حتی الامکان تکلیفوں اور مشقتوں سے اُمّت کو بچایا جائے تاکہ لوگ کسی بوجھ و آزمائش کے بغیر دین پر بآسانی عمل کرسکیں ، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا 1) اپنی جانوں پرسختی نہ کرو کہ اللہ پاک تم پر سختی فرمادے کیونکہ ایک قوم ( یعنی عیسائیوں ) نے اپنی جانوں پر سختی کی تو اُن پر سختی کردی گئی۔ 2 ) ایک بار۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسالت مآبﷺ کی کسی زوجہ محترمہ سے گھر میں آپﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھا ، جو انہیں بتایا گیا اُسے انہوں نے کم سمجھا اور یوں کہنے لگے: ہم رسول اللہ ﷺ کی معصوم ہستی کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ خود کو ان پر قیاس کرنے لگیں ، یہ تو وہ ہیں کہ جن کے سبب ان کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دیئے گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں اب ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔دوسرے نے کہا : میں ساری زندگی بلاناغہ روزے رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا : میں ہمیشہ عورتوں سے اجتناب کرتے ہوئے کبھی شادی نہیں کروں گا ۔ اسی اَثنا میں جناب رسالت مآب ﷺ تشریف لے آئے اور ارشاد فرمایا : تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا۔ خدا کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے بڑا متقی ہوں لیکن میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں ، ( رات میں ) نماز پڑھتا ہوں اورسوتا بھی ہوں اور میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں تو جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں۔ عام زندگی میں عافیت اندیشی؛ علامہ ابنِ اثیر جزری رحمہ اللہ نے فرمایا : عافیت یہ ہے کہ تم بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہو۔ جبکہ علامہ عبدالرؤف مناوی فرماتے ہیں : دینی لحاظ سے فتنوں اور شیطان کے فریب سے اور دنیاوی اعتبار سے دُکھوں اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کو عافیت کہا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرکار دو جہان ﷺ عام زندگی میں عافیت کا بہت زیادہ درس دیا کرتے تھے ، باربار ایسی ہدایات جاری فرماتے رہتے جن پر عمل کی صورت میں دینی و دنیاوی عافیت حاصل رہے اور لوگوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ یہاں بعض وہ احادیثِ مبارکہ درج کی جاتی ہیں جو رسالت مآب سرور عالمﷺ کی عافیت اندیشی ، اُمّت پر رحمت و شفقت اور ان کے ساتھ خیرخواہی کو واضح کرتی ہیں : 1) حضور سید ِعالم ﷺ نے فرمایا : تین شخص ہیں کہ تیرا رب ان کی دعا قبول نہیں کرتا : ایک وہ کہ ویرانے مکان میں اترے۔دوسرا وہ مسافر کہ سرِ راہ ( یعنی سڑک سے بچ کر نہ ٹھہرے ، بلکہ خاص راستے ہی پر ) پڑاؤ ڈالے۔ تیسرا وہ جس نے خود اپنا جانور چھوڑ دیا ، اب خدا سے دعا کرتا ہے کہ اسے روک دے۔ جنگوں میں عافیت اندیشی؛ رسول اللہﷺانتہائی بہادر اور دلیر ہونے کے باوجود کوشش ہوتی کہ جنگ میں نقصان کم سے کم ہو ، آپ کی جنگی ہدایات اور ان مواقع کی تعلیمات آپ کی عافیت اندیشی کو خوب اجاگر کرتی ہیں۔ آئیے یہاں جنگ کے مواقع کی اُن احادیث و روایات سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں جوحضور نبیِّ رحمت ﷺ کی عافیت اندیشی کو بیان کرتی ہیں : 1) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ پاک سے عافیت طلب کرو اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ پاک کو یاد کرو۔معلوم ہوا کہ ابتداء ً مسلمانوں کو جنگ یا کسی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہئے لیکن جب ان پر جنگ مُسلّط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں ۔ 2) کسی جنگ کے موقع پر دوران لڑائی ایک شخص نے کلمہ پڑھا تو صحابی نے اس بنا پر اسے قتل کرڈالا کہ اس نے یہ کلمہ تلوار کے خوف سے پڑھا ہے۔ جب دربارِ رسالت میں یہ بات پہنچی تو حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہَلَّا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ یعنی کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ 3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ ن ے ( دورانِ جنگ ) عورتوں اور بچّوں کے قتل سے منع فرمایا۔یہ ہے مسلمانوں کا جہاد ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کو شام کے جہاد پر بھیجا تو فرمایا کہ کفّار کے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، راہبوں وغیرہ کوقتل نہ کرنا صرف انہیں قتل کرنا جو تم سے لڑنے کے لئے مقابلہ میں آئیں۔ 4) ایک جنگ میں حضور نبیِّ پاک ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ نہ تو کسی عورت کو قتل کریں اور نہ ہی کسی محنت کش کو۔ عورت و مزدور سے مراد وہ ہی ہے جو جنگ میں حصہ نہ لیتے ہوں فوج یا کسی فوجی کی خدمت کے لئے آئے ہوں۔ان کی علامت یہ ہوتی ہوگی کہ ان پر سامان جنگ نہ ہوگا اور خدمت کے اسباب یا علامات ہوں گے۔سُبْحٰنَ اللہ ! اسلام میں کیسا عدل و انصاف ہے کہ لڑتے وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عافیت کے طلبگار پیارے نبی کریم ﷺ نے میدان جہاد میں عافیت اندیشی ، خیرخواہی اور عدل کے بے مثال نقوش ثبت فرمائے ہیں ، ورنہ فاتحینِ زمانہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے میدانِ جنگ میں ہرطرح کے ظلم وستم روا رکھے ، ایسے موقعوں پر وہ بھول گئے کہ عافیت کیا شے ہوتی ہے ، انہوں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے ، انسانیت کا تقدس پامال کیا ، شہروں کے شہر خون سے رنگین کردیئے اور آج دنیا ان کو جابر و ظالم حکمران کہتی نظر آتی ہے جبکہ دوسری طرف امام الانبیا والمرسلین ﷺ کی عظیم ذات اقدس ہے کہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے موقع پر اپنے خون کے پیاسوں تک کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا ، ارشادفرمایا : اِذْھبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ یعنی جاؤ ! تم آزاد ہو۔ اور فرمایا”قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیکمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰہ لَکمْ٘-وَ ھوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(92)… ترجمہ؛(کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔سورہ یوسف)سیدنا یوسف نے ان کے اس اندیشہ کو بھانپ لیا اور انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، کوئی سرزنش نہیں اور آئندہ میں تمہاری ایسی تقصیر کا ذکر بھی نہ کروں گا۔ میں نے سب کچھ تمہیں معاف کیا اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ بھی تمہیں معاف فرما دے اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ ضرور تمہیں معاف فرما دے گا، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔فتح مکہ والے دن رسول اللہ ﷺ نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردران قریش کو، جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی تھیں، یہی الفاظ ارشاد فرما کر انھیں معاف فرما دیا تھا۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ طالب دعا : رشید احمد گبارو
- دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں
یہ دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں ■ “جو دوسروں کے گھر کو نقصان پہنچاتا ہے، اس کا اپنا گھر تباہ ہو جاتا ہے۔” (سوئٹزرلینڈ)■ “جو شخص پیٹ بھر کر کھا لے، اسے روٹی کا مزہ نہیں آتا۔” (اسکاٹ لینڈ)■ “خود پسندی جہالت کی علامت ہے۔” (اسپین)■ “بدلہ لینے کی خوشی چند لمحوں کی ہوتی ہے، مگر معافی کا سکون ہمیشہ رہتا ہے۔” (اسپین)■”اللہ پرندوں کو رزق دیتا ہے، مگر انہیں خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔” (ہالینڈ)■ “نیکی کرنا اور احسان فراموشی مل کر ایسے ہیں جیسے پانی میں خوشبو ڈالنا۔” (پولینڈ)■ “بیوی سے محبت کرو اور ماں کو اپنے راز بتاؤ۔” (آئرلینڈ)■ “خاندان نے بولنا سکھایا، اور دنیا نے خاموش رہنا سکھایا۔” (چیکوسلوواکیہ)■ “دینے والوں کو اپنی سخاوت کا ذکر نہیں کرنا چاہئے، مگر لینے والوں کو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔” (پرتگال)■”ہم اکثر چیزوں کو ان کی حقیقت کے بجائے ان کے عنوان سے جانچتے ہیں۔” (امریکہ)■ “غصہ ایک ایسی تیز ہوا ہے ،جو عقل کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔” (امریکہ)■”جو محبت تحفوں پر منحصر ہو،وہ ہمیشہ ادھوری رہتی ہے۔” (انگلینڈ)■ “خوبصورت عورت سے شادی کرنے والے کو دو آنکھوں سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔” (انگلینڈ)■ “ہر انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔” (انگلینڈ)■ “اچھی صورت سب سے اچھی سفارش ہے۔” (انگلینڈ)■”پہلے پانچ سال بچے کو شہزادہ بناؤ، اگلے دس سال غلام کی طرح سکھاؤ، اور پھر دوست بن جاؤ۔” (ہندوستان)■ “انسان بننا آسان ہے، مگر حقیقی مرد بننا مشکل ہے۔” (روس)■ “دوسروں کی غلطیاں ہمیشہ ہماری غلطیوں سے زیادہ نمایاں لگتی ہیں۔” (روس)■”بڑا درخت زیادہ سایہ دیتا ہے مگر کم پھل دیتا ہے۔” (اٹلی)■ “سچی خوشی قناعت میں ہے۔” (اٹلی)■ “جو لوگوں کو علم کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ ان سے نفرت کرتا ہے، اور جو حقیقت کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ معاف کر دیتا ہے۔” (اٹلی)■ “زیادہ کھانا بھوکا رہنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔” (جرمنی)■ “روز بوؤ، روز کھاؤ۔” (مصر)■ “اے انسان! موت کو نہ بھولو، کیونکہ یہ تمہیں نہیں بھولے گی۔” (ترکی)■”محبت اور خوشبو کو چھپایا نہیں جا سکتا۔” (چین)■ “اگر تم ہنسنا نہیں جانتے، تو دکان نہ کھولو۔” (چین)(■ “اپنی پریشانیوں کو پھٹی جیب میں ڈال دو۔” (چین)■ “دماغ کو علم سے بھرو، جسم کو زیورات سے نہیں۔” (چین)■ “جس کے پاس پیسے نہ ہوں، اسے اپنی بات میٹھی رکھنی چاہیے۔” (ملائیشیا)■ “چھوٹے چھوٹے پانی کے قطرے بھی دریا بنا سکتے ہیں۔” (جاپان)■”محبت تب تک رہتی ہے جب تک پیسہ ہوتا ہے۔” (فرانس)■ “دوست کو قرض دینے والا، دونوں کو کھو دیتا ہے۔” (فرانس)■ “جس کی پشت پر تنکا ہو، وہ ہمیشہ آگ سے ڈرتا ہے۔” (فرانس)■ “منزل تک پہنچنے والا ہر رکاوٹ کو چھوٹا سمجھتا ہے۔” (فرانس)■ “جو خود کو بھیڑ سمجھتا ہے، وہ بھیڑیے کا شکار بن جاتا ہے۔” (فرانس)■ “اگر کسی قوم کی ترقی دیکھنی ہو تو اس کی عورتوں کو دیکھو۔” (فرانس)■ “اس عورت سے بچو جو اپنی نیکی کی تعریف کرے اور اس مرد سے جو اپنی ایمانداری کی بات کرے۔” (فرانس)یہ ہیں دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں جو زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں● ” جِس کا خیال اچھا اُسکا حال اچھا۔”● ” بُرا وقت اکثر اچھے وقت کے بُرے اِستعمال کی بدولت آتا ہے۔”●” نئی بنیادیں صرف وہ لوگ رکھ سکتے ہیں،جو اس راز سے واقف ہوں، کہ پُرانی بُنیادیں کیوں بیٹھ گئی تھیں ۔”
- دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں
یہ دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں
■ “جو دوسروں کے گھر کو نقصان پہنچاتا ہے،
اس کا اپنا گھر تباہ ہو جاتا ہے۔” (سوئٹزرلینڈ)
■ “جو شخص پیٹ بھر کر کھا لے،
اسے روٹی کا مزہ نہیں آتا۔” (اسکاٹ لینڈ)
■ “خود پسندی جہالت کی علامت ہے۔” (اسپین)
■ “بدلہ لینے کی خوشی چند لمحوں کی ہوتی ہے،
مگر معافی کا سکون ہمیشہ رہتا ہے۔” (اسپین)
■”اللہ پرندوں کو رزق دیتا ہے،
مگر انہیں خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔” (ہالینڈ)
■ “نیکی کرنا اور احسان فراموشی مل کر ایسے ہیں
جیسے پانی میں خوشبو ڈالنا۔” (پولینڈ)
■ “بیوی سے محبت کرو اور ماں کو اپنے راز بتاؤ۔” (آئرلینڈ)
■ “خاندان نے بولنا سکھایا،
اور دنیا نے خاموش رہنا سکھایا۔” (چیکوسلوواکیہ)
■ “دینے والوں کو اپنی سخاوت کا ذکر نہیں کرنا چاہئے، مگر لینے والوں کو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔” (پرتگال)
■”ہم اکثر چیزوں کو ان کی حقیقت کے بجائے
ان کے عنوان سے جانچتے ہیں۔” (امریکہ)
■ “غصہ ایک ایسی تیز ہوا ہے ،جو عقل کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔” (امریکہ)
■”جو محبت تحفوں پر منحصر ہو،
وہ ہمیشہ ادھوری رہتی ہے۔” (انگلینڈ)
■ “خوبصورت عورت سے شادی کرنے والے کو
دو آنکھوں سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔” (انگلینڈ)
■ “ہر انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔” (انگلینڈ)
■ “اچھی صورت سب سے اچھی سفارش ہے۔” (انگلینڈ)
■”پہلے پانچ سال بچے کو شہزادہ بناؤ، اگلے دس سال غلام کی طرح سکھاؤ، اور پھر دوست بن جاؤ۔” (ہندوستان)
■ “انسان بننا آسان ہے، مگر حقیقی مرد بننا مشکل ہے۔” (روس)
■ “دوسروں کی غلطیاں ہمیشہ ہماری غلطیوں سے زیادہ نمایاں لگتی ہیں۔” (روس)
■”بڑا درخت زیادہ سایہ دیتا ہے مگر کم پھل دیتا ہے۔” (اٹلی)
■ “سچی خوشی قناعت میں ہے۔” (اٹلی)
■ “جو لوگوں کو علم کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ ان سے نفرت کرتا ہے، اور جو حقیقت کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ معاف کر دیتا ہے۔” (اٹلی)
■ “زیادہ کھانا بھوکا رہنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔” (جرمنی)
■ “روز بوؤ، روز کھاؤ۔” (مصر)
■ “اے انسان! موت کو نہ بھولو، کیونکہ یہ تمہیں نہیں بھولے گی۔” (ترکی)
■”محبت اور خوشبو کو چھپایا نہیں جا سکتا۔” (چین)
■ “اگر تم ہنسنا نہیں جانتے، تو دکان نہ کھولو۔” (چین)
(■ “اپنی پریشانیوں کو پھٹی جیب میں ڈال دو۔” (چین)
■ “دماغ کو علم سے بھرو، جسم کو زیورات سے نہیں۔” (چین)
■ “جس کے پاس پیسے نہ ہوں، اسے اپنی بات میٹھی رکھنی چاہیے۔” (ملائیشیا)
■ “چھوٹے چھوٹے پانی کے قطرے بھی دریا بنا سکتے ہیں۔” (جاپان)
■”محبت تب تک رہتی ہے جب تک پیسہ ہوتا ہے۔” (فرانس)
■ “دوست کو قرض دینے والا، دونوں کو کھو دیتا ہے۔” (فرانس)
■ “جس کی پشت پر تنکا ہو، وہ ہمیشہ آگ سے ڈرتا ہے۔” (فرانس)
■ “منزل تک پہنچنے والا ہر رکاوٹ کو چھوٹا سمجھتا ہے۔” (فرانس)
■ “جو خود کو بھیڑ سمجھتا ہے، وہ بھیڑیے کا شکار بن جاتا ہے۔” (فرانس)
■ “اگر کسی قوم کی ترقی دیکھنی ہو تو اس کی عورتوں کو دیکھو۔” (فرانس)
■ “اس عورت سے بچو جو اپنی نیکی کی تعریف کرے
اور اس مرد سے جو اپنی ایمانداری کی بات کرے۔” (فرانس)
یہ ہیں دنیا کے مختلف ممالک کی بہترین کہاوتیں جو زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں
● ” جِس کا خیال اچھا اُسکا حال اچھا۔”
● ” بُرا وقت اکثر اچھے وقت کے بُرے اِستعمال کی بدولت آتا ہے۔”
●” نئی بنیادیں صرف وہ لوگ رکھ سکتے ہیں،جو اس راز سے واقف ہوں، کہ پُرانی بُنیادیں کیوں بیٹھ گئی تھیں ۔” - ایران پر اسرائیلی جارحیت اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سیاسی بصیرت
تحریر؛ رشیداحمدگبارو۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت ہی عزت دلاتی ہے اور کمزوری تباہی کو دعوت دیتی ہے۔ آج ایران، اسرائیل کی جانب سے سنگین حملوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل، امریکی پشت پناہی اور بعض مسلم ریاستوں کی فضائی راہداری کے ساتھ، ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ ایران کا جواب صرف بیانات، چند ڈرون حملوں اور “اسٹریٹجک تحمل” جیسے الفاظ تک محدود ہے۔ اس بے عملی نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ایران اس وقت فیصلہ کن جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ایران کے اتحادی روس اور چین صرف تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ وقتِ ضرورت جدید ہتھیار نہ ملے، اور عالمی حمایت بھی صرف زبانی کلامی بیانات تک محدود رہی۔ اس خاموشی نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات وعدوں پر نہیں، مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ جبکہ ایران کو اپنی جنگی صلاحیت دنیا کو باور کرانے کی عین ضرورت ہے، اسرائیل پر کاری ضرب اب ایران ہی کو لگانا پڑے گا۔جن ممالک نے اپنی بقا کا انحصار دوسروں کے وعدوں پر کیا، وہ ماضی میں لیبیا اور عراق کی طرح تاریخ کی گرد آلود صفحات میں گم ہوگئے۔
لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی مرحوم نے مغرب کے ساتھ مفاہمت کرکے جوہری پروگرام کو ترک کیا، مگر انجام ایک عبرت ناک موت اور تباہ شدہ ریاست کی صورت میں سامنے آیا۔ عراق کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر برباد کر دیا گیا۔ دونوں ممالک نے دفاعی خود مختاری کھوئی اور قیمت نسلوں نے چکائی۔
برعکس اس کے، شمالی کوریا نے دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ اسے ناپسند کیا جاتا ہے، مگر اس کی طاقت کا احترام سب پر لازم ہے۔ کوئی اسے کھلی آنکھ دکھانے کی جرات نہیں کرتا، کیونکہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہے جو دشمن کو روکنے کے لیے کافی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی کہانی مختلف اور سبق آموز بن جاتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض دفاعی ہتھیار نہیں، بلکہ ہماری نظریاتی اور جغرافیائی خودمختاری کا پہرہ دار ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو دشمن کو کسی بھی جارحیت سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور یہی بیان محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان مرحوم کے 28 مئی 1998 میں دیا تھا۔ حالیہ دنوں 8مئی کے پاکستان اور بھارت کے جنگی صورتحال نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت نہ ہوتی، تو ہماری حالت بھی لیبیا یا عراق سے مختلف نہ ہوتی۔
یہ ایٹمی پروگرام ، ریاست پاکستان کے لئےامن اور آزادی کا وہ تالا ہے، جس کی چابی صرف ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ یہ ہماری خارجہ و دفاعی پالیسی کا مرکز و محور اور قومی مفاد و اتحاد اور اتصال کا محافظ ہے۔ دشمن ہو یا دوست، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو دبایا نہیں جا سکتا، کیونکہ اس کی پشت پر وہ طاقت ہے جو صرف جنگی نہیں بلکہ نظریاتی ہتھیار بھی ہے۔
اس پروگرام کی بنیاد رکھنے والے رہنماؤں اور اسے پروان چڑھانے والے سائنس دانوں کو تاریخ سلام پیش کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف تک جن قائدین نے اس راستے میں بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود یہ طاقت قوم کو بخشی، انہوں نے دراصل پاکستان کو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے سے بچا لیا۔
یہ سبق ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا
دنیا کمزور کی نہیں سنتی، وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اور اگر ہم نے اپنی اس طاقت کو کمزور کیا یا نظرانداز کیا، تو ہماری داستان بھی ایک اور عبرت کے باب میں بدل جائے گی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمارے قومی وجود کی ضمانت ہے—اور اس پر کوئی سمجھوتہ، صرف سیاسی غلطی نہیں، قومی خودکشی ہوگی۔
- بر صغیر پاک و ہند اور بنگال جو کسی زمانے میں براعظم کہلاتا تھا۔۔
پاکستان اور بھارت کی حالیہ جنگی کشیدگی پر ایک تاریخی جائزہ۔
جنگ چھڑنے کی صورت میں بھارت کو ہی بڑا نقصان ہوگا۔۔ شمال مشرقی سرحد پر چین سکم کے علاقے پر کنٹرول چاہتا ہے ۔ جبکہ بنگلہ دیش اپنے شمال مشرق میں واقعہ آسام کا دعوے دار ہے۔بھارتی مشرقی پنجاب میں رہنے والے سکھوں کیلئے کمزور اور شکست خوردہ بھارت سے الگ خالصتان ریاست کا اعلان ہونا باقی ہے ۔ مودی کے ہندو توا سے نجات اور سکھوں پر حملوں کے ردعمل کا درست وقت ہوا چاہتا ہے کہ اپنے آزاد ریاست کا اعلان کریں۔ سکھ علیحدگی پسند مشرقی پنجاب کو خالصتان کی شکل میں آزاد کرانا چاہتے ہیں۔۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمان بھارت سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔۔ جبکہ کشمیری حریت پسند کسی خاص موقع کی تاک میں ہیں کہ جلد از جلد کشمیری اپنے علاقے سے بھارتی فوج کو نکال سکیں۔۔۔ افغانستان اگر کسی صورت بھارت کے ساتھ اپنا اتحاد رکھنا چاہے تو واخان کوریڈور سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔الغرض برصغیر میں پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع ہو تو بھارت ہر طرح سے چین،پاکستان، مشرقی پنجاب اور بنگلہ دیش کے نرغے میں آئے گا ۔ پاکستان نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو حیران کرنے کے پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اب دفاعی لحاظ سے اتنا مضبوط ہے کہ بھارت کا جغرافیہ بدل سکتا ہے۔۔
پاکستان بین الاقوامی برادری کو اپنے طرف متوجہ کرکے ہمدردی حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ بھارت کی بلوچستان میں دہشتگردی کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کسی صورت میں بھی بھارت پر حملے میں پہل نہیں کرے گا۔ بھارت اگر پاکستان پر حملہ کرے تو اسی بنیاد پر پاکستان، بھارت پر جوابی حملے ضرور کرے گا۔
جوابی حملے کی صورت میں بحیثیت مسلمان قوم ایک بات تو اٹل ہے کہ پاکستان سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنائے گا۔۔البتہ پاکستان جوابی حملے میں بھارت کے زیر نگرانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں سٹرٹیجک فوائد ضرور حاصل کرے گا۔۔اور
بھارت کے فوجی تنصیبات کو تباہ کرے گا۔۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بھارت میں فوجی تنصیبات سے سامان دوسری جگہوں پر شفٹ کیا جا رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے افواج کا موازنہ تو کسی صورت ممکن ہے ہی نہیں، کیونکہ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں زیادہ فوجی و حربی صلاحیت ہے۔ اگر پاکستان اور انڈیا کے میڈیا کا موازنہ کیا جائے تو پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی صلاحیت پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے پاس زیادہ ہے۔ اگر بین الاقوامی میڈیا جانچ پڑتال کرے کہ دونوں ممالک میں کون حقائق پہ مبنی رپورٹنگ کررہا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ہندوستان کی میڈیا کو جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں پاکستان پر سبقت حاصل ہوگی۔ انڈین میڈیا کو چاہئے کہ وہ پاکستانی میڈیا سے ٹرینگ لے۔ برصغیر کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے ملک میں کوئی آزاد میڈیا نہیں ہے۔۔
تاریخ کا اجمالی خاکہ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کسی زمانے میں ایک وسیع و عریض ملک تھا۔ اتنا بڑا کہ اسے ماضی بعید کے زمانے میں الگ تھلگ براعظم تصور بھی کیا جاتا رہا۔۔
برصغیر کا ساحل کم و بیش پانچ ہزار میل تھا ۔ خشکی کی سرحد تقریبًا چھ ہزار میل پر محیط تھی ۔ شمال میں سنگلاخ پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش دو ہزار میل تک پھیلے ہوئے تھے۔
برصغیر اپنی زرخیزی کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا جس وجہ سے اس سرزمین نے غیر قوموں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا۔ صدیوں تک جنوبی قوموں کا تمدن شمالی ہندوستان کو متاثر کرتا رہا۔
حملہ آور قوموں کے یہاں آنے سے سندھ و ہند و پنجاب میں مختلف تہذیب و تمدن کا ایک مجموعہ تیار ہو گیا۔ ہر تمدن برصغیر کو متاثر کرنے کے بعد خود کسی دوسرے تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔
دور قدیم میں برصغیر میں دو قومیں بستی تھیں جس کی یادگاریں آج تک نیل گری کی پہاڑیوں میں باقی ہے۔ کول اور بھیل اقوام نے برصغیر کو اپنا گھر بنایا۔
صدیوں بعد دراوڑوں نے ان قوموں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ دراوڑ کے قد چھوٹے رنگ کالے پیلے اور ناک چپٹی تھی۔ دراوڑ ابتدا میں شمالی برصغیر میں آباد ہوئے لیکن آریاؤں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دراوڑ کولوں اور بھیلوں سے کر چکے تھے۔آریاؤں نے دراوڑوں کو شمالی برصغیر سے نکال دیا۔ وہ جنوبی برصغیر میں چلے گئے۔ آج جنوبی برصغیر میں دراوڑوں کی اکثریت ہے۔ ان کی زبانیں ہندی آریائی زبانوں سے مختلف ہیں۔ شمالی برصغیر میں دراوڑ شہری تمدن کے انتہائی جدید مدارج تک پہنچ چکے تھے۔
ان کا تمدن سومیری تمدن سے ملتا جلتا تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھنڈرات نے ان کے تمدن کی عظمت کو ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیا ہے۔
ان شہروں کا تمدن صدیوں کی آغوش میں پلا بڑا ہوگا۔ مصر ، عراق اور ایران کی تہذیبوں کے پہلو بہ پہلو دراوڑی تہذیب بھی اپنی قدامت اور عظمت کی داستان کھنڈرات کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔
موہنجوداڑو اور ہڑپہ آریاؤں کے آنے سے صدیوں پہلے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ سندھ اور پنجاب کا تمدن مصر اور عراق کے ہم عصر تمدن سے کسی طرح پیچھے نہیں تھا۔ ان شہروں کے لوگ سوتی کپڑا بننا جانتے تھے۔ گھروں میں غسل خانے تھے۔ شہریوں کے مکان بہت بلند اور صاف ہوتے تھے۔ ان کا مذہب مصریوں اور سومیریوں سے ملتا جلتا تھا۔
آریا تقریبا 1500 سے 3200 قبل مسیح یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام سے سے 3200سے1500 سال قبل مدیان ایران کی راہ سے شمالی سندھ خیبر سے برصغیر میں داخل ہوئے۔
چمکدار آنکھوں والے آریا وسط ایشیا یوریشیا کے میدان اعظم سے ایران افغانستان اور شمالی سندھ میں پیدل ننگے پاؤں چل کر آئے۔ گورا رنگ ، دراز قد جو وسط ایشیا سے ہندوستان کی زرخیزی دیکھ کر وارد ہوئے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے والے اور گھوڑی کا دودھ پینے والے آریا جفا کش دلیر اور بہادر قوم تھے۔
قدیم ہند و سندھ( برصغیر)کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے دراوڑ چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریا ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔
آریاؤں کی آمد کے ساتھ ساتھ یا ان سے پہلے شمالی مشرقی ہندوستان برما بنگال آسام کے درّوں سے منگولی قومیں بھی ہندوستان میں داخل ہوتی رہیں۔آریا برصغیر کے شمال مغرب سے داخل ہوئے۔ شمالی برصغیر میں وہ صدیوں تک دراوڑوں سے لڑنے کے بعد پنجاب پر قابض ہوئے۔ پنجاب سے وہ گنگا کی وادی میں پہنچے۔ جہاں آریاؤں کی سیاست اور تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔
قدیم ہندوستان میں ایک عظیم الشان آریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ تقریبًا 600 قبل مسیح میں اس سلطنت کے زمانہ میں گوتم بدھ ہمالیائی ریاست کپل وستو میں پیدا ہوئے ۔بدھ نے اپنے زمانہ کی تمام معاشرتی برائیوں کے خلاف بغاوت کی۔۔ایران کے بادشاہ دارا نے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سکندر اعظم نے بھی 336 قبل از مسیح میں ہندوستان کا رخ کیامگر راجہ پورس نے اس کا خوب مقابلہ کیا ۔
پاٹلی پترا فتح کرنے کی ہوس لے کر سکندر اعظم کو واپس جانا پڑا۔
یونانی تہذیب نے شمالی ہندوستان کو متاثر کیا۔ سکندر اعظم کے جانے کے بعد پنجاب سے چندر گپت موریا اُٹھا۔
اس کے وزیر چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ نظم و نسق حکومت پر غالباً پہلی کتاب ہے۔
موریا خاندان کے شہنشاہ اشوک اعظم کا عہد حکومت بدھ مت کے مذہب کو سرکاری طور پر رائج کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔
موریا سلطنت کی تباہی کے بعد پانچ سو سال تک ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت دکھائی نہیں دیتی۔اس زمانہ میں ساکا او یوچی قوموں نے ہندوستان پر دھاوا بولا۔
ساکا قوم کا سب سے مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ اسی زمانہ میں بدھ مت اور برہمن میں کشمکش ہوئی۔
پُران بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔کم و بیش اسی زمانے میں پوریا سلطنت قائم ہوئی۔ اب پاٹلی پترا کی جگہ اجین کو ہندوستان کی مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہ زمانہ برہمن اور راجپوتوں کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔
مہا راجہ عظیم بکرما جیت سنگھ اسی پوریا خاندان کا ایک حکمران تھا۔ چندر گپت پوریا خاندان کے عہد حکومت میں ہندوستانی علوم و فنون اور صنعت و حرفت نے خوب ترقی کی۔ واضح رہے کہ چندر گپت پوریا اور چندر گپت موریا دو الگ الگ اقوام کے مہاراجے رہے ہیں۔۔۔ہندوستان اور روم میں تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے جاوا اور سماٹرا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔
چندر گپت پوریا خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان پھر بیرونی حملہ آوروں کا شکار ہوا۔
اب کے سفید ہن اور سیتھین قوم نے شمالی ہندوستان کو تخت و تاراج کیا ٹیکسلا کو تباہ برباد کیا یہ مہاراجہ اشوک کی سلطنت تھی۔ آج بھی کھنڈرات موجود ہیں۔مہر گل ہن قوم کا مشہور بادشاہ تھا۔ وہ ہاتھیوں کو پہاڑوں سے گرا کر ان کے مرنے کا تماشا دیکھتا اور خوش ہوتا۔
ساتویں صدی میں ہرش وردھن نے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نظم و نسق کو مشہور مورخ ہیون سانگ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہرش وردھن اگرچہ بدھ مت کا پیرو کار تھا لیکن اس کے عہد میں شمالی ہندوستان میں راجپوتوں اور برہمن نے زور پکڑ لیا تھا۔
لگ بھگ 600 عیسوی میں ہرش وردھن کی موت کے بعد ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔
اسلام اس وقت عرب کے صحراؤں میں پھل پھول رہا تھا۔
آٹھویں صدی عیسوی میں محمد بن قاسم دیبل کے راستے کراچی کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا۔راجہ داہر کو شکست دی اور ملتان تک پہنچا۔ لیکن کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی لیکن سندھ کے لوگوں پر کافی اثر چھوڑا۔
سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں تک بھی بنا لیں۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔غزنی سے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کرکے گجرات میں سومنات کے مندر کو فتح کیا۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے مشہور غلام ملک ایاز کو لاہور کا امیر بنایا اور ہندوستان کو اپنے ریاست کا حصہ بنایا۔۔
غزنویوں کو شکست دینے کے بعد سلطان محمد غوری نے لاہور کے راجہ جے پال کو بے دخل کرکے نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ پہلی اسلامی سلطنت تھی جو خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ہوئی۔سلاطین دلی میں التمش ۔ رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین بلبن نے تاریخ میں شہرت پائی۔
التمش اور رضیہ سلطانہ کو خلجیوں نے فتح کیا۔خلجیوں میں علاؤالدین خلجی مشہور سلطان تھا۔
خلجیوں کو خاندان تغلق نے فتح کیا جن میں محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق مشہور سلاطین گزرے۔
محمد بن تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آیا۔ اور بہت معلومات اپنے سفر نامے میں لکھیں۔
فیروز تغلق اور غیاث الدین تغلق مشہور ہوئے۔
محمود شاہ تغلق کمزور سلطان تھا۔
امیر تیمور کے حملے نے تغلق خاندان کے قوت و عظمت کو خاک میں ملا دیا۔دہلی کو تیمور لنگ نے تخت تاراج کیا۔
اور دہلی میں خون کی ندیاں بہادیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ امیر تیمور نے کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی البتہ خوب لوٹ مار کر کے چلا گیا۔بعد ازاں خضر خان نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی۔ سید خاندان کی کمزوری دیکھ کر بہلول لودھی نے دلی پر قبضہ کیا اور لودھی خاندان کی بنیاد ڈالی۔
سکندر لودھی اس خاندان کا مشہور سلطان تھا۔ سکندر لودھی نے آگرہ شہر آباد کیا اور آگرہ کو دار السلطنت بنایا۔ سکندر لودھی کے بعد ایک کمزور حکمران ابراہیم لودھی سلطان بنا۔ جس کو ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
ظہیرالدین بابر وسط ایشیا کی ریاست فرغانہ کے امیر شیخ مرزا کا بیٹا تھا۔ والد کی وفات کے وقت بابر کی عمر بارہ سال تھی۔
بھائیوں اور چچا کی مخالفت کی وجہ سے فرغانہ کو چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ پتھریلے پہاڑوں پر ننگے پاوں چلتے ہوئے اس کے پاوں اتنے سخت ہو گئے کہ کانٹا چبھنے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔جنگلوں میں گھومتے ہوئے اس نے مختلف قبائل جمع کرکے بارہ ہزار فوج اکٹھی کی اور کابل پر قبضہ کیا۔
ہندوستان کی زرخیزی اور دولت دیکھ کر اس نے بارہ ہزار فوج سے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔
ءسنہ1526 میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔بابر نے رانا سانگا کو بھی شکست دی اور اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ بابر اتنا جفاکش تھا کہ دو آدمیوں کو اٹھا کر قلعے کی دیوار پر دوڑ لگاتا تھا۔
بابر بڑا مردم شناس تھا۔ ایک دفعہ بابر نے تمام حکومتی امراء کو دعوت دی۔ دعوت میں شیرشاہ سوری بھی امراء میں شامل تھا۔
شیرشاہ سوری نے بابر کے سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا اپنا خنجر نکال کر کاٹ کر کھانے لگا۔ دعوت ختم ہونے پر بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو تنبیہ کی کہ اس شخص شیرشاہ سوری سے بچ کر رہنا۔
پھر ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ جب شیر شاہ سوری کے جانشین کمزور ہوئے تو ایرانی بادشاہ کی مدد سے ہمایوں نے دوبارہ سوری حکمران پر حملہ کیا اور اسکو شکست دے کر دوبارہ برصغیر کا شہنشاہ بنا۔
لیکن پانچ سال کے بعد طبعی موت مرگیا۔ہمایوں کے بیٹے اکبر کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کے استاد بیرم خان نے جلال الدین اکبر کے نام سے اکبر کو تخت پر بٹھایا اور خود اس کا سرپرست بن گیا۔
اکبر نے پچاس سال حکومت کی
دین الہی کے نام سے ایک نیا دین جاری کیا۔ ہندو عورتوں سے شادی کی جہانگیر ایک ہندو عورت جودا بھائی کے بطن سے پیدا ہوا۔
اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا۔
تزک جہانگیری میں زنجیر عدل کا ذکر ملتا ہے۔
اسکے بعد جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں شہنشاہ بنا۔شاہ جہاں کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کو انجینیر بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ تاج محل۔ شالیمار باغ اور ٹھٹھہ کی مسجد شاہ جہاں قابل ذکر ہیں۔
شاہ جہان بیمار ہوا تو اس نے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد بنایا۔اورنگزیب عالمگیر دکن میں مرہٹوں سے لڑ رہا تھا۔
اس کو پتہ چلا تو تخت نشینی کی جنگ چھیڑی۔ جس میں اورنگزیب فتح یاب ہوا۔
شاہجہاں کو قید کرکے بھائیوں کو شکست دی اور تخت پر بیٹھ گیا۔اس نے بھی پچاس سال حکومت کی لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیر نے بنائی۔
اس کی وفات کے بعد جانشین کمزور ہوتے گئے تیمور اور مغل خون میں ملاوٹ کی وجہ سے سست ہوگئے۔
جس نی محمد شاہ رنگیلا جیسے بادشاہ پیدا کئے۔ نادر شاہ نے بھی دلی پر حملہ کیا خوب دولت لوٹی۔
مشہور کوہ نور ہیرا اور تخت طاؤس بھی ساتھ لے گیا۔
ہندوستان جس کی دولت کے سرمائے سکندر کے زمانے سے یورپ جا رہے تھے۔
واسکوڈے گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان (برصغیر) کے ساحلی مقام کالی کٹ پر پہنچا۔
ہندوستان کے لوگوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی کے پیش نظر اس نو وارد کا استقبال کیا۔
کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اُشتر کی طرح پرتگیز بھی اسے خیمہ سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔پرتگیزوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد کالی کٹ کے سینہ پر ایک پرتگیزی قلعہ نظر آیا۔ تھوڑی مدت بعد پرتگیزی عَلم گوا کی دیواروں پر لہرایا۔
کالی کٹ کے لزبنی مہمانوں نے زیمورن کے شاہی محلات کو نذر آتش کرنے سے گریز نہ کیا۔
میزبان کی خدمت میں مہمان کا ہدیہ تشکر! پرتگیزی آخر اس ملک کے ساحل پر پہنچ گیا۔۔ ۔انگریز بھی شروع میں تجارت ہی کی غرض سے ہندوستان آئے۔
مغل بادشاہ جہانگیر کو کچھ تحفے تحائف دیے اور ہاتھ پاؤں جوڑ کر تجارت کی اجازت مانگی۔
اجازت ملنے کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں قائم کی۔اور بڑھتے بڑھتے اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کھوکھلی کرنا شروع کر دیا۔
بالآخر 1858 کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگوں بھیج دیا۔
اور انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔۔تاریخ میں بہت سے حملہ آور آتے رہے اور کچھ نا کچھ ساتھ لاتے رہے۔ اور بہت کچھ لے کر جاتے رہے۔
آج سے پانچ ہزار دو سو سال پہلے جو لوگ موجود تھے اب ان کی نسلوں میں بہت ملاوٹ ہو گئی ہے۔
جو بھی آیا اپنا نشان چھوڑ گیا۔ خالص کوئی نہیں بچا۔اسی طرح راجپوت بھی خالص نہیں رہے۔ سارے حملہ آور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
مغل بھی خالص نہیں رہے۔
بابر دراصل چنگیز اور تیمور کا مکسچر تھا۔ اسکے بعد اکبر اعظم نے ہندووں سے شادی کی تو جہانگیر تو مکسچر ہی تھا۔
آگے والی نسل اس بھی زیادہ مکسچر ہوتے رہے۔انگریزوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
اور اینگلو انڈین کے نام سے نئی قوم وجود میں آئی۔
آج کے برصغیر میں دیکھیں تو شمال مغرب کے لوگ گورے چٹے اور چائنا ناک والے ہیں۔
جوں جوں آپ جنوب کی طرف جائیں تو لوگ سانولی رنگت کے نظر آئیں گے۔
گورے چٹے بھی ہیں۔ اور جنوبی ہندوستان میں کالے اور چپٹی ناک والے زیادہ نظر آئیں گے۔
شائد ہی کوئی گورا اور گندمی ہو۔
جو کراس نسل سے ہو گا۔
بنگال میں زیادہ تر لوگ کالے چپٹی ناک والے ہونگے۔
لیکن کچھ خوبصورت اور گندمی رنگت والے بھی نظر آئیں گے۔کراچی میں بھی حبشی نسل کے گھنگریالے بالوں والے ملیں گے جن کو مکرانی کہتے ہیں۔
یوں برصغیر میں تمام حملہ آوروں اور باہر سے آنے والوں نے اپنا اثر ڈالا۔حملہ آور درہ خیبر کے ذریعے آتے رہے۔ آریا آئے۔ سکندر آیا منگول آئے۔ افغان۔ لودھی سوری۔ مغل جس راستے سے گزرتے گئے اپنا بیج بوتے گئے۔۔
اسلام تو آیا 610 عیسوی میں۔ اور ہمارے پاس دو تین سو سال بعد آیا اس سے پہلے لوگ یا بدھ ازم یا ہندو ازم مانتے تھے۔ ابھی بھی ٹیکسلا ۔سوات۔ افغانستان، گلگت، کوہستان میں مہاتما بدھ کی مورتیاں اور کھنڈرات موجود ہیں۔ ہم ہندوؤں یا،بدھ مت سے مسلمان ہوئے ہیں۔ - قرب قیامت کے آدمی
ایک سبق آموز حکایت ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے ایک چرواہے کی نگرانی میں کچھ بھیڑیں تھیں۔ ایک دن اس کے پاس ایک بھیڑیا آیا اور بولا:“مجھے ایک بھیڑ دے دو!”چرواہے نے حیران ہو کر جواب دیا:“یہ بھیڑیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ملکیت ہیں، میں تو بس ان کا رکھوالا ہوں!”بھیڑیا بولا:“تو جا کر حضرت سلیمان سے پوچھ لو کہ کیا وہ مجھے ایک بھیڑ دینے کی اجازت دیتے ہیں؟”چرواہے نے کہا:“مجھے ڈر ہے کہ اگر میں چلا گیا تو تم بھیڑوں پر حملہ کر دو گے۔”بھیڑیا ہنسا اور بولا:“جب تک تم واپس نہ آ جاؤ، میں خود بھیڑوں کی نگرانی کروں گا، الله نہ کرے کہ میں خیانت کروں لیکن اگر میں نے خیانت کی تو میں آخری امت کا قربِ قیامت والا ایک آدمی بن جاؤں” (یعنی اپنے آپ کو بد دعاء دی کہ ہم یعنی موجودہ مسلمانوں کی طرح ہو جاؤں، جو کہ افسوسناک ہے)یہ سن کر چرواہا روانہ ہو گیا۔راستے کی حیرت انگیز نشانیاں چلتے ہوئے چرواہے نے تین عجیب و غریب مناظر دیکھے:
پہلی نشانی: اس نے ایک گائے کو اپنی ہی بچی کا دودھ پیتے دیکھا! حیران ہو کر اس نے سوچا: “سبحان الله! میں نے اس جیسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟”
دوسری نشانی: آگے بڑھا تو ایسے لوگ دیکھے جو بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے، مگر ان کے ہاتھوں میں سونے کی تھیلیاں بھری پڑی تھیں! چرواہے نے سوچا: “یہ بھی بڑی عجیب بات ہے، ان کے پاس سونا ہے مگر یہ پھر بھی فقیر نظر آ رہے ہیں!”
تیسری نشانی: کچھ اور آگے بڑھا تو ایک بہتا ہوا چشمہ نظر آیا، پیاس کی شدت میں جیسے ہی قریب پہنچا، تو بدبو نے اسے روک دیا۔ پانی کی بدبو اتنی شدید تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا اور حیران ہو کر بولا: “یہ کیسی بات ہے؟ بہتا ہوا پانی اور اتنا گندا؟”
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت بھری وضاحت: بالآخر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا اور بھیڑیے کی درخواست بیان کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:“ٹھیک ہے ، میں نے اسے اجازت دی کہ وہ ایک بھیڑ چن کر کھا لے۔”
چرواہے نے عرض کیا:“حکم بجا لاتا ہوں، مگر راستے میں تین عجیب چیزیں دیکھی ہیں، ان کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
پہلی نشانی کا جواب:“یہ آخری زمانے کی نشانی ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو فتنہ میں مبتلا کریں گی تاکہ خود فائدہ حاصل کر سکیں۔”
دوسری نشانی کا جواب:“یہ لوگ ڈاکو اور چور ہیں۔ جو مال حرام سے آتا ہے، اس میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔ آخری زمانے میں حرام کمائی عام ہو جائے گی، قناعت ختم ہو جائے گی اور برکت اٹھا لی جائے گی۔”
تیسری نشانی کا جواب:“یہ بھی آخری زمانے کے نام نہاد دیندار ہیں۔ دور سے دیکھو تو ان کا لباس دین داری کا ہوگا، مگر جب قریب جاؤ گے تاکہ کچھ سیکھ سکو، تو پاؤ گے کہ وہ دنیا اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔”یہ سن کر چرواہے نے تڑپ کر کہا:“میں اس زمانے کے فتنے سے الـلــَّـه کی پناہ مانگتا ہوں!”
بھیڑیے کی حیران کن دیانتداری
چرواہا واپس آیا تو دیکھا کہ بھیڑیا واقعی بھیڑوں کی نگرانی کر رہا تھا۔اس نے کہا:“حضرت سلیمان نے تمہیں اجازت دے دی ہے کہ تم کسی بھی بھیڑ کو چن کر کھا سکتے ہو۔”بھیڑیے نے بھیڑوں پر نظر دوڑائی اور ایک کمزور، بیمار بھیڑ کو چن لیا۔چرواہے نے حیرت سے پوچھا:“تم نے یہی بھیڑ کیوں چنی؟”بھیڑیا بولا:“کیونکہ یہ اپنے رب کی تسبیح سے غافل تھی! جو اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو، وہ بہت بڑی آزمائش میں ہوتا ہے۔”
منقول عربی سے ترجمہ کیا گیا
- کیا اسرائیل “عظیم تر اسرائیل ” کے منصوبے پر کام کررہا ہے؟ امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ !
تحریر و تالیف : رشید احمد گبارو
صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ‘ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔
اس مغضوب قوم کا ماننا ہے کہ ’جب بنی اسرائیل حضرت موسی و ہارون علیھما السلام کے دور میں مصر سے نکل کر آئے تھے تو اس وقت ان کا مرکز فلسطین تھا جہاں آکر وہ آباد ہوئے‘ اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے اور اس کے علاوہ “عظیم تر اسرائیل” میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں یہودی آباد تھے۔
یہودی مذہب کے مطابق “عظیم تر اسرائیل” سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔
حقیقت میں گریٹر اسرائیل ایک ایسا مذہبی واہمہ ہے جو قابل عمل نہیں ’مگر اہل کتاب یہودیوں سے زیادہ صیہونی سیاست میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ’عملی طور پر‘ اسرائیلی، فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کو اپنا حصہ مانتے ہیں لیکن اگر صرف ’مذہبی واہمہ و مفروضہ ‘ کی بات کی جائے تو گریٹر اسرائیل میں جزیرہ نمائے عرب یعنی آج کے سعودی عرب، عراق، اردن، مصر کے کچھ علاقے اس میں شامل ہیں۔
گریٹر اسرائیل یعنی ’مملکت موعود برائے بنی اسرائیل‘ کے متعلق جب حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہودی مصر میں آباد ہوئے تب ان کی حکمرانی فلسطین سے لے کر بلادِ شام اور فرات کے کچھ علاقوں تک تھی اور عرب ریاستیں نہ ہونے کے باعث ان کا اثر و رسوخ کئی علاقوں تک تھا اور گریٹر اسرائیل کا تصور یہیں سے آیا ہے کہ ’بنی اسرائیل کی اولاد جہاں جہاں پلی بڑھی ہے وہ سب علاقے ہمارے ملک کا حصہ ہوں۔‘
مگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے اور اب اسرائیل کا مطلب صرف مقبوضہ علاقے ہیں جن میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ شامل ہیں۔
سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔
اس کے بعد اسرائیلی سیاستدان اور سابق وزیراعظم مینیچم بیگن نے کہا تھا کہ ’فلسطین کی تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے بحال کیا جائے گا۔‘
اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ’زایونزم 2.0: تھیمز اینڈ پروپوزلز آف ریشیپنگ ورلڈ سیویلائزیشن‘ کے مصنف ایڈرئن سٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا مطلب مختلف گروہوں کے لئے مختلف ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں اور ملک سے باہر رہنے والے یہودیوں کے لیے گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کا مطلب مغربی کنارے (دریائے اردن) تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرنا ہے۔ اس میں بائبل میں درج یہودیہ، سامرہ اور ممکنہ طور پر وہ علاقے شامل ہیں جن پر 1948 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں سینائی، شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔
’ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔‘
جنوری 2024 میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل رہا جس میں انھوں نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔‘صیہونی شدت پسند یہودیوں کا گریٹر اسرائیل یا ہندو توا کا اکھنڈ بھارت کے خواب کا نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ اسرائیل و بھارت کے پاس اتنی فوجی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے توسیع پسندانہ منصوبے کو مستقبل میں عملی جامہ پہنا سکیں لیکن فرض کریں ’اگر اسرائیل اور بھارت ایسی کوئی کوشش کرتے بھی ہیں تو مغرب و مشرق کی سیاسی و فوجی تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔‘ یہ محض ایک ذہنی شبہ یا واہمہ ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے مصنوعی سیاسی وینٹیلیٹر کا کام کرتی ہے جو ان کے مسخ شدہ نظریات کو زندہ رکھنے میں اور ان کے لئے معاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ویسے ہی ہوگی جیسے پاکستان میں کچھ لوگ خلافت اور دنیا بھر پر راج کرنے کا تصور رکھتے ہیں۔
مزید برآں گریٹر اسرائیل کا قیام اہل مغرب میں رہنے والے اہل کتاب یہودیوں کو قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ کیونکہ جب 1947 میں یہودیوں کے لئے اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت صیہونی تحریک کے پس منظر میں یہی خیال تھا کہ پوری دنیا میں انھیں استحصال کا سامنا رہا ہے لہٰذا انھیں بعینہ تقسیم برصغیر میں پاکستان کی طرح ایک الگ ملک ملنا چاہئے جہاں وہ اپنے مذہب کے استحصال سے بچ کر زندگی گزار سکیں اور تمام مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں آج بھی گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ مغربی کنارہ اور غزہ کو مقبوضہ علاقے کہا جاتا ہے اور اسے امریکہ اور برطانیہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
چہ جائیکہ گریٹر اسرائیل کی بات تو ایک طرف ان مقبوضہ علاقوں کے علاوہ گولان ہائٹس جہاں اسرائیل 1967 سے قابض ہے، اسے بھی تمام مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے مقبوضہ علاقہ مانتے ہیں جو کہ فلسطین کا حصہ ہے۔
بفرض محال اگر اسرائیل “گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہے تو مغرب کا اس پر کیا ردِعمل ہو گا؟ اس حوالے سے بین الاقوامی ماہرین و تجزیہ نگاروں کا یہ ماننا ہےکہ اب تک مغرب، بالخصوص امریکہ نے زمینی حقائق کی تبدیلی اور اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے حوالے سے کمزور ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت اس سال کے شروع میں جب اسرائیل نے کچھ پرتشدد آباد کاروں کو بستیاں قائم کرنے کی منظوری دی تو ’بائیڈن انتظامیہ نے بہت واضح انداز میں ان کی مذمت بھی کی تھی۔‘
سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی اور عملی طور پر گریٹر اسرائیل کے قیام کی باتیں محض خیالی ہیں اور اسرائیل میں موجود سنجیدہ یہودی سیاست دان تک اس بارے میں کبھی بات کرتے نظر نہیں آتے تاہم یہ مذہبی واہمہ ان طبقات میں ضرور موجود ہے جو ایک طرح سے پوری دنیا میں یہودیت کی نشاةِ ثانیہ کا تصور رکھتے ہیں۔ آج کے اسرائیل میں موجود سنجیدہ یہودیوں کا ماننا ہے کہ عملی طور پر یہ اس لئے بھی ناممکن ہے کہ وہ اردن جیسے ہمسایہ ممالک کی سرحدی حدود کو تسلیم کرتا ہے۔جنوری کو اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شئیر کئے گئے نقشے کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ مملکت اسرائیل تقریباً 3000 سال پہلے قائم ہوئی اور اس کے پہلے تین بادشاہوں میں حضرت طالوت، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام شامل تھے جنھوں نے مجموعی طور پر 120 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دور میں یہودی ثقافت، مذہب اور معیشت میں ترقی ہوئی۔
اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ931 قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہودہ۔ شمالی مملکت اسرائیل 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں (568 قبل مسیح) ختم ہو گئی۔
’یہ تقسیم صدیوں تک سیاسی تنازعات کا باعث بنی لیکن جلاوطنی کے دوران یہودی قوم اپنی ریاست کی بحالی کی خواہاں رہی جس کا قیام 1948 میں ریاست اسرائیل کے طور پر ہوا جو آج مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست ہے۔‘
اگرچہ گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا خیال نہیں مگر یہ تصور کہاں سے آیا اور ’دا پرومسڈ لینڈ‘ میں کون کون سے علاقے شامل ہیں، یہ جاننے کے لیے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔
مگر یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔
حالیہ دنوں اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک نقشے میں فلسطین، شام، لبنان، سعودی عرب اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے ’گریٹر اسرائیل‘ کا متنازع نقشہ جاری کرنے کے ردعمل میں سعودی عرب، فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عرب لیگ نے شدید الفاظ میں اسے مسترد کر دیا ہے۔
سعودی عرب نے واضح انداز میں اس نقشے کو انتہا پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ اس طرح کے عزائم اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں۔
فلسطین اور اردن کے حکام نے بھی اس متنازع نقشے کی شدید انداز میں مذمت کی ہے۔
عرب لیگ نے تو سختی سے خبردار کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس طرح کے اشتعال انگیزی سے نمٹنے میں ناکامی پر ہر طرف سے انتہا پسندی بڑھنے کا خطرہ ہے۔مسلم امہ کے لئے یہ لمحے انتہائی قابل غور اور فکریہ ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے لبنان میں اپنے قبضے کو وسعت دینے کی ناکام کوششوں کے بعد، جنگ زدہ اور تباہ حال ملک شام کی غیر مستحکم صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اپنی تمام تر توجہ بلادِ شام پر مرکوز کردی ہے۔ صیہونی طاقت کی اس نئی جنگی حکمت عملی کا ثبوت یہ ہے کہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلی بار صہیونی افواج شامی سرزمین میں داخل ہوئی ہے اور بہت اندر تک اپنے فوجی بیس قائم کرلئے ہیں۔
گولان کی پہاڑیوں کو امریکا کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک شام کا حصہ قرار دیتے ہیں اور اس علاقے میں اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے شام کے ساتھ 1974 کے جنگ بندی کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز کو مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ شامی فوجیوں کی جانب سے سیکورٹی پوسٹوں کو ترک کرنے کی وجہ سے دراندازی ضروری تھی اور یوں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، جس کا مکمل رقبہ تقریباً 1,800 مربع کلومیٹر ہے، اس میں سے 1,200 مربع کلومیٹر پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور اب اسرائیل شام کے دارالحکومت تک اپنی فوجوں کو تعینات کرچکا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے ممکنہ حکمت عملی کیا ہوگی۔ - ٢١ ويں برسی بزرگوارم قبلہ والد محترم
٢١ ویں برسی۔۔۔
بُزرگوارم قبلہ والد محترم ، مولانا مُحمّد رضاء،فاضلِ امروہہ، قَدَّسَ اللهُ سِرَّهُ (٢٠اکتوبر ١٩١٨- ٩
جنورى ٢٠٠٤)
وقت رخصت آ گیا تھا، صبر کر پایا نہیں
آپکو بس ایسا کھویا ،جیسے کبھی پایا نہیں
زندگی جتنی بھی ہے ،اب مستقل صحرا میں ہے
اور اس صحرا میں تیرا ،دُور تک سایہ نہیں
موت کی ليکن دل دانا کو کچھ پروا نہيں
شب کی خاموشی ميں جز ہنگامہ فردا نہيں
گرچہ تھا تيرا تن خاکی نزار و دردمند
تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند
کس قدر بے باک دل اس ناتواں پيکر ميں تھا
شعلہ گردوں نورد اک مشت خاکستر ميں تھا
موت کو سمجھے ہيں غافل اختتام زندگی
ہے يہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
دعاء
كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذوالجلال والإكرام ○ اللهم اغفر له وارحمه ولا تضيع أجره واسكنه الفردوس الأعلى ○ رب ارحمهما كما ربياني صغيرا ○ ربنا وتقبل دعاء ربنا الغفرلى ولوالدي وللمؤمنين يوم يقوم الحساب ○ - انسان واقعی زمینی مخلوق نہیں۔
انسان زمینی مخلوق نہیں ھے: امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ: ارتقاکےنظریات کاجنازہ اٹھ گیا: ارتقائی سائنسدان لا جواب: انسان زمین کا ایلین ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس سِلورنے اپنی کتاب میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی ۔ ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔ تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔ نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔ نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔ نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔ نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔ نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ نمبر سات: زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے ۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔نمبر آٹھ: انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی ۔ نمبر نو: انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ھے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ھے ۔انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی ۔۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے ۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہاہے ، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں ، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔ ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔ میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے ۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے ۔ میں نے نسل انسانی پر لکھنا شروع کیا تھا۔ اب اس تحریر کے بعد میں اس سلسلے کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکوں گا۔۔ ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے ۔۔ یہ سیارہ ہمارا نہین ہے ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے ۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی ۔
- مسلمان ہر سال ماہ رمضان المبارک میں اللہ تعالی کے لئے نماز تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔۔
سنت تواترہ۔۔۔ نماز تراویح رمضان کے مہینے میں عشاء کی فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ نماز کے بعد اور وتر واجب سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو، دو ، رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور ﷺ نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا اہتمام فرمایا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے اہل السنہ والجماعہ بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث/سلفی حضرات کے ہاں آٹھ رکعت تروایح کے بعد 3وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں ۔یعنی سلفی 11رکعات پڑھتے ہیں۔صحیح بخاری شریف کی مشہور و معروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے چار فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ کےبعد بیس رکعت سنت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دو کعت کے بعد سلام پھیرنا کے بعد (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے۔(تخریج از : فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔(تخریج از :فتاوی قاضی خان ج1ص112)علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رح لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نےحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کرام کی طرف سے اجماع تھا۔(تخریج از : بدائع الصنائع)امام سیدنا مالکبن انس رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی رح فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔(تخریج از : بدایہ المجتہد ج1 ص 214)مکہ المکرمہ مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ المکرمہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔امام سیدنا محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔( تخریج از : قیام اللیل ص 159)ایک دوسرے مقام پر امام شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے(تخریج از : ترمذی ج 1 ص 166 المجموع )علامہ نووی شافعی رح لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور ان کے اصحاب اور امام سیدنا احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور امام داوٴد ظاہری رح کا مسلک ہے اور علامہ قاضی عیاض رح نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔(تخریج از : المجموع)فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ رح لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور علامہ سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہٴ کرام کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا استدلال روایات سے بقول علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کے بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر رسولﷺ کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔(تخریج از : المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح) شریعت کی اصطلاح میں تراویح وہ نماز ہے جو سنت مؤکدہ ہےاور رمضان المبارک کی راتوں میں عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے،عام رواج اور معمول عشاء کے بعد متصل پڑھنے کا ہے۔( تخریج از : اوجز المسالک، 2/514 ، باب ما جاء فی قیام رمضان) ”صحیح بخاری ” میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ ﷺ نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپﷺ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلے دن لوگ زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریمﷺ باہر نہ نکلے ، جب صبح ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم ﷺ ثابت ہے، فرضیت کے اندیشہ سے آپ ﷺ نے عمداً مداومت نہیں فرمائی۔عہدِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ”موطا امام مالک” میں ہے کہ حضرت الرحمن بن عبد القاری رح فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اقتداء پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔”موطا امام مالک” میں حضرت یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔(تخریج از : موطا امام مالک، ج:1، ص:109، ط:مؤ سسہ الرسالہ ، ج:2، ص:159، ط:مو سسہ زاید بن سلطان۔تخریج از: صحیح بخاری ج:9، ص:95، ط:السلطانیہ۔تخریج از : نصب الرایۃ ج:2، ص:152، ط:مؤسسہ الریان) بیس رکعات تراویح کی دلیل آپ ﷺ کا عمل ہےکہ آپ ﷺ نے بیس رکعات تراویح کی نماز پڑھی ہے، آپ ﷺ کا یہ عمل اُس حدیث شریف میں منقول ہے جو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے؛ چناں چہ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ : “رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھا کرتے تھے”،یہ حدیث شریف حدیث کی کتابوں مصنف ابن ابی شیبہ، معجم کبیر طبرانی وغیرہ میں مذکور ہے، اور یہ ایک صحیح اور قوی حدیث ہے؛ کیوں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اس حدیث کے مطابق تراویح کی نماز پڑھی ہے، بلکہ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور میں اجماع ہو چکا ہے۔دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جس سنت پر رسول اللہ ﷺ یا آپ ﷺکے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مداومت نہیں کی ،بلکہ اس کو کبھی کبھی انجام دیا ہو اس کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس کام کو نبی کریم ﷺ یا آپﷺ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے ہمیشہ کیا اور اس پر مواظبت اور مداومت فرمائی ہے اس کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں ؛ چوں کہ بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی عنہم کی قائم کردہ ہیں، اور اس پر انہوں نے ہر رمضان میں پابندی کے ساتھ مواظبت بھی کی ہے، کبھی ترک نہیں کیا، اس لیے بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، لہٰذا بیس رکعت کا ثبوت تو آپ ﷺ کا عمل ہے اور اس کا سنتِ مؤکدہ ہونا یہ خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے جن کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: “میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو”۔(تخریج از : مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة، 225/5 ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیہ ۔تخریج از:موطا امام مالک، كتاب الصلاة فی رمضان، باب الترغيب فی الصلاة فی رمضان، 502/2-503، كتاب الصلاة فی رمضان، باب ما جاء فی قیام رمضان، 524/2،: مرکز السشیخ أبی الحسن الندوی الہند۔تخریج از :معارف السنن، أبواب الصیام، باب قیام شہررمضان، بیان أمر الفاروق بعشر ین ر کعہ وتلقیہ الأمہ بالقبول، 550/5، ط: دار التصنیف جامعہ العلوم الاسلامیہ ۔تخریج از : فتاوی شامی، كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل، 43/2-45 تخریج از : فتاوی تاتار خانیہ، كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر فی التراویح، 475/1، ط: قدیمی) رسول اللہ ﷺے ارشاد فرمایا:’’جوشخص تم میں سے میرے بعدجیتارہا، وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لواوردانتوں سے مضبوط پکڑلو۔ نئی نئی باتوں سے احتراز کرو، کیونکہ ہرنئی بات بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے۔”اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خلفاء راشدینؓ (یعنی سیدنا ابوبکرصدیق، سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہم ) کی پیروی رسول اللہ ﷺ کی وصیت ہے،اور ان کی تابعداری دین کا حصہ ہے،اوراس سے اعراض ومخالفت بدعت وگمراہی ہے،لہذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو 20 رکعت تراویح کا اہتمام فرما دیا یہ عینِ دین ہے،دین میں نئی بات یا بدعت ہر گزنہیں ہے۔قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی طرف سے 20رکعات مقرر نہیں کیں، اورنہ وہ کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے تھے، آپ نے جو 20 رکعات کا اہتمام فرمادیاہے، اس کی آپ کے پاس ضرور کوئی اصل تھی اور ضرور رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم تھا۔ امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سیدنا عثمانؓ،سیدنا علیؓ، سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ، سیدنا عباسؓ ابن عبدالمطلب، سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ، سیدنا طلحہؓ بن عبیداللہ، سیدنا زبیرؓ ابن العوام ،سیدنا معاذؓ ابن جبل ،سیدنا اُبیؓ ابن کعب اوردیگر کبار مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سب موجود تھے، مگر کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا، بلکہ سب نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔( تخریج از: مشکواہ المصابیح ،كتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنہ،ج:1 ،ص: 58،ط:المکتب الاسلامیتخریج از: اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم، ص:۲۹۲، بحوالہ الاختیارلتعلیل المختار، ج:۱،ص:۶۸)سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔”(تخریج از :مصنف ابن ابی شیبہج : 2 ص : 164 ط : دارالتاج ،لبنان) لہذا ماہ رمضان المبارکمیں بھی رات کو تہجد کے وقت| آٹھ |رکعات نماز پڑھیںاور پھر سال بھر ان کو پڑھنے کی عادت بنائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نوافل نماز تہجد “ہیں۔ رمضان المبارک میں عشاء کی |چار | رکعت فرض اور| دو| رکعت سنت مؤکدہ کے بعد | بیس (٢٠) |رکعات [پانچ ترو یحہ کے ساتھ یعنی ہر دوسلاموںیعنی چار رکعت کے بعد کچھ دیرآرام فرمانا اورتسبیح کرنا] اور آخر میں تین رکعات وتر واجب پڑھیں اورپھر رمضان ختم ہونے پر رک جائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نماز تراویح”ہیں۔
احکامِ_تراویح:
تروایح ہر عاقل و بالغ مرد اور عورت کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس کا ترک جائز نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 493)
تراویح کی بیس رکعت ہیں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی، ج 2، ص 299، رقم 4617)
تراویح کی جماعت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔
(ھدایہ، ج 1، ص 70)
تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادق تک ہے، عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے ادا کر لی تو نہ ہو گی۔
(عالمگیری، ج 1، ص 115)
عشاء کے فرض و وتر کے بعد بھی تراویح ادا کی جا سکتی ہے۔
(در مختار، ج 2، ص 494)
جیسا کہ بعض اوقات 29 شعبان المعظم کو رویتِ ہلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔
مُستحبّ یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کی جائے اگر آدھی رات کے بعد بھی پڑھیں تب بھی کراہت نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح اگر فوت ہوئی تو اس کی قضا نہیں۔
(درمختار ،ج 2، ص 494)
بہتر یہ ہے کی تراویح کی بیس رکعتیں دو دو کرکے دس سلام کے ساتھ ادا کرے۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح کی ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرے۔ (درمختار، ج 2، ص 494)
بِلاعذر بیٹھ کر تراویح ادا کرنا مکروہ ہے، بلکہ بعض فقہاء کرام کے نزدیک ہوتی ہی نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 499)
تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے، اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو ہو جائے گی ، مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں ادا کرنے کا تھا۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
تراویح میں ختمِ قرآن سنت مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی اہلِ علاقہ میں سے کسی نے تراویح میں ختمِ قرآن کر لیا تو سب کی طرف سے سنت ادا ہو گئی، لہٰذا گھر میں تراویح میں ختمِ قرآن نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قرآنِ پاک اُن رکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اعادہ کیا جائے ،تاکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ رہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُستحب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر آگے بڑھے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
الگ الگ مسجد میں تراویح ادا کر سکتا ہے جبکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ ہو۔
تراویح کی دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسر ی کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے آخر میں سجدۂ سہو کرلے اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کرلے مگر یہ دو شمار ہوں گی ،ہاں اگر دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں، ان کے بدلے کی دو رکعتیں دوبارہ ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہے اسکا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب کا شکار ہے تو جس پر اعتماد ہو اس کی بات مان لے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 117)
اگر لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ؟ تو دو رکعت ہر بندہ تنہا تنہا ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 2، ص 117)
افضل یہ ہے کہ ہر دو رکعت میں قِراءت برابر ہو، اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں۔
(ج 1، ص 117)
امام و مقتدی ہر دو رکعت کی ابتداء میں ثناء پڑھیں امام تعوذ و تسمیہ بھی پڑھے اور التحیات کے بعد درودِ ابراھیم اور دعا بھی۔
(در مختار، ج 2، ص 498)
اگر 27 ویں کو یا اس سے قبل قرآنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخر رمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنتِ مؤکدہ ہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
بعض مقتدی بیٹھے رہتے ہیں جب امام رکوع کرنے والا ہوتا ہے تب کھڑے ہوتے ہیں یہ مُنافقین کی علامت ہے۔
بہارِ شریعت، حصہ 4، ص 36)
رمضان المبارک میں وتر جماعت سے ادا کرنا افضل ہے، جس نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے ادا کیے وہ بھی وتر جماعت کے ساتھ ادا کر سکتا ہے۔
(فتاوی نوریہ جلد: 1، 559)
ایک امام کے پیچھے عشاء کے فرض دوسرے کے پیچھے تراویح اور تیسرے کے پیچھے وتر پڑھے اِس میں حرج نہیں۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرض و وتر کی جماعت خود کرواتے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
…………………………… - عقیدہ کی حد تک کسی کی پیروی کرنا اور اہل السنۃ والجماعت
انسان جب عقیدے کی حد تک کسی شخص کی پیروی کرے تو پچھلے بیانات نئے بیان پر شریعت کی طرح حاوی ہوتی ہیں ، جو نعوذ بااللہ ناسخ و منسوخ کا درجہ رکھتی ہیں۔ دین اسلام کا تنہا اور واحد ماخذ رسول اللہﷺ کی شان و صفات والی ذات اقدس ہے ،عقیدے کی حد تک کسی کی پیروی کرنےوالے کو انگریزی میں کلٹ فالوور کہتے ہیں، اور ایسی پیروی اسلام کی رو سے صرف انبیاء کرام علیہم السلام اور آثار صحابۂ کرام و اہل بیت العظام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جائز ہے اور کسی کی بھی نہیں، آثار صحابہ سے متصل زمانہ، تابعین کرام رحمہم اللہ تعالی علیہم نے سنت نبوی ﷺ کو مرتب و مدون کیا یعنی سنت نبویﷺ کو کتاب کی مستند شکل میں مرتب و مدون اہل السنہ و الجماعت کے لئے صرف ائمہء فقہاء أربعہ نے کیا ہے۔ اس تدوین کے لئے بعد از شہادت کربلا اہل بیت العظام اور امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ 61 ھ سے 99 ہجری تک کا زمانہ بنو امیہ کےناصبیت اور رافضیت کے تاریک دور کے بعد سنہ 99 ھ کو پانچویں خلیفہ الراشد سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی سنہ 102 ھ تک کڑی نگرانی اور رہنمائی میں سرکاری سطح پر اہتمام و بندوبست اور تحقیق شامل ہے۔۔ بطور اجماع امت مجاز ائمہ کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں ، پہلا ، الامام الاعظم فی الفقہ سیدنا نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ (80ھجری تا 150ھجری) جس کا مرکز برائے تحقیق و تدوین سنت نبویﷺ شہر کوفہ دارالخلافہء اسلام بعد از شہادت امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا، دوسرا، الامام دار الہجرہ دیار نبیﷺ، سیدنا مالک بن انس رحمہ اللہ تعالٰی عنہ(93 ھجری تا 179ھجری) جس کا مرکز تحقیق و تدوین سنت رسول اللہﷺ شہر رسالت مآبﷺ المدینہ المنوره تھا، تیسرا، لاامام المجدد کعبہ اللہ، سیدنا امام محمد ادریس الشافعی رحمہ اللہ تعالى علیہ(150ھجری تا 204 ھجری) جسکا مرکز تحقیق و تدوین حرم کعبہ مکہ المکرمہ اور شہر قاہرہ، مصر تھا، چوتھا، الامام المُبَجَّل سیدنا احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ(163ھجری تا 242ھجری) جسکا مرکز تدوین و تحقیق نو آباد شہر بغداد دارالخلافہ خلافت عباسیہ دور ہارون الرشید و مابعد تھا۔ان مندرجہ بالا چار ائمہ کے مدون کردہ سنت نبوی ﷺ و مرتب کردہ فقہی مسائل پر پیروی و تقلید کرنے والوں کو اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں۔۔۔
- غلط معلومات کی بنیاد پرخبریں گھڑنا اور پھر ریٹنگز کے چکر میں جھوٹےذاتی تجزئے کو آگے پھیلانا ، کیا یہی صحافت ہے ؟؟
غلط معلومات کی گندگی سے آلودہ صحافت:صحافت لفظ صحیفہ سے بنا ہے۔جس کا مطلب معلومات کی بنیاد پر خبر کی درست تحقیق کرکےعوام الناس کو آگاہی دینا ہے۔صحیفہ کا لفظ عموما الہامی کتاب کے لئے بولا جاتا ہے ، جبکہ صحافت کو ہم زمینی کتاب کہہ سکتے ہیں۔جیسےعالم امر سے وحی اور الہام کے لئے اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیائے کرام کا انتخاب کیا تھا جسکا تعلق رشد و ہدایت اور علم سے ہے، ویسے ہی عالم خلق میں کلام کے لئے بھی اہل افراد کا صحافت کے میدان میں اترنا لازم ہے جس کا تعلق معلومات سے ہے۔ذاتی مفادات پر مبنی تجزئے صحافت کے لئے زہر ہلاہل ہیں۔ شہرت اور مقبولیت کے لئے , یا پھر اپنے یوٹیوب اور الیکٹرانک چینلز کی ریٹنگ اور پروموشن کے لئے اپنی پسند کی خبریں لگانا اور سنسنی پھیلانا تعفن زدہ بدبودار صحافت ہے۔عوام کو شعور اور آگاہی دینے کی بجائے انہیں اپنی ہی دھرتی ماں ریاست کے مقابلے کے لئے ابھارنا صحافت جیسے عظیم پیشے سے خیانت کرنا ہے۔افسوس۔۔۔! آج صحافت ڈس انفارمیشن کی گندگی سے لت پت ہو چکی ہے۔ ڈس انفارمیشن کا بانی دراصل شیطان ہے۔کہ جب اس نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر حضرت آدم اور حضرت حوا کے سامنے ایک شجرِ ممنوعہ کے متعلق غلط رپورٹنگ کی تھی۔صحافت میں بھی ذاتی اور مالی مفادات کے لئے غلط رپورٹنگ کرنا, عوام الناس کو گمراہ کرنا اور جھوٹی خبروں کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈہ کرنا یقینا شیطانی قول و فعل ہے۔پاکستان کے صحافی , صحافت کو صحیفہ سمجھ کر ادا کرتے تو انبیاء کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ان کی ہر خبر عبادت ہوتی مگر انہوں نے عبادت کی بجائے امارت کی راہ اختیار کی۔شیطان کو گرو مان کر ڈس انفارمیشن پھیلا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو اپنے ہی وطن کے خلاف اکسایا اور مسلسل اکسا رہے ہیں۔ایسی تعفن زدہ بدبودار صحافت ملک و ملت کے لئے ہولناک نتائج بلکہ کسی حادثے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے،جو ڈس انفارمیشن اور سنسنی سے بھرپور ہو، جو صرف عوام کو مشتعل کرنے کے کام آ رہی ہو۔جب کوئی بھی صحافی اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو یقینا وہ اپنے پیشے سے ہی نہیں بلکہ ملک و ملت سے عین غداری کرتا ہے۔یہ امر مسلمہ ہے کہ سچ کو جتنا بھی ڈس انفارمیشن کے پردوں میں چھپایا جائے وہ بہر صورت ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے اور ڈس انفارمیشن پھیلانے والے بالآخر ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔آزادی اظہار رائے کی حد کہاں تک ہے؟؟جہاں آپ کی زبان میری ناک کو چھونے لگے وہاں تک..چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے اسی نقطہ نظر پر ریاستیں سختی سے کاربند ہیں اور یہی انکی ترقی کا راز ہےاس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی چین کی جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ریاست کے خلاف کام کرنے اور خبریں گھڑنے کے الزامات کا سامنا ہے۔پاکستان آج انتشار کا شکار ہے تو وجہ یہی نام نہاد آزاد ی صحافت ہے یہ ہمارے ناک تک محدود رہنے کی بجائے نتھنوں میں گھس چکی ہے۔پاکستان میں صحافی کے پاس صحافت کا لائسنس ہو یا نا ہو بدمعاشی کا ضرور ہوتا ہے۔ملٹری قیادت ہو، عدلیہ ہو یا کوئی بھی معزز ادارہ یہ دھڑلے سے ان پر جھوٹ لکھتے ہیں اور یہ جھوٹ عالمی منظر نامے پر جگہ بناتا ہے۔آج تک مملکت خداداد پاکستان میں کوئی بھی حکومت میں فیک نیوز پر قوانین نہیں بنا سکی جس پر عمل درآمد کرایا جا سکا۔عمران ریاض اور اسد طور کی گرفتاری سے یہ اعلان تو ہو چکا کہ اب بس.. بدمعاشی کے دن گئے..مزید نہیں..یہی وجہ ہے کہ حامد میر اور مطیع اللہ جان کو اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے چیخیں بتا رہی ہیں کہ فیک نیوز کا شکنجہ ان کی طرف بڑھ رہا اور انھیں اپنا انجام صاف نظر آ رہا۔حکومت کو بھی چاہئے کہ اب من گھڑت اور فیک نیوز پر سخت ترین قوانین متعارف کروائے بھارت، چائنا، روس اور ترکی کی طرز پر تیز ترین ٹرائل ہوں بھاری جرمانے، سزائیں اور ایسے مقدمات کے فیصلے تین ہفتوں میں ہوں تب ہی اس بدمعاشی کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔صحافی جھوٹ بولیں اور غلط الزام لگائیں اور ان سے کچھ نہ پوچھا جائے کیوں کے وہ صحافی ہیں ؟ اور آپ الزام لگانے والے کو ڈیفنڈ کریں کہ وہ صحافی ہے؟ آپ کے ہاتھ میں قلم آ گیا تو جو مرضی کرو نہیں ایس اب ہرگز ا نہیں ہو گا صحافی سے بھی پوچھا جائے گا۔قومی مطالبہ ہے کہ اب بس۔۔۔!سب جھوٹ بولنے والے صحافیوں گرفتار کر لیا جائے۔۔۔ سنی ہوئی بات آگے پھیلانا جھوٹ میں داخل ہے کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس لئے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کرلو، ایک حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے ۔ لہٰذا جو آدمی ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگے تووہ بھی جھوٹا ہے، اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوگا ۔ سوجب تک تحقیق نہ کرلو، بات کو آگے بیان نہ کرو۔افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس قبیح گناہ کے اندر بری طرح ڈوبا ہوا ہے، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کرکے اس کو آگے بڑھا دیا جو ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ دوسرے شخص نے جب اس بات کو سنا تو اس نے اپنی طرف سے اور اضافہ کرکے آگے چلتا کردیا، بات ذرا سی تھی ، مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کے نتیجے میں دشمنیاں ، عداوتیں ، لڑائیاں ، قتل و غارت گری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ بہر حال ! قرآن کریم اللہﷻ ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، یہ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام اور بہتان عائد کیا کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہوجائے، اس کو زبان سے نہ نکالو۔ افسوس ہے کہ آج ہم لوگ باری تعالیٰ کے اس حکم کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ہم طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
- ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ھے
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا فتوی موجود ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ھے ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجبِ ثوابِ عظیم ہے اور اُس کے ثمرات اُس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل یا غیرمتدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بُری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن اثرات بھی اُس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ *ضروری تنبیہ* مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (المائدہ ۵:۸) اور دوسری جگہ ارشاد ہے:کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵)ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لئے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورۂ طلاق (۶۵:۱) میں ارشاد ہے: وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ،یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو۔ ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط (البقرہ ۲:۲۸۳)، (یعنی شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہ گار ہے)۔ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چھڑائیں، ضرور ادا کریں۔ آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدے میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لئے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔ اس لیے جس حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملّت پر ظلم کے مترادف ہے، اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیتِ کار اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیلِ شر اور تقلیلِ ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیساکہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہا رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لئے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:۱۔ آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔۲۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود۔قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔۳۔ سچی شہادت کا چھپانا از روئے قرآن حرام ہے۔ آپ کے حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔۴۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔۵۔ ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ اللہﷺنے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔”ووٹ کی شرعی حیثیت'(مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ)
- مدح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین
دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے سیدنا محمد مصطفٰیﷺ پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحیِ الٰہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنتِ رسول اور احادیثِ نبوی ﷺ کی صورت میں ہو۔ جناب رسالت مآبﷺ سے اس وحیِ الٰہی اور دینِ اسلام کو لینے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو نبی کریمﷺ کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ترویج دین اسلام میں اہم ترین مقام حاصل ے۔ یہ ایک ایسی منتخب جماعت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور عام اُمت کے درمیان رشد و ہدایت کا واحد ذریعہ رابطہ ہے۔ اس رابطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہﷺ کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے۔۔ ارشاد باری تعالٰی ہے (النحل:۴۴) ۔۔۔۔ ’’آپ بیان کریں لوگوں کے لئے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔‘‘ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ ﷺ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے لئے ارشاد فرمایا، (الحجرات:۷)ترجمہ: ’’اور جان لو! تمہارے درمیان اللہ کے رسول (ﷺ) موجود ہیں اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہارا کہنا مان لیں توضرور تم بڑی مشکل میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ نےایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیااور اُسے تمہارے دلوں میں مزیّن فرما دیا اور تمہارے نزدیک کفر فسق اورنافرمانی کو قابل نفرت بنا دیا یہی لوگ راہِ راست پر ہیں ۔‘‘ (المجادلۃ:۲۲)ترجمہ:’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ (التوبۃ آیت۱۰۰)ترجمہ:’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘ (البقرۃ:۱۳۷)ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ :’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔‘‘ (البقرۃ:۱۴۳)ترجمہ:’’اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔‘‘ (الفتح:۲۹)ترجمہ:’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے چہرے پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘اس آیت میں ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘‘ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالکِ کائنات کی طرف سے آئی ہے ’’(التحریم:۸)ترجمہ:’’جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘ (یوسف:۱۰۸)ترجمہ:’’کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔” (الحدید:۱۰)ترجمہ:’’اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(مسند احمد، رقم الحدیث:۳۴۶۸)’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمدﷺ کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمدﷺ کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا (شرح السفارینی للدرۃ المنیفۃ، ج:۱،ص:۱۲۴)’’جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرے، کیونکہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک، اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل، اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچانو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ صراط مستقیم پر ہیں۔‘‘حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا(ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘ ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔ علامہ سفارینی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔’’اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہؓ کو پاکیزہ سمجھے، ان کے لئے عدول ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے، اور ان کی مدح و توصیف کرے، اس لئے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے صحابہؓ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدول پر یقین اور پاکیزگی کا اعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی ﷺ کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لئے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی، اور دین کے معاملے میں باہمی خیرخواہی اور ایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ (عقیدہ سفارینی ، ج:۲،ص:۳۳۸) امام ابوزرعہ عراقی رحمہ اللہ جو امام مسلم رحمہ اللہ کے استاذ تھے ، ان کا یہ قول نقل کیا ہے (ج:۲،ص:۳۸۹) ’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی بھی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لئے کہ قرآن حق ہے، رسولﷺ حق ہے، جو تعلیمات آپﷺ لے کر آئے وہ حق ہیں، اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتاہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، اور اس پر گمراہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرینِ حق وانصاف ہے۔‘‘ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحابِ رسول کی مدح وثناء اور ان کی رضوانِ الٰہی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کو برا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول اللہ ﷺکی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے۔
- تقوی کے فوائد اور ثمرات
#تقوی#مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ اللہ کا خوف مسلمان کے لئے حق و باطل کا معیار بن جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تقویٰ اختیار کرنے والے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا فضل وکرم والا ہے۔
تقویٰ کے فوائدتفسیر بالقرآن:متقین کے لئے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : 31تا33) متقین کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :24)متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لئے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5)متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)اگر مؤمن اس بات سے ڈرتا رہے جو اللہ تعالٰی کے احکام کے خلاف ہو ، تو اللہ تعالٰی متقین کے اندر ایسا نور بصیرت یا قوت تمیز پیدا کردے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی راہنمائی کرے گا۔ جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے گی۔ دنیا و آخرت کی سعادت مندی حاصل ہوگی۔برائیوں کو مٹا دیا جائے گا اور اکثر و بیشتر گنا ہ معاف کر دئیے جائیں گے۔تقویٰ (یعنی پرہیزگاری اللہ کی نافرمانی سے بچنا)کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ایمان والے شخص کو ایسی سمجھ عطا کر دیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کر دیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔یہاں فرقان کے معنی حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے۔انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح ھٹا ديتی ہےکہ اس بارے ميں وه ہر قسم كي غفلت يا غلط فہمی سے بلند ہو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتا ہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میں اپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پرواہ کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں تشویش ناک حد تک اندیشہ میں رہتا ہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرا دیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتا ہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میں اُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر اللہ کے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثنی (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتا ہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست اللہ تعالی کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔وللہ اعلم بالصواب۔
- یکم نومبر یوم جشن آزادی گلگت بلتستان
میرے خاندان کے افراد آزادی کی نعمت اور غلامی کی اذیت سے نابلد ہوتے اگر ہمارے درمیان میرے عم محترم مجاہد اول گلگت بلتستان جناب مولانا عبدالمنان حفظہ اللہ تعالی جن کی عمر ایک صدی سے زائد پر محیط ہے کی مسلسل پند و نصائح نہ ہوتی۔۔ الحمد للہ۔۔! مجاہد اول گلگت بلتستان محترم چچا جان ہی کی تحریک آزادی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ نے ہمیں غلامی اور آزادی کی پہچان دی۔۔ آپ اکثر اس پیرانہ سال حال میں بھی مکرر فرماتے ہیں کہ
“آزادی ہی اس دنیاوی زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے جبکہ غلامی زندگی کی سب سے بڑی ذلت اور اذیت ہے ۔ آزادی کی اہمیت کا ادراک وہی فرد کر سکتا ہے جس نے غلامی کی ذلت اور رسوائی دیکھی ہو۔”
اسلامی تعلیمات ہمیشہ حریت اور آزادی کا درس دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی 1857ءکی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند دوسرے اقوام کے غلام بن بیٹھے تو تب انہیں آزادی کی اہمیت کا احساس ہوا جس کی وجہ سے جداگانہ تحریک آزادی کا آغاز ہوا ۔ بالآخر لاکھوں قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد 14اگست 1947کو موجودہ دنیا کا پہلا آزاد اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تقسیم ہند سے پہلے گلگت بلتستان کے علاقوں میں ڈوگرہ اور انگریزوں کی حکومت تھی ۔ گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ لگ بھگ بہتر(72000)مربع کلومیٹر اور آبادی کم و بیش30لاکھ ہے جبکہ انتظامی طور پر تین ڈویژنز اور عبوری صوبائی اسمبلی کے 24حلقوں پر مشتمل ہیں ۔ پاکستان کے اس عبوری صوبہ گلگت بلتستان کی سرحدیں شمال کی جانب چین ، شمال مغرب میں افغانستان ، جنوب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ، جنوب مشرق میں آزاد جموں کشمیر اور مشرق میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ملتی ہے جو کہ اپنا محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کے دیگر صوبوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے میں بالخصوص قدرے زیادہ اور دنیا کی چھت کے طور پر بالعموم پوری دنیا میں غیرمعمولی جغرافیائی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے کامیاب منصوبے کی وجہ سے بام جہاں گلگت بلتستان پوری دنیا میں معاشی محور و گزرگاہ کا مقام حاصل کرچکا ہے۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رح نے ہمارے نزدیک دراصل گلگت بلتستان ہی کے لئے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا جو تقسیم ہند کے موقع پر جزوی طور پر کشمیر سے ملحق ایک وسیع خطہ تھا۔ گلگت بلتستان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان سیاحت اور پانی سے مالامال ہے بلکہ وطن عزیز کی سرحدیں چین اور وسطی ایشیاءتک پہنچ چکی ہیں اور یہی گلگت بلتستان ہے جو کہ پاک چین دوستی کی لازوال علامت ہے۔ مجھے یہ امر مانع نہیں ہے اگر یہ دعوی کروں کہ اس خطے کے عوام وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کی بہترین محافظ بھی ہیں۔ اگر یکم نومبر1947ء میں تحریک آزادی گلگت بلتستان کا یہ جذبہ منظر عام پر نہ آتا تو شاید پاکستان کی خارجی، داخلی اور معاشی حکمت عملی کی شکل کچھ اور ہی ہو جاتی۔ بہر کیف ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کو واقعی وہ مقام دیا جائے جو ان کا حق بنتا ہے تاکہ یہ جذبہ اور جنون ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ قومی میڈیا یکم نومبر کے اہم تقریبات کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ تحریک آزادی گلگت بلتستان اپنی اصل روح اور حقیقت کےساتھ سامنے آئے جو کہ ملکی ، علاقائی اور عوامی مفاد میں ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے تمام رہنما، ہیروز اور مجاہدین کو تحریک پاکستان کے راہنماؤں اور عمائدین کے برابر مقام دیا جائے۔
گلگت بلتستان کے ہر ایک فرد یاد رکھے کہ آج اگر وہ معاشرے کا ایک آزاد و خود مختار فرد ہے ،تو اس کی قسمت کی یہ روشن لکیر ہمارے آباء و اجداد کے لہو سے کندہ ہے ۔یہ آزادی بہت ہی بیش قیمت ہے۔اس لئے ہم سب ملکر اس کے تحفظ کے لئے یک جان ہو کر کوشش کریں ۔آزادی کی قدر و منزلت کا اندازہ ان قوموں کی تکالیف و اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے،جنھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔لہٰذا یہ قوم کے ہر اک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کی قربانی اور ایثار سے حاصل شدہ نعمت کی قدر کرے اور اس کی مضبوط دفاع و استحکام کے لئے اپنا فریضہ احسن طریقے سے نبھائے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو آج کے دن یہ عہد کرنا ہے کہ وہ اس خطے کی سلامتی اور خودمختاری کے لئے ہر صورت جہد مسلسل کرتے رہیں گے ۔وہ رواداری، مذہبی ہم آہنگی،پرامن بقائے باہم ، برداشت اور صلہ رحمی کو فروغ دیں اور ایسے افعال اور امور کو فروغ دینے سے اجتناب کریں ،جن سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوں جو دشمنوں کے لئے ترنوالہ ثابت ہوسکے۔ فی الحقیقت من حيث القوم یہی یوم جشن آزادی کے موقع پر ہمارا پیغام برائے پختہ عہد اور عزم ہو۔
طالب دعاء : بوسکندر - شداد کی جنت کے بارے حیرت انگیز حکایت
قوم ارم:۔ان لوگوں کا تعلق قومِ عاد سے تھا اور وہ اِرم نام کی بستی کے رہنے والے تھے۔ وہ بستی بڑے بڑے ستونوں والی تھی۔ عماد جمع ہے عمد کی اور عمد کے معنی ستون کے ہیں۔ عاد کے نام سے دو قومیں گزری ہیں۔ ایک کو عادِ قدیمہ یا عادِاِرم کہتے ہیں۔ یہ عاد بن عوض بن اِرم بن سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے دادا کی طرف منسوب کرکے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتاہے۔ اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے متصل تھا۔ان کی طرف حضرت ہُودؑ علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُودؑ علیہ السلام حضر موت کی طرف مراجعت کر گئے۔ ان کی رہائش احقاف کے علاقے میں تھے۔ حضرت ہوُدؑ کی وفات یہیں پر ہوئی۔ احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو غیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔ دو بادشاہ خاص طور پر ان میں بہت جاہ جلال والے ہوئے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ ایک کا نام شدید تھاجو بڑا تھا۔ دوسرے کا نام شدّاد تھا جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ یہ دونوں وسیع علاقے پر قابض ہوگئے اور بے شمار لشکر و خزانے اُنھوں نے جمع کر لئے تھے۔عادِاِرم کا قصہ شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اسکے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جو حکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔سمجھانے والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت و دولت ایک فانی چیز ہے جبکہ اللہ کی اطاعت میں اُخروی نجات اور جنت کا حصول ہے جو دنیا کی ہر دولت سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے پوچھا، یہ جنت کیسی ہوتی ہے؟ اس کی تعریف اور خوبی بتاؤ۔ نصیحت کرنے والوں نے جنت کی وہ صفات جو انبیائے کرام کی تعلیمات کے ذریعے ان کو معلوم ہوئی تھیں، اس کے سامنے بیان کیں تو اس نے کہا ”مجھے اس جنت کی ضرورت نہیں ایسی جنت تو میں خود دنیا ہی میں بنا سکتا ہوں۔“
شدّاد کی جنت :۔
چنانچہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں اپنی قلمرو میں سب حکمرانوں کو یہ حکم دیا کہ سونے چاندی کی کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجیں۔ اور کوہِ عدن کے متصل ایک مربع شہر (جنت) جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو، بنانے کاحکم دیا۔ اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔ پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کئے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سےسجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی و یاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے مزّین کیا گیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لئے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لئے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچا کریں۔بارہ سال کی مدت میں یہ شہر جب اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوگیا تو تمام امرا و ارکان ِ دولت کو حکم دیا کہ سب اسی میں آباد ہوجائیں۔ پھر شدّاد خود، اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ انتہائی تکبر اور غرور کے ساتھ اس شہر کی طرف روانہ ہوا۔ بعض علما و مصلحین کو بھی ساتھ لیا اور راستے بھر اُن سے طنز و تمسخر کرتے ہوئے ان سے کہتارہا ”ایسی جنت کے لئے تم مجھے کسی اور کے آگے جھکنے اور ذلیل ہونے کا کہہ رہے تھے! میری قدرت و دولت تم نے دیکھ لی؟“جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زر و جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اسی ناز و ادا سے چلتے ہوئے جب شہر کے دروازے پر پہنچا تو روایت ہے کہ ابھی اس نے گھوڑے کی رکاب سے ایک پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھاکہ اس نے وہاں پہلے سے ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا ”تُو کون ہے؟“اس نے کہا ”میں ملک الموت ہوں۔“پوچھا ”کیوں آئے ہو؟“اس نے کہا”تیری جان لینے۔“ شداد نے کہا مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔ جواب ملا ”مجھ کو حکم نہیں۔“ کہا، چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔ جواب ملا ”اس کی بھی اجازت نہیں۔“ چناں چہ ابھی شداد کاایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔پھر حضرت جبرائیل ؑنے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت تمام شہر مع اپنی عالی شان سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے:ترجمہ:”وہ جو اِرم تھے بڑے ستونوں والے اور شہروں سے اس کے مانند کوئی شہر شان دار نہ تھا۔“(پارہ 30۔ سورۃ فجر۔ آیت 7،8)شداد اور اس کی جنت کا انجام معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہوتی تھی ۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے میناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس چل پڑے۔ وہاں سے وہ سیدھے اُس وقت کے دارالخلافہ دمشق میں پہنچے۔ حضرت امیرمعاویہؓ وہاں موجود تھے۔ وہاں جو کچھ ماجرا ان کے ساتھ پیش آیا تھا، انھوں نے بیان کیا۔ حضرت امیرمعاویہؓ نے ان سے پوچھا، وہ شہر آپ نے حالتِ بیداری میں دیکھا تھا کہ خواب میں؟حضرت عبداللہؓ نے بتایا کہ بالکل بیداری میں دیکھا تھا۔ پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔حضرت امیرمعاویہؓ یہ ماجرا سننے کے بعد نہایت حیران ہوئے۔ پھر اہلِ علم حضرات سے اس بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نے بتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔ جب حضرت امیرمعاویہؓ نے یہ ساری نشانیاں حضرت عبداللہؓ بن قلابہ میں دیکھیں تو فرمایا، واللہ یہ وہی شخص ہے۔(بحوالہ:تذکرۃ الانبیا- تحقیق شاہ عبدالعزیز دہلوی)دوسری حکایت : ایک مرتبہ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی: اے مولائے کریم میں نے کروڑوں لوگوں کی جانیں قبض کی ہیں، مگر دو جانیں ایسی ہیں جنہیں قبض کرتے وقت مجھے بڑا ہی صدمہ اور افسوس ہوا ہے، میں نے تیرے حکم کی تعمیل ضرور کی، مگر نہایت ہی دکھ کے ساتھ اور وہ دو: ایک ماں اور ایک بیٹا تھا۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک جہاز غرق ہوگیا تھا اور ایک عورت درد زہ میں اپنے نومولود بچے کے ساتھ ایک تختے کا سہارا لینے میں کامیاب ہوگئی، تختہ دریا میں بہہ رہا تھا اور ماں اور بیٹا اس پر سوار تھے، اے مولا کریم اچانک تیرا حکم ہوا اور میں نے ماں کی جان اس تختہ پر نکال لی، میرے لئے پریشان کن بات یہ تھی کہ ماں مر چکی ہے، اب بچے کا کیا حشر ہوگا؟ بچہ ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر سوار ہے اور تختہ ہرآن پانی کی لہروں کے تھپیڑ کھا رہا ہے، جو کسی وقت بھی کسی لہر کی زد میں آکر الٹ سکتا ہے، بچے کے لئے نہ خوراک کا انتظام ہے، نہ کسی نگران کا بندوبست ہے۔دریا کے کنارے دھوبی کپڑے دھورہے تھے، اچانک کسی کی اس بچے پر نظر پڑی تو تختے کو کھینچ کر لائے، بڑے حیران ہوئے کہ ماں مر چکی ہے، بچہ بے یارو مددگار تختہ پر زندہ سلامت موجود ہے۔ وہ لوگ اس بچے کو اپنے سردار کے پاس لے گئے، سردار بے چارہ بے اولاد تھا، سردار خوبصورت بچہ دیکھ کر اس پر اس کا دل آگیا اور سردار نے بچے کو اپنی نگرانی میں لے کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا، یہ بچہ آٹھ نو سال کی عمر کا تھا کہ اپنے ساتھی بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اتنے میں بادشاہ وقت کی سواری کی آمد کا شور اٹھا، سب لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے، مگر یہ بچہ سڑک پر اکیلا کھڑا رہا، بادشاہ کی سواری گزر گئی، اس کے پیچھے اس کا عملہ پیدل آرہا تھا۔ ان میں سے ایک سپاہی کو راستے میں سے سرمہ کی ایک پڑیا مل گئی، اتفاق سے اس پیادہ سپاہی کی نظر بہت کمزور تھی اور سرمہ کی اسے بہت ضرورت بھی تھی، لہٰذا اس نے وہ سرمہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیا، آنکھوں میں لگانے سے پہلے اس خیال آیا کہ یہ سرمہ کوئی تکلیف نہ پہنچائے، لگانے سے پہلے کسی دوسرے شخص پر آزمالینا چاہیے، قریب ہی وہ بچہ کھڑا تھا، اس نے اس بچے پر آزمانا چاہا۔ بچے نے سرمہ اپنی آنکھوں میں لگایا، مگر جوں ہی سرمہ اس نے لگایا اسے زمین کی تہہ میں موجود چیزیں بھی نظر آنے لگیں، اس نے دیکھا کہ زمین کے اندر بہت سے خزانے پوشیدہ ہیں، بچہ ہوشیار تھا، اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا کہ سرمہ لگانے کی وجہ سے میری آنکھوں میں سخت تکلیف پیدا ہوگئی۔ ( وہ سرمے کی پڑیا گرا کر چلے گئے)۔ بچہ سرمہ کی پڑیا اٹھا کر گھر پہنچا اور خوشی خوشی باپ کو سارا واقعہ سنایا۔ سردار بڑا خوش ہوا، باپ نے کہا کہ ہمارے پاس آدمی بھی ہیں اور گدھے بھی ہیں، تم سرمہ لگاؤ، ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں، جہاں کہیں خزانے پاؤ، ہمیں بتاؤ ہم نکال لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بچے کے بتانے پر وہ لوگ خزانے نکالنے لگے اور تھوڑی ہی عرصے میں امیر بن گئے، بچہ جوان ہوا تو اس نے پوشیدہ خزانے نکالنے شروع کئے، ان کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی، زمین کے تمام خزانے اس کے نظروں میں تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ بہت سے آدمی اپنے ساتھ ملا لئے، اس کے بعد تمام سرداروں کو اِدھر اُدھر کردیا اور خود سردار بن گیا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے بادشاہ کے ساتھ بھی ٹکر لے لی اور اسے مغلوب کر کے خود بادشاہ بن گیا۔اس بچہ کا نام شداد تھا اور یہ وہی بچہ تھا، جس کی ماں تختے پر ہی مرگئی تھی اور یہ اکیلا دریا کی لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب یہ برسر اقتدار آیا تو اس نے حکم دیا کہ ایک ایسا کمال درجے کا شہر آباد کیا جائے، جس کی ایک اینٹ سونے کی ہو اور دوسری چاندی کی ہو، اس میں ایک عالی شان باغ ہو، جس میں دنیا کی ہر چیز میسر ہو، جب وہ شہر ہر لحاظ سے مکمل ہوگیا تو شداد نے ارادہ کیا کہ جا کر اس شہر کا نظارہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ شہر کو دیکھنے نکلا، ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ ملک الموت کو حکم ہوا اور اس نے وہیں اس کی روح قبض کرلی، اسے اتنا موقع بھی نہ دیا کہ اپنے بے مثال باغ کو ایک نظر دیکھ سکتا، ملک الموت نے کہا کہ اے اللہ ! اس شخص کی روح قبض کرتے وقت بھی مجھے نہایت ہی صدمہ پہنچا کہ وہ شخص ہر چیز تیار کر کے اسے دیکھ بھی نہ سکا۔رب تعالیٰ نے فرمایا یہ وہی بچہ ہے جس کی ماں تختہ پر مرگئی تھی اور اس پر تجھے ترس آیا تھا۔ اس بچے نے بڑے ہوکر نافرمانی کی، خدا کے حکم سے بٖغاوت کی اور سرکشی اختیار کی، مگر ہم نے اسے خود ساختہ جنت میں قدم رکھنے کی مہلت بھی نہ دی اور اسے باہر ہی ہلاک کردیا۔ اسی جنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا میں موجود ہے، مگر انسان کی نظروں سے اوجھل ہے۔سیدنا امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک صحابیؓ کا اونٹ گم ہوگیا تھا، وہ اونٹ کی تلاش میں کہیں اس علاقے میں جا نکلا، تو حق تعالیٰ نے اسے وہ سب کچھ دکھلا دیا تھا۔ وہ صحابی وہاں کی کوئی نشانی بھی ساتھ لایا تھا، اس صحابی نے یہ واقعہ امیر معاویہؓ کے پاس بیان کیا۔ انہوں نے کافی تلاش کرایا، مگر کسی کو وہ جنت نہیں ملی اور اسے حق تعالیٰ نے پوشیدہ کردیا۔ (بحوالہ خزینہ)شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری ،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ الفجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کرکے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ موخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کرکے صاحبِ تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:”وخبر شداد المذکورأخوہ فی الضعف بل لم تصح روایت کما ذکرہ الحافظ ابن حجر فھو موضوع کخبر ابن قلابہ”.(روح المعانی:15 / 338)یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔نیز اول الذکر ہر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا۔فقط واللہ اعلم
- علامات اہل السنۃ و الجماعۃ (امام اعظم ابوحنیفہؒ)
امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۵۰ھ) کی مختلف وصیتیں ہیں جو ان کے مختلف شاگردوں سے منقول ہیں۔ یہ وصیت عقائد کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے جو امام صاحب کے نامور شاگرد قاضی القضاہ امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۸۲ھ) کی روایت سے نقل ہوئی ہے۔ اس میں امام صاحب نے اہل السنۃ و الجماعۃ کی بارہ علامات بیان فرمائی ہیں، ا گرچہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ہر علامت متعدد مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے عقائد کے یہ مضامین بارہ سے زیادہ بن جاتے ہیں؛ مگر امت مسلمہ کے فقہاء کرام امام صاحب کے بیان کے موافق ان علامات کو بارہ کے عدد سے ہی ذکر کیا ہے اور جس قدر مضمون ایک علامت کے تحت امام صاحب کی اس وصیت میں درج ہے اسی طرح ہی اس کو باقی رکھا ہے ۔ اس وصیت کی ایک معروف شرح مصر کے معروف حنفی فقیہ و اصولی علامہ اکمل الدین محمد بن محمد البابرتی حنفی (متوفی ۷۸۶ھ) نے تحریر کی ہے۔ جسے عصرحاضر میں الدکتور محمد صبحی عایدی اور الدکتور حمزہ محمد وسیم البکری نے تحقیق وتخریج اور تعلیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔اور یہ نسخہ دارالفتح، اردن سے شائع ہوا ہے۔ اسی شرح کے آغاز سے قارئین کی سہولت کے لیے وصیت کا متن الگ سے بھی شامل کیاگیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ ۔
- اسرائیل اور مسلمان فلسطینیوں کے درمیان برسوں سے جاری سب سے زیادہ سنگین کشیدگی
بیت المقدس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جس کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث تواترہ بے شمار ہیں : اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اسے مبارک سرزمین قرار دیا ہے ،فرمان باری تعالی ہے ،پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں ۔ الاسراء آیت1 القدس الشریف ہی وہ علاقہ اور شہر ہے جس کو اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام کی زبان سے مقدس کا وصف دیا ، فرمان باری تعالی ہے ،اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے۔ سورہ المائدۃ آیت21 بیت المقدس ایسی پاکیزہ سرزمین ہے جہاں پر کانا دجال بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ حدیث میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا، وہ دجال حرم کعبہ و حرم نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ باقی ساری زمین میں گھومےگا۔ مسنداحمد حدیث رقم 19665 ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے 2 / 327 صحیح ابن حبان رقم 7 / 102 ۔سیدنا عیسی علیہ السلام دجال کو اسی علاقے کے قریب قتل کریں گے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، بروایت سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ ہے کہ سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد میں قتل کریں گے ۔ صحیح مسلم رقم2937 لد بیت المقدس کے قریب تل ابیب میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں اسرائیل نے ائرپورٹ بنا رکھا ہے۔ مسجد الاقصی وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ کو معراج کے لئے مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا۔بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی ۔۔۔ صحیح بخاری رقم41، صحیح مسلم رقم525 ،معروف و معلوم ہےکہ بیت المقدس ، محبط وحی اورانبیاء کرام کا مسکن اور وطن ہے ۔بیت المقدس ان مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکرنا جائزہے سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،کہ تین مساجدکے علاوہ کسی اور کی طرف سفرنہیں کیا جاسکتا ، مسجد حرام ، مسجد نبوی ﷺ ، اورمسجد الاقصی ،صحیح بخاری رقم1132 اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہی روایت کی ہے ۔ صحیح مسلم رقم827ایک طویل حدیث کا مفہوم ، جسے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسی مسجد میں سارے انبیاء علیہم السلام کی ایک نماز میں امامت کرائی ، حدیث کے الفاظا کچھ اس طرح ہیں،فحانت الصلاۃ فاممتھم ۔نمازکا وقت آیا تومیں نے سارے انبیاء کرام کی امامت کرائی۔ صحیح مسلم رقم172، لہذا امت کا اجماع ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ زمین کے کسی بھی علاقہ کی طرف عبادت کی غرض سے سفرکرنا جائز نہیں ہے ۔فرمانِ باری تعالی ہے، اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ سورہ محمد آیت7 ،بیت المقدس کی فضیلت کو مد نظر رکھتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم امیرالمومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ہمراہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلئے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔درحقیقت تقوی کا تقاضا ہے کہ جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا، کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے القرآن سورہ آل عمران آیت139، اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہو گے، زمانہ قدیم میں جس علاقے کو’’شام‘‘ کہا جاتا تھا ، وہ لبنان ،فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل ہے ،احادیث مبارکہ میں جس مبارک علاقے کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء و رسل کرام کو مبعوث فرمایا گیا،نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سے چند اسمائے مبارک ، سیدناابراھیم خلیل اللہ، سیدنا لوط ،سیدنااسحاق ،سیدنایعقوب ،سیدنا موسیٰ کلیم اللہ نے تو اس سرزمین ،بیت المقدس پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی۔صحیح بخاری رقم۱۳۳۹، سیدنا ہارون ، سیدنا یوشع ،سیدنا داؤد،سیدنا سلیمان، سیدنازکریا، ،سیدنا یحییٰ، سیدناعیسیٰ علیہم السلام اجمعین۔ جب یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا،اور ان کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔بیت المقدس کے گرد و نواح کا سارا علاقہ یعنی فلسطین انبیاء رسل علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فلسطین ہی کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔سیدنا داؤود خلیفہ اللہ علیہ السلام نے اسی بابرکت سر زمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔سیدنا سلیمان علیہ السلام اسی بابرکت ماحول میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔سیدنا زکریا علیہ السلام کا مبارک محراب بھی اسی شہر میں ہے۔اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء و رسل علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں بی بی سیدہ مریم علیہ السلام کے بطن سے رسول سیدنا عیسٰی روح اللہ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے ۔سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔قیامت کی علامات میں سے ایک سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قران میں بیان کردہ قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ مدینہ منورہ کے جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ ہجرت سے پہلے جناب نبی کریم محمد مصطفٰی، احمد مجتبٰی ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔سرور کونین محمد رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں تمام انبیاء و رسل علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔وصال سرور کائنات نبی اکرمﷺ کے بعدخلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشکلات کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔اسلام کے سنہرے دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود امیر المومنین فاروق اعظم سیدنا عمر ابن الخطاب کا خو چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو سلطان صلاح الدین ایوبی رح کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی عالم اسلام کے لئے ایک نشانی ہے۔ ہمارے پیارے نبی آخر الزمان سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش اور بعثت اگرچہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی سیر کرائی گئی جہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس مسجد الاقصیٰ سےہی ہوئی۔سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا، مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا، مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال۔صحیح بخاری رقم۳۳۶۶،صحیح مسلم رقم ۵۲۰ایک اور حدیث میں ” نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اعدد ستا بین یدی الساعۃ موتی ثم فتح بیت المقدس صحیح بخاری رقم۳۱۷۶، قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو،ایک میری موت اور پھر بیت المقدس کی فتح، سر زمین انبیاء علیہم السلام بیت المقدس و مسجد الاقصی جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے ، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے ، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے؛ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ی ہ ودی اپنے قدم جمانے اور اس کو ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبہ پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، ساری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے ، جلسے جلوس ہورہے ہیں ، مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لئے ہر طرح کی جدوجہد واجب عین ہے۔ تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔آج پوری دنیا اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ان تمام عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی شمار کرتی ہے جس میں واضح ہے کہ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لئے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی،تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اوروہ اسی حالت پر ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں گے، حدیث صحیح، تخریج از مسند احمد رقم 12494 ۔ طالب دعا اور اپنے رب سے معافی کا طلبگار۔بوسکندر
- برائیوں کے خاتمے کے لئے اسلام کا تصور
ترجمہ اردو : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(سورہ آل عمران آیت 164 )
اللہ تعالیٰ کے احسانات قرآن مجید کے رو سے
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسان ان گنت ہیں۔ (سورہ ابراہیم آیت34)
ایمان نصیب ہونا اللہ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ (سورہ الحجرات آیت16)
رسالت مآب ﷺ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (سورہ آل عمران آیت164)
کمزوروں کو خلافت دینا اللہ کا احسان ہے۔ (سورہ القصص آیت5)
اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (سورہ ابراہیم :آیت11)
تفسیر و مفہوم آیت 164 سورہ آل عمران
علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالٰی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لئے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ السلام پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور سارے عرب میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام، سیدنا عیسیٰ ابن مریم روح اللہ علیہ الصلوۃ السلام اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔
محسن انسانیت ﷺ
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اس احسان عظیم کی طرف مومنین کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دونوں جہاں کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور رسالت مآبﷺ کی بعثت سے پہلے مطلع عالم پر جہالت وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری، بے حیائی، زناکاری اور سرکشی کا بازار انفرادی اور معاشرتی طور پر گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان سے لیکر مغرب تک طاقتور اپنے زیر دست رعایا کا خون چوس رہے تھے اور مظلوم نہایت عاجزی کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ،علم کا یہ حال تھا کہ سارے عرب میں چند ہی لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، جزیرہ العرب تقریبا ہی جہالت کے گہرے تالابوں میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، چنانچہ وہ نبی آخر الزمانﷺ فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اندھیری ظلمات، درخشندہ تابندگی میں بدل گئی ، اخلاق و اصلاح کا ارتقائی عمل شروع ہوا، اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نور سے روشن ہوگئی اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل و توضیح کی ‘ تزکیہ وتطہیر کا عمل شروع ہوا ، جہاں پراگندہ دماغوں کو الہامی تعلیمات سے آراستہ کیا وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے منور کردیا ۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی سے کہا : اے بادشاہ ! ہم لوگ جاہل تھے ‘ بتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے ‘ بےحیائی کے کام کرتے تھے ‘ رشتے توڑتے تھے ‘ ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے ‘ ہم میں سے قوی شخص ضعیف کا حق کھا جاتا تھا ‘ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک عظیم رسول بھیجا جن کے نسب کو ‘ ان کے صدق کو ‘ ان کی امانت داری کو اور ان کی پاک دامنی کو ہم اچھی طرح جانتے تھے ‘ انہوں نے ہم کو دعوت دی کہ ہم اللہ وحد ہ لاشریک کی عبادت کریں ‘ ہم اور ہمارے آباء و اجداد جن پتھروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے اس کو ترک کردیں انہوں نے ہم کو تعلیم دی کہ ہم سچ بولیں ‘ امانت ادا کریں ‘ رشتے جوڑیں ‘ ہمسایوں سے اچھا سلوک کریں ‘ حرام کاموں اور خوں ریزی کو چھوڑ دیں ‘ انہوں نے ہمیں بےحیائی کے کاموں ‘ جھوٹ بولنے ‘ یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ‘ نماز پڑھیں ‘ زکوۃ ادا کریں اور روزے رکھیں۔ الحدیث (تخریج از مسند احمد بن حنبل ج ١ ص ٢٠٢)
تفسیر عثمانی۔آیت164 ۔سورہ آل عمران یعنی انہی کی جنس اور قوم کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال، اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں۔ اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سےجب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتےہیں تو یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی چار شانیں بیان کی گئیں
تلاوت آیات
اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا جن کے ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر عمل کرتے تھے
تزکیہ نفوس
نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان کو پاک کرنا اور دلوں کو نچوڑ کر صاف ستھرا اور چمکدار بنانا اور یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی
تعلیم کتاب
کتاب اللہ کی مراد و مقصد بتلانا اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی ۔ مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو کوئی اشکال پیش آیا، اس وقت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین ہوتی تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے {جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔} (الانعام۔۸۲) الخ اور دوسرے مقامات میں ہوا۔
تعلیم حکمت
حکمت کی گہری باتیں سکھلانا اور قرآن کریم کے اسرار و رموز اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریح یا اشارہ ہو ۔آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی کی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو فائز کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی چند روزہ تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے عظیم ہادی و معلم بن گئے ۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ اس نعمت عظیم کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہو۔
اسلام میں برائیوں کی بتدریج خاتمے کی حکمت
ہزاروں انسان ایسے ہیں جن کے رگ و ریشے میں بری عادت و اخلاق سرایت کرکے ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں تو آپ کو قرآنِ کریم کے23 سال کے عرصے میں بتدریج نزول کی ضرورت کااحساس ہوگا۔قرآن کریم نے پہلے ان کی روحوں کو بری عادات واخلاق کی نجاست سے پاک کیا اور پھر ان کے دلوں کو اعلی اخلاق سے مزین کیا اور مختصر سے عرصے میں کامیابی سے ہزاروں انسان کی اصلاح کی۔ہمارے خیال میں تئیس سال میں قرآن کریم کے نزول کو تیز رفتار نزول سمجھا جانا چاہئے ۔ہرشخص جانتاہے کہ شراب نوشی کے سبب ہرسال سینکڑوں گھر اجڑتے ہیں۔تئیس سال انتہائی مختصرمدت ہے،لہٰذا۔ قرآن کریم نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ دراصل ہمارے پیارے نبی آخر الزماں ﷺکا معجزہ ہے۔رسول اللہﷺنے تئیس سال کی مدت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ انسانیت ہزاروں سال میں حاصل کرسکی اورنہ ہی کبھی حاصل کرسکے گی۔قرآن کریم نے جہاں لوگوں کی سینکڑوں بری عادات واخلاق کا ازالہ کیا، وہیں انہیں کوئی تکلیف یا ایذاء پہنچائے بغیر اعلیٰ اوصاف و اخلاق سے مزین بھی کیا۔قرآن نے مختلف مراحل میں بہت سے مسائل کاعملی حل پیش کیا،جن میں سے بعض مراحل کے لئے آج تئیس سال سے کئی گنا زیادہ عرصہ درکارہے۔اس دورکے انسان کے لئے اوامر و نواہی کی ایک بڑی تعداد کو قابل قبول بنانے نیز برائیوں کے بتدریج خاتمے اورشخصیت کی بتدریج تعمیر کے لئے تئیس سال کی یہ مدت ناگزیرتھی،مثلاًاس مدت کے دوران شراب کو تین چار مراحل میں حرام قرار دیا گیا۔بچیوں کو زندہ درگورکرنے کی ممانعت دو مراحل میں ہوئی۔اس دورکے انسان میں اجتماعی شعور کوبیدار کر کے قبائلی زندگی کی تنظیم نو اور وحدت کا بندوبست کیا گیا، دوسرے لفظوں میں ان میں معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا کی گئی۔یہ اہداف بری عادات و اخلاق رزیلہ کا خاتمہ کر کے اور انتہائی مشکل اقدامات اٹھاکر ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرکے حاصل کئے گئے۔ درحقیقت ان کاموں کے لئے اس سے کہیں زیادہ مدت درکار تھی جو بلندی تک اٹھانے کے مترادف ہوتا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم کاتئیس سال کے دوران بتدریج نازل ہوناانسانی طبیعت اورفطرت کے عین مطابق ہے۔چونکہ انسان کوکائنات سے جدا کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی کائنات میں ہونے والے ارتقا کو نظراندازکرکے انسان سے برتاؤ کیاجاسکتاہے، اس لیے ہمیں اس کے ساتھ قوانین فطرت کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے۔جس طرح کائنات میں بتدریج افزائش ہوتاہے اور قوانین فطرت بھی بتدریج کام کرتے ہیں،اسی طرح انسانی افزائش ،ارتقا اورتکمیل پذیری بھی بتدریج ہوتی ہے۔ترقی کی بنیاد اور اعلیٰ اصولوں کے مجموعے کی حیثیت رکھنے والے قرآن کے تئیس سال کے عرصے میں بتدریج نازل ہونے کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی۔نزول وحی کے دورانیے کاتئیس سال پرمحیط ہونابھی حکمت پر مبنی تھا۔
دین پر مکمل عمل کرنے کے لئے اسلامی نظام حکومت ضروری ہے
حضور سرکار دوعالم ﷺ نہ صرف دین سکھانے بلکہ دین کو دنیا میں قائم اور تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ارشاد الہی سورہ فتح اور التوبہ (لیظھرہ عَلی الدِّینِ کُلِّہ) سے اس کی دلیل ہے۔یہ کہنا صحیح ہےکہ بغیر حکومت کے دین پر مکمل طور پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ بیشتر متبحر علما کے مطابق ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اسلام ایک جامع طریقہ حیات ہے اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں ان میں سے ایک شعبہ سیاست اور اسلامی نظام حکومت کے قیام بھی ہے ، اور اس سے اسلام کے بہت سے احکام وابستہ ہیں جن پر اس کے بغیر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اگر اسلامی حکومت کا قیام ہوجائے اور اس کیلئے تن، من اور دھن سے جدو جہد کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے۔جہاں تک آیت کریمہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ“ کا تعلق ہے تو اس میں دلیل و حجت کے اعتبار سے اسلام کا غلبہ مراد ہے اور یہ ہر زمانے میں رہا ہے ؛ کیونکہ اسلام حد درجہ فطرت سے ہم آہنگ اور مصلحتوں اور حکمتوں کے موافق ہے ۔ سورہ الفتح آیت 28 میں ارشاد الٰہی ہے{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } [وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر] اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی ﷺ کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [تاکہ وہ غالب کر دے اسے کل کے کل نظام زندگی پر]۔ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت 2 اور آیت 20 میں جس سیدھے راستے صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کا ذکر ہے وہ راستہ ”اظہارِ دین حق“ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورہ الشوریٰ کی آیت 13 میں [اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ] کے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورہ الشوریٰ کی آیت 21 میں جھوٹے معبودوں کے باطل ہونے کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ”الدِّیْن“ نظامِ زندگی کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کا مفہوم کہ [ کیا ان کے لئے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟]یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ، تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ”اظہارِدین حق“ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ اس ”الدِّین“ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } [اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔] عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ”گواہ“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ”مددگار“ ہوگا۔ سورة البقرۃ کی آیت 23 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ، جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا { وَادْعُوْا شُہَدَآ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ[ بلا لو اس کام کے لئے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا]
سورہ الصف آیت 9 { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر۔]حضور پرنور ﷺ کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار اس مقام کے علاوہ سورہ التوبہ ‘ آیت 33 اور سورہ الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسل کے لئے قرآن مجید میں بشیر ‘ نذیر ‘ مذکر ‘ شاہد ‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہے۔ الہدیٰ سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ قرآن ہے جو آپ ﷺ پر کامل ہوگیا ‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان شریعت عطا ہوتی رہی تھی حضور ﷺ کی بعثت میں وہ کامل ہو کر دین الحق یعنی سچے اور عادلانہ نظام زندگی کی شکل اختیار کرگئی۔ چنانچہ آپ ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و انصاف کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کردیا جائے۔ یہ تھا حضور ﷺ کی بعثت کا مشن جس کےتکمیل کے لئے ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘ دولت اکٹھی کرو ‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو ‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لئے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور رسم و رواج پر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے ‘ ہماری بلا سے ! تصور کریں ‘ اگر آج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ { وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ } [اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو !] ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو ‘ نظام توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حاکمیت قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے ، بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں ، جو نمرود اور فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا : سورہ الزخرف ،آیت 51 [ کہ دیکھو ! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے ؟ ] تو فرعون کے اس دعوے اور عوام کی حاکمیت کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا ؟ صرف یہی کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظام عدل کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو اپنی حاکمیت کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالٰی تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں کہ [اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت و دلیل کے اعتبار سے ہے ، یہ تو ہر زمانہ میں بحمداللہ نمایاں طور پر حاصل رہا ہے۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہو گا جبکہ مسلمان اصول اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان و تقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحہ ہستی سے محو کر دے۔یہ نزول مسیحؑ کے بعد قریب قیامت کے ہونے والا ہے۔] وللہ اعلم طالب دعا،بو سکندر
- اپنی کم تنخواہ پر غم نہ کریں ہو سکتا ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ : إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک علقة یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے مضغة ( گوشت کا لوتھڑا ) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر ( چوتھے چلہ میں ) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد، کو لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پس انسان ( زندگی بھر ) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ صحیح بخاری رقم3332طالب دعاء : بوسکندر
- اسلام کا اقرار کرنے والے جنتی ہیں۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی عنہ
فالمسلمون سنيهم وبدعيهم متفقون على وجوب الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، ومتفقون على وجوب الصلاة والزكاة والصيام والحج، ومتفقون على أن من أطاع الله ورسوله فإنه يدخل الجنة، ولا يعذب، وعلى أن من لم يؤمن بأن محمدًا رسول الله ﷺ إليه فهو كافر، وأمثال هذه الأمور التي هي أصول الدين وقواعد الإيمان التي اتفق عليها المنتسبون إلى الإسلام والإيمان، فتنازعهم بعد هذا في بعض أحكام الوعيد أو بعض معاني بعض الأسماء أمر خفيف بالنسبة إلى ما اتفقوا عليه.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٧/٣٥٧.تمام سنی اور بدعتی مسلمان متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی پر ایمان واجب ہے،رسولوں،فرشتوں،کتابوں اور آخرت پر بھی ایمان فرض ہے.. دین کی ان بنیادوں پر اتفاق کے بعد امت میں بقیہ تمام اختلافات کی نوعیت قدرے خفیف سی رہ جاتی ہے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوی،٧/٣٥٧).
عَامَّةَ أَهْلِ الصَّلَاةِ مُؤْمِنُونَ بِاَللَّهِ وَرَسُولِهِ؛ وَإِنْ اخْتَلَفَتْ اعْتِقَادَاتُهُمْ فِي مَعْبُودِهِمْ وَصِفَاتِهِ؛ إلَّا مَنْ كَانَ مُنَافِقًا يُظْهِرُ الْإِيمَانَ بِلِسَانِهِ وَيُبْطِنُ الْكُفْرَ بِالرَّسُولِ؛ فَهَذَا لَيْسَ بِمُؤْمِنِ. وَكُلُّ مَنْ أَظْهَرَ الْإِسْلَامَ وَلَمْ يَكُنْ مُنَافِقًا فَهُوَ مُؤْمِنٌ. لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِحَسَبِ مَا أُوتِيَهُ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ مِمَّنْ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ الْإِيمَانِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا جَمِيعُ الْمُتَنَازِعِينَ فِي الصِّفَاتِ وَالْقَدَرِ عَلَى اخْتِلَافِ عَقَائِدِهِمْ؛ وَلَوْ كَانَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إلَّا مَنْ يَعْرِفُ اللَّهَ كَمَا يَعْرِفُهُ نَبِيُّهُ ﷺ لَمْ تَدْخُلْ أُمَّتُهُ الْجَنَّةَ؛ فَإِنَّهُمْ أَوْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ هَذِهِ الْمَعْرِفَةَ؛ بَلْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَتَكُونُ مَنَازِلُهُمْ مُتَفَاضِلَةً بِحَسَبِ إيمَانِهِمْ وَمَعْرِفَتِهِمْ.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٥/١٣٥.وہ تمام لوگ اور فرقے مومن مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کا اقرار کیا ہے اور بالآخر جنّتی بھی ہیں.. اگرچہ اللہ تعالٰی اور اسکے اسماء و صفات تک میں اختلافات واقع ہو جائیں.اور اگر جنت میں جانے کے لئے معرفتِ الٰہی کی ایسی کڑی شرط لگائیں جیسی معرفت رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھی تو امت میں کوئی بھی جنت میں نا جا سکے.. کیونکہ رسول اللہ ﷺ جیسا ایمان کسی کا بھی نہیں ہے.پس اسماء و صفات اور قضاء و قدر تک میں اختلاف کرنے والے بھی مومن ہیں اور جنت میں جائیں گے اگرچہ درجات سب کے الگ الگ ہیں اور ہوں گے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوى،٥/١٣٤)
رأيت للأشعري كلمة أعجبتني وهي ثابتة رواها البيهقي سمعت أبا حازم العبدوي سمعت زاهر بن أحمد السرخسي يقول : لما قرب حضور أجل أبي الحسن الأشعري في داري ببغداد دعاني فأتيته فقال : اشهد علي أني لا أكفر أحدا من أهل القبلة لأن الكل يشيرون إلى معبود واحد وإنما هذا كله اختلاف العبارات . قلت : وبنحو هذا أدين وكذا كان شيخنا ابن تيمية في أواخر أيامه يقول : أنا لا أكفر أحدا من الأمة ويقول قال النبي صلى الله عليه وسلم : ” لا يحافظ عى الوضوء إلا مؤمن ” فمن لازم الصلوات بوضوء فهو مسلم (سیر اعلام النبلاء 15/88)
میں نے امام اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی ایک ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے اور وہ ان سے ثابت ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ ،نے امام ابو حازم عبدوی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام زاہر بن احمد سرخسی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب بغداد میں میرے گھر میں الشیخ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی وفات ک وقت ا قریب آیا تو انھوں نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ تم مجھ پر گواہ بن جاؤ کہ میں اہل قبلہ (یعنی مسلمانوں کے تمام فرقوں) میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا، کیونکہ سب ایک ہی معبود کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے درمیان یہ سارا اختلاف، عبارات والفاظ کا اختلاف ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب بھی یہی ہے اور اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی عنہ اپنے آخری ایام میں یہ کہا کرتے تھے کہ میں امت میں سے کسی کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وضو کی پابندی صرف مومن ہی کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص بھی وضو کر کے پابندی سے نمازیں ادا کرتا ہے، وہ مسلمان ہے (چاہے اس کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو)۔
- صلہ رحمی قرآن مجید اور احادیث نبوی کے روشنی میں
قطع رحمی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو لعنت و تباہی اور ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے چنانچہ قران مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت و اقتدار حاصل ہو جاۓ تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھن لی ہے ۔ (سورة محمد 22 ۔ 23 )
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے ، صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے ۔ ( صحیح بخاری ) ۔
نبی اکرم ﷺکاارشاد گرامی ہے ، حرص و لالچ سے بچیں ، اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کرکے رکھ دیا تھا ۔ اسی حرص و لالچ کے جذبے نے انھیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے ، اس نے انھیں ظلم و زیادتی کا حکم دیا تو یہ ظلم و ستم ڈھانے لگے ۔ اس نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا تو وہ قطع رحمی کرنے لگے ۔ ( متفق علیہ )
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ، جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ ( متفق علیہ )اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ ارشاد الہی ہے ، یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے ۔ ( التوبہ : 10)
صلہ رحمی قائم کرنے کے لۓ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کریں اگرچہ وہ وفات ہی کیوں پا چکے ہوں۔ایک آدمی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ﷺ والدین کے فوت ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ، ہاں ، ان کے لئے رحمت کی دعائیں مانگو ،ان کے لئے اللہ سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرو ، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتہ قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے ۔ ( ابوداؤد )
ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ، اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا ۔ ( صحیح مسلم ) ۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، اللہ تعالی نے رحم سے کہا تھا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جو تیرے ساتھ تعلق قائم رکھےگا میں بھی اس سے تعلق بحال رکھوں گا اور جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے گا میں بھی اس سے قطع تعلقی کر لوں گا ۔ اس پر رحم نے کہا تھا ، ہاں میں اس پر راضی ہو ں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا تھا ، کہ میں تجھے یہ عہد دیتا ہوں کہ رحم عرش الہی کے ساتھ لٹک رہا ہے اور کہتا ہے ، جس نے مجھے جوڑا میں اس سے رشتہ قائم رکھوں گا اور جس نے مجھے توڑا میں اس سے ناطہ توڑ لوں گا ( متفق علیہ )
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر مقدم ہیں چنانچہ ارشاد الہی ہے ، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ۔ آپ( ان سے ) کہہ دیں کہ بھلائی ( مال ) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لۓ ہے ۔( البقرہ : 215)
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبیﷺ نے فرمایا ، میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو ۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا ۔ ( متفق علیہ )
امام شعبی رح فرماتے ہیں ، میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ہو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ہو ، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ، میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں ، یہ چیز مجھے بیس درھم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جود و کرم ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ معروف ہے لیکن جب انھوں نے معذرت کی تو انہوں نے ان کی معذرت کو قبول فرمایا اور انھیں معاف فرما دیا ، انہیں کوئی ڈانٹ نہیں پلائی بلکہ ان کے لۓ دعاء فرمائی اور اللہ سے ان کے لۓ مغفرت و بخشش طلب فرمائی جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ ( سیدنا یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا : آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تمھیں بخشے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ ( یوسف : 92)
ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ وہ نبی اکرمﷺ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ ابوسفیان نے (عہد کفر میں ہونے کے باوجود ) گواہی دی تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ، صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ،اور وہ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ کہنے ، عفت و پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ ( متفق علیہ)
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام و نگرانی کا مستحق ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے ،
اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھ ( ہمنشین) سے بھی حسن سلوک کرو ۔ ( النساء 36)
رشتہ داروں کی عزت و تکریم کا حکم دیا گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں مقدم کرنے میں کسی کی حق تلفی یا کسی کے اصل حق میں کمی بیشی نہ ہونے پاۓ ۔ ارشاد الہی ہے ، جب بات کرو تو عدل و انصاف کرو ، اگر چہ وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ” ۔(الانعام : 162)
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے ، صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فروانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے ۔ ( مسنداحمد ) ، جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو ، اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ ( بخاری و مسلم ) در حقیقت صلہ رحمی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے کی اور توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہیں ۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس کی اخروی سزا کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس دنیا میں بھی فوری سزا نہ دے دے سواۓ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی کے ۔ (ترمذی )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقہ درس میں بیٹھے ہوتے تو فرماتے ، کہ میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہم سے اٹھ کر چلا جاۓ کیونکہ اب ہم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کۓ جا چکے ہیں
- ثناء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور دعاء موسی علیہ الصلوۃ والسلام
اس سورہ کی پہلی آیت میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیئے اور لوازم نبوت اور فرائض رسالت برداشت کرنے کو بڑا وسیع حوصلہ دیا کہ بے شمار دشمنوں کی عداوت اور مخالفوں کی مزاحمت سے گھبرانے نہ پائیں (تنبیہ) احادیث و سیر سے بیان ہے کہ ظاہری طور پر بھی فرشتوں نے متعدد مرتبہ آپﷺ کا سینہ چاک کیا۔ لیکن مدلول آیت کا بظاہر وہ معلوم نہیں ہوتا۔ دراصل اور فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ذات پر بے انتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورہ مبارکہ میں کیا گیا ہے۔ وحی حفظ و ضبط کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دیا گیا۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ رسول اللہ ﷺ کے لئے بہت آسان کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لئے سربلند فرما دیا۔انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہر عمل صالح کرنے سے پہلے اس کے لئے اسے شرح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک اعمال کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لئے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لئے محنت کی جائے تو اس کے لئے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔شرح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالٰی کے اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ: 25تا28) موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ سورہ طہ کی مذکورہ آیات کی سمجھ سور الم نشرح میں تفہیم و تدبر کرنے سے انسان پر شرح صدر،بوجھ اٹھانا اور اللہ کا تسبیح و حمد و ذکر کثیر کرنا آشکارا ہوتا ہے۔سورہ طہ کی مذکورہ آیات سیدنا موسی کلیم اللہ علیہ السلام کی دعا ہے۔۔ یہاں اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان محمد مصطفٰی ،احمد مجتبٰی ﷺ پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لئے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو انسانیت کے بارے میں آپ ﷺ کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین علیہ السلام آئے اور محسن انسانیت، سرور کونین ﷺ پر سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لئے جتنے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے وہ ظاہری ، جوہری اور روحانی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد ہستیاں تھیں ۔ ان خوبیوں میں خاتم الانبیاء و رسل جناب رسالت مآب ﷺ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع و اولی تھے مگر انسانیت کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان، ہادئ اعظم، رسالت مآب، محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس کام کو بے پناہ وزنی محسوس کرتے تھے۔نبی اکرم ﷺ پر جونہی نبوت کی ذمہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت اور جہاد فرمایا کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے فکر و تشویش کو ہلکان کرنے کے لئے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے مبلغ بنایا ہے نگران نہیں بنایا(فذكر إنما أنت مذكر۔ سورة الغاشية)۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار اصحاب ملے کہ جس سے آپ کا بوجھ ہلکا ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب العلم)ایک اور روایت ہے کہ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا)ترجمہ، حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا کیا نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے؟ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ (الکہف :6) قرآن میں ذکر ہے،لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن (الشعراء :3) اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ قرآن مجید میں مزید ذکر ہے کہ ، اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔ (الانعام :107) ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہے کہ، اے نبی، نصیحت کئے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ (الغاشیہ : 21، 22)۔۔۔ ان سارے حالات کے پیش نظر اور پس منظر میں سورہ الانشراح میں چنانچہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لئے آپ ﷺ کا سینہ کھول دیا۔ آپ ﷺ کا بوجھ ہلکا کردیا ۔ جبکہ آپ ﷺ کا ذکر تا قیامت بلند ہوا اور تا قیامت ہوتا رہے گا۔ یہ سورۃ الم نشرح مکی ہے اور ابتدائی عہد نبوی کی قرآنی سورتوں کے نزول سے ہے جسکا مقصد دراصل نبی کریمﷺ کو تسلی دینا تھا نیزآپ کو بتایا گیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشقت دکھاناضروری ہے۔ تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم، دعوت اور تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر و اذکار میں خوب مجاہدہ کریں۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنت اور جدوجہد یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ جلّ شانہ نے رسول اللہﷺ کی ثناء خوانی کی اور اپنی بے پناہ محبّت و الفت کا تذکرہ کیا ہے اور اس بلند ترین مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، جس سے نبی کریم ﷺ سرفراز کئے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ شرف عظیم حاصل ہےکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، تو اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ چناں نچہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے جو کلمہ پڑھا جاتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان، اقامت، خطبہ اور تشہد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر نماز میں رسول اللہ ﷺ کا نام نہ لیا جائے اور آپ پر درود نہ پڑھا جائے، تو نماز ناقص رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت اتنی زیادہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بار بار انتہائی تعظیم و تکریم اور محبّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ورَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کہ ہم نے آپ کا مقام و مرتبہ اور شہرہ بلند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ یہ دنیا مصائب و مشکلات کا گھر ہے۔ چناں چہ انسان اپنی زندگی میں مختلف قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی صحت،مال و دولت اور اولاد کی وجہ سے مصیبتوں کا سامنا کرتا ہے، تو کبھی زمین و جائیداد کو لے کر پریشانیاں جھیلتا ہے۔ انسان خواہ جتنا بڑے عہدہ پر فائز ہو اس کی زندگی میں کچھ نہ کچھ پریشانیاں ضرور آتی ہیں، چاہے وہ ذہنی اور فکری پریشانیاں ہوں یا جسمانی اور جذباتی پریشانیاں ہوں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ ہم غمگین اور اداس نہ ہوں؛ کیونکہ ہرمصیبت کے بعد آسانی آتی ہے۔ لہذا اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے دین پر ایمان رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل بھروسہ رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور رسول کریم ﷺ کی باتوں پر مکمل یقین رکھتا ہے تو وہ مصیبت کے بعد آسانی ضرور دیکھےگا اور اس کی زندگی میں تنگی کے بعد خوش حالی ضرور آئےگی۔اس مبارک سورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ کو خطاب کیا جارہا ہے کہ جب آپ دین کی دعوت و تبلیغ اور دین کے مختلف شعبوں میں امّت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے فریضہ سے فارغ ہو جایا کریں، تو اپنے رب کی طرف(راغب) متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، جب آپ دنیوی کاموں سے فراغت پائیں تو ہماری عبادتوں کی طرف راغب ہو جائیں، یعنی اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری بارگاہ میں کھڑے ہو جائیں ۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم و تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں خوب مجاہدہ کریں۔ مجاہد رحمہ اللہ اس سورہ کے آخری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور اخلاص کے ساتھ رب کی طرف توجہ کرو۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھانا سامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو ۔ [صحیح مسلم:560] ، ایک اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ [صحیح بخاری:5463] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یعنی دعا کر، زید بن اسلم رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنتیں اور کوششیں یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ کی آخری آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔صلوا عليه وآله وصحبه أجمعين. آمين يارب العالمين
- آٹھ اخلاقی امور جو اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد ضروری ہیں۔
مفہوم حدیث
مذکورہ حدیث میں چند ایسی برائیوں کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد ضروری ہیں۔پہلا امر : بدگمانی سے بچنا
بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے
پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں ۔ امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ، برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں، اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔سورہ الحجرات آیت12
مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت ہے ،مسند احمد،رقم7943،سنن ابوداؤد، رقم4993
سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے
انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔دوسرے سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسرا امر: کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھانا
مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔تیسرا امر : حسد نہ کرنا
حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کے معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ … اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔
تاکہ محسود کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لئے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر بری ہوتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں ، میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔
حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا رہتا ہے۔چوتھا امر: رشک کرنا
لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ جس نے اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا ، [صحيح بخاري، رقم: 5025]پانچواں امر:نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے نہیں بڑھنا
طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں”تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔“ فرمان باری تعالیٰ ہے ، انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہئے ۔المطففون:26چھٹا امر : ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرنا، بغض نہ رکھنا۔
بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہئے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سورہ الحجرات آیت 10 میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
”بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔“
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے صحيح بخاری، رقم 2442
اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔صحیح بخاری رقم،481
اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہےکہ
اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔سورہ آل عمران،آیت 28ساتواں امر: ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرنا
اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لئے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ صحیح بخاری رقم6077آٹھواں امر : الله کے بندوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا
اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے ۔ - موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
پہلی آرزو۔
يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
اے کاش : میں مٹی ہوتا
(سورة النبا، آیت: 40)
دوسری آرزو۔
يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِی
اے کاش ! میں نے اپنے آخرت کی زندگی کے لئے کچھ کیا ہوتا۔( سورہ الفجر آیت:24 )
تیسری آرزو۔
یا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
اے کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا ۔(سورة الحاقہ آیت:25)
چوتھی آرزو۔
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
اے کاش ! میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (سورہ فرقان، آیت:28)
پانچویں آرزو۔
يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
اے کاش ! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ ( سورہ احزاب، آیت:66)
چھٹی آرزو۔
يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
اے کاش ! میں رسول کا راستہ اپنا لیتا۔ (سورة الفرقان ، آیت:27)
ساتویں آرزو۔
يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
اے کاش ! میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کر لیتا۔ (سورة النساء آیت:73)
آٹھویں آرزو۔
يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اے کاش ! ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔(سورة الکھف آیت:42)
نویں آرزو۔
يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے کاش ! کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بیجھے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ (سورہ الانعام آیت:27)
یہ ہیں وہ آرزوئیں جن کا موت کے بعد حاصل ہونا ممکن نہیں، ﺍسی لئے زندگی میں ہی اپنے عقائد و عمل کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالٰی نے مستقبل میں ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی میں پیش آنے والے حالات سے بھی مندرجہ بالا آیات کے ذریعے متنبہ کیا اور فانی دنیاوی زندگی کے حال کے بارے میں سورہ حشر کے مندرجہ ذیل آیت نمبر 18 میں پیشگی مطلع فرمایا: کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کیلئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک شخص خواہ نیک ہو یا بد دیکھ بھال کرے کہ اس نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے کیونکہ قیامت میں اسی کا بدلہ ملے گا جو اس نے دنیا میں اعمال کئے ہیں اگر نیک ہیں تو اچھا اور برے ہیں تو برا اور اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو وہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔(تخریج تفسیر از عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ )
- یقینا اس نے فلاح پایا جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ کیا اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے گناہوں میں ڈبویا۔
خلاصہ تفسیر سورہ الشمس آیت 1 تا 10 : قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور چاند کی جب سورج (کے غروب) سے پیچھے آوے ( یعنی طلوع ہو مراد اس سے وسط ماہ کی بعض شبوں کا چاند ہے کہ سورج کے چھپنے کے بعد طلوع ہوتا ہے اور یہ قید شاید اس لئے ہو کہ وہ وقت کمال نور کا ہوتا ہے جیسا کہ ضحاہا کا اشارہ ہے کہ کمال نور آفتاب کی طرف اور یا اس وقت دو آیة قدرت علی سبیل التعاقب والاتصال ظاہر ہوتی ہیں غروب شمس وطلوع قمر) اور (قسم ہے) دن کی جب وہ اس (سورج) کی خوب روشن کردے اور (قسم ہے) رات کی جب وہ اس (سورج) کو (اور اس کے آثار وانوار کو ) چھپالے (یعنی خوب رات ہوجاوے کہ دن کی روشنی کا کچھ اثر نہ رہے اور چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی گئی ہے ان میں جو قیدیں لگائی گئی ہیں وہ ان کے کمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی ہر ایک کی قسم ان کی حالت کمال کے اعتبار سے ہے) اور (قسم ہے) آسمان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا (مراد اللہ تعالیٰ ہے اس طرح ماطحاہا اور ماسواہا میں بھی اور مخلوق کی قسم کو خالق کی قسم پر مقدم فرمانا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس میں ذہن کو دلیل سے مدلول کی طرف منتقل کرنا ہے کیونکو مصنوع دلیل ہے صانع پر، تو اس میں استدلال علی التوحید کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) اور (قسم ہے) زمین کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بچھایا اور (قسم ہے انسان کی جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو (ہر طرح صورت وشکل اعضا سے) درست بنایا پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا اس کو القا کیا) یہ اسناد باعتبار تخلیق کے ہے یعنی قلب میں جو نیکی کا رجحان ہوتا ہے یا جو بدی کی طرف میلان ہوتا ہے دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، گو القاء اول میں فرشتہ واسطہ ہوتا ہے اور ثانی میں شیطان پھر وہ رجحان ومیلان کبھی مرتبہ غرم تک پہنچ جاتا ہے جو کہ انسان کے قصد و اختیار سے صادر ہوتا ہے اسی قصد و اختیار پر عذاب وثواب مرتب ہوتا ہے جس کے بعد صدور فعل تخلیق حق ہوتا ہے اور کبھی عزم تک نہیں پہنچتا وہ معاف ہے۔ آگے مضمون کی تکمیل کے لئے اہل فجور و اہل تقویٰ کا مال بتلاتے ہیں کہ یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کرلیا (یعنی نفس کو فجور سے روکا اور تقویٰ اختیار کرلیا) اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا اور فجور سے مغلوب کردیا۔(تخریج از معارف القرآن۔مفتی اعظم محمد شفیع)
پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ ” جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیاوہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ “ ان قسموں اور جواب قسم کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (البقرۃ : ٢٩)” وہ ذات کہ زمین میں جو کچھ ہے اس نے سب تمہارے لئے پیدا فرمایا۔ “ حتیٰ کہ آسمان کی چھت ، زمین کا فرش، سورج اور اس کی دھوپ ، اس کے بعد چاند اور اس کی چاندنی اور دن کو آفتاب کا اجالا، پھر رات کا اس کو ڈھانپ لینا اسی کے فائدے کے لئے ہے، فرمایا :(وسخر لکم الشمس والقمر دآئبین ، وسخر لکم الیل والنھار) (ابراہیم : ٣٣)” اور اس نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا جو مسلسل چلنے والے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور نفس انسانی کو بہترین شکل و صورت میں بنا کر اسے نیکی اور بدی کی پہچان بھی کرادی۔ ہر آدمی ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور شعور سے محسوس کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان عظیم الشان مخلوقات کو اور ان کے خالق کے احسانات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو کفر و شرکت اور ظلم و زیادتی سے پاک کرلیتا ہے یقیناً وہ اپنا مقصد تخلیق پورا کردینے کی وجہ سے کامیاب ہے اور جو شخص ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کر کے اپنے نفس کو شہوت، غضب اور شرک و کفر کے کیچڑ میں دبا دیتا ہے وہ ناکام ہے۔(تخریج از تفسیر القرآن۔عبدالسلام بھاٹوی)
سورت میں اصل مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کے دِل میں نیکی اور بدی دونوں قسم کے تقاضے پیدا فرمائے ہیں، اب اِنسان کا کام یہ ہے کہ وہ نیکی کے تقاضوں پر عمل کرے، اور بُرائی سے اپنے آپ کو روکے۔ یہ بات کہنے کے لئے ﷲ تعالیٰ نے سورج، چاند ۔ دن اور رات کی قسمیں کھائی ہیں۔ اس میں شاید اشارہ ہے کہ جس طرح ﷲ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی روشنی بھی پیدا کی ہے، اور رات کا اندھیرا بھی، اسی طرح اِنسان کو نیکی کے کاموں کی بھی صلاحیت دی ہے، اور بدی کے کاموں کی بھی۔(تخریج از آسان ترجمہ القرآن۔مفتی اعظم محمد تقی عثمانی )
- ہر ایک کی اپنی مسجد ہے اور اس کا طول و عرض صرف ڈیڑھ انچ ہے۔
قرآنِ مجید میں قوم سدوم کاذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،اس قومِ کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا جو بحیرۂ مردار کے ساحل پر واقع تھا، اور مکہ مکرمہ کے رہائشی اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجا سیدنا لوط علیہ السلام اردن میں بحیرۂ مردار پر جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں تھیں وہاں آکر رہائش پذیر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اہلِ سدوم کی ہدایت کے لیے رسول مبعوث فرمایا، یہاں کے باشندے بے شمار فحش گناہوں میں مبتلا تھے، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ دنیا کی سرکش، بد تہذیب اور بداخلاق قوم تھی، ان سب برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، مہمان نوازی سے بیزار اس قوم نے میزبانی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک ناپاک حرکت شروع کی جو ان کی تہذیب کا حصہ بن گئی ، وہ یہ کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لئے عورتوں کے بجائے لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے، دنیا کی دوسری اقوام میں اس نت نئی بدفعلی کا اس وقت تک کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب تک نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو اپنی تہذیب کا جز لاینفک سمجھتے تھے۔
ان حالات میں سیدنا لوط علیہ الصلاۃ و السلام نے اس قوم کو ان کی بے حیائیوں اور برائیوں پر اللہ رب العزت کے گرفت و غضب سے ڈرانے کی کوشش کرتے رہے اور شرافت وطہارت اور تزکیہ نفس کی رغبت دلائی، اور ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں ، اور پچھلی اقوم کی بداعمالیوں کے نتائج اور ان پر آئے ہوئے عذاب بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا اللہ تعالیٰ کے اس اولوالعزم رسول کی طنز و استہزاء کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: ” یہ بڑے پاک باز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو” اور بارہا سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: “ہم تو نہیں مانتے ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ”، ادھر یہ ہورہا تھا اور دوسری جانب ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ الصلاہ و السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں آئے ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے، تو مہمانوں نے کہا: آپ گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور آپ کے بتیجھے سیدنا لوط علیہ السلام کے قوم کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں، ابراہیم ؑ نے فرمایا: تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں سیدنا لوط علیہ السلام جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ اللہ تعالٰی کے فرستادہ فرشتوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی اٹل فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، جبکہ سیدنا لوط علیہ السلام اور ان کا خاندان اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے سیدنا لوط علیہ السلام کی بیوی کے’ کہ وہ قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔
فرشتے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے روانہ ہوکر سدوم پہنچے ، اور لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان ہوئے، اور یہاں یہ فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں تھے، سیدنا لوط علیہ السلام نے ان کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی، ابھی وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم کو خبر ہوگئی اور وہ سیدنا لوط علیہ السلام کے مکان پر چڑھ دوڑے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، سیدنا لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانے، تو انہوں سخت پریشانی میں کہا: “کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا”
فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور اس ناپاک قوم کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد سیدنا لوط علیہ السلام اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سشہر سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکارکردیا اور یہیں رہ گئی، جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب الٰہی نازل ہونا شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چیخ نے ان کو تہہ وبالاکردیا، پھر ان کی آبادی کو اوپر اٹھا کر زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔۔۔۔ ہر ایک کی اپنی مسجد ہے اور اس کا طول و عرض صرف ڈیڑھ انچ ہے۔۔۔۔ اللہ تعالٰی اس ملک خداداد پاکستان اور اس میں بسنے والے رعایا کو دین کی سمجھ دے اور ان کے حال اور مستقبل پر رحم کرے ۔
- فقہ کی فضیلت اور تدوین احادیث نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم
فقہ کی فضیلت :
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جو حدیث سیکھتا ہے، اور فقہ نہیں جانتا،اس کی مثال اس دوا فروش یا فارمیسی کے ماہر کی سی ہے، جو دوائیں بناتا ہے یا جمع کرتا رہتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ دوا کس مرض میں کام ائے گی، یہاں تک کہ طبیب آتا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مرض کی دوا کونسی ہے ‘ بعینہ اسی طرح طالب حدیث ہے جو حدیثیں تو یاد کر لیتا ہے لیکن ان کی ماہیت اور حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے، یہاں تک کہ فقیہ آتا ہےاور مرض کے مطابق دوائی تشخیص کرتا ہے (ابن حنبل ص٢٨)
- Brief profile of Engr.Rashid Ahmed IPE-28,PE 10550/civil, candidate for Member Governing Body, PEC Elections (2021-24) to be held on 8 August 2021
profile of Engr.Rashid Ahmed IPE-28,PE 10550/civil, candidate for Member Governing Body, PEC Elections (2021-24) to be held on 8 August 2021
Engr. Rashid Ahmed Chief Engineer is serving for the remote province of Gilgit-Baltistan, globally known as “Roof of the World” and “Jewel of Pakistan”. He relentlessly pursued the indicators of social dimensions of development through related interventions initiated to strengthen the public infrastructures, smoothen the interaction between public institutions & public at large. He also made endeavours to address the future development needs for the continued progress and prosperity to the inhabitants of the world’s most hard area to live and flourish in a healthy society according to the entire satisfaction of engineering standards.
He envisions the province of Gilgit Baltistan as a developed society, which would be enlightened in outlook with improved social indicators inclusive of maximum employment opportunities, highest possible fighting needs against natural disasters/calamities and development of tourism sector. Progresses achieved by him in the field of Engineering are evident from visible improvement in all human growth indicators. His efforts for Gilgit Baltistan are depicting focused approach in achieving progress of government by demolishing defiant bureaucratic inertia and introducing the professional dignity and harmony from the sentimental mind-set of so called “status quo”. He motivated the officialdom and important state authorities to move towards policy, planning and execution befitting the requirements of a developmental oriented dispensation.
In recognition of his professional achievements the Government of GB mandated him to perform the function of ex-officio Chief Professional Advisor wef 2015_20 and elevated him Chairman, Inspection Team of GB Government wef October 2019 to Dec 2020. He became member of Governing body of PEC for the two consecutive terms of 2012-2015 & 2015-2018, Convenor of Regional Enrolment Committee for Gilgit- Baltistan, and Member of various committees of PEC w.e.f 2005.
He is lifetime member of Pakistan Engineering Congress and Member of International Professional Engineer(PAK) in Civil Engineering.اسلام علیکم ورحمت وبرکاتہ
to All respectable and eligible Engineers
I deem it an honour to request you to get your vote and support for upcoming Pakistan Engineering Council elections on Sunday, 8th of August 2021. Since you are an eligible voter, kindly set a reminder and take an opportunity out some time to visit your nearest polling station to cast your vote for me and Engr prof.Dr Attaullah Shah vice Chancellor KIU for the slot of Vice chairman from KPK.
Regards
sincerely yours
Engr Rashid Ahmed-IPE28(PAK )
PEC Reg.no.10550 /civil
Candidate for Member Governing Body Civil from KPK / Gilgit-Baltistan Region
for more visit us on website :
https://rashidgabaro.com/
fb page:
https://www.facebook.com/486793564786023/posts/2442026002596093/ - شیطان بھی قانون قدرت کا حصہ ہے
شیطان بھی قانون قدرت کا حصہ ہے۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ پر غور کرنے سے قدرت کا یہ قانون اظہر من الشمس عیاں ہوگا کہ گرمیوں کے نصف النہار سورج کی تپتی دھوپ یا سخت سردی کی یخ بستہ راتوں کی طرح شیطان کا بھی دخل انسان میں اس طرح ہے کہ جیسے انسان کے جسم میں خون جاری ہے ۔
یعنی وہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہے اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، اس کی سوچ کو بدلتا ہے ۔بعض دفعہ انسان نیک کام میں مصروف ہوتا ہے ،اور شیطان اس کے عمل کو نیت کے فساد مثلا ریاکاری ، تکبر وغیرہ یا تصور کے ذریعے یا بدعت کے ذریعے ضائع کر رہا ہوتا ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سوال یہ کہ شیطان ایسی کوششیں کیوں کررہا ہے؟
وہ اس لئے انسان و جنات کو شریعت سےمنحرف اور بگاڑنے کی کوششیں کرتا ہے کہ اس کو بھی جہنم سے آزادی ملے ۔۔۔۔وہ صرف اس آخری روز جزا کے امید سے ہے کہ بیشتر سے بھی زیادہ جن و انس جہنم میں جانے والے ہوں تو شاید اللہ مہربان ہو اور ترس کی جوش سے اس کے بہکائے ہوئے بٹھکے جہنم کے راہیوں کو خلاصی دے۔۔۔اور۔۔۔جب ان سب کو گناہ عظیم سے مغفرت ملنے پر اور جنت کے حقدار ہونے پر اپنے رب سے شیطان بھی اپیل کرے گا کہ اے رحمان و رحیم جب ان پر تیری رحمت کو جوش آئی ہے تو مجھ ناچیز کو بھی بخش دے۔۔۔
یہ ہے اصل میں شیطان کی دوڑ دھوپ ۔۔چنانچہ اس جہد مسلسل میں دن رات لوگوں کو شریعت خداوندی سے بہکانے پر لگا ہوا ہے تاکہ جہنم کی آبادی بڑھے ۔۔۔
لہذا جس طرح سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں اور گرمیوں کی سخت دھوپ سے بر وقت محتاط رہتے ہیں اسی طرح شیطان کے شر اور وسوسوں سے چوکس رہتے ہوئے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے سیدھے راستے کی طلب ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ وللہ اعلم
بو سکندر - کراہت دین
جو شخص یا عورت کافر ہو یا مسلمان سیّد الاولین وآلاخرین، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر طنز و مذاق کرتا ہے، یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیا ر کرتاہے، یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتاہے،یا ان کو گالی دیتا ہے، یا ان کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپ کی ازواج مطہرات اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو کسی اور عورت کے ساتھ تشبیہ دیتاہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتاہے اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں حرکت کرتاہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے۔ اور یہ ائمہ اربعہ کا مسلک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بہ ابن تیمیہ نے اپنی مشہور و معروف” کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول” میں نقل فرمایاہے: «ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مسلم او کافر فانہ’ یجب قتلہ، هذآ مذهب علیہ عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکی ابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم القتل».1
ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔
«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب اللہ له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2
محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔
مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ روز روشن کی مانند واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنقیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو آدمی اس کے کافر ہونے اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔
اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔
اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد اللہ یقول :کل من شتم النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4
جوآدمی بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کو قتل کرنا واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی قتل کردیا جائے گا۔
“الدرالمختار “میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5
“اشباہ ” میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
امام احمد رحمہ اللہ اور “اشباہ “کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شاتمِ رسول کے جرم کو معاف نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔
پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب پر قائم اور اس پر مصرہے تواس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔چناں چہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ “فتاوی شامی” میں ہے:
«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔»
حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اوراللیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بار بار کرے تواسے حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔
اسی طرح “در مختار ” میں ہے: «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔»
ہر وہ مسلم جو نعوذ بااللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرر اور بار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ بالفرض اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔
اسی طرح امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کی شان میں گستاخی کرنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف پہونچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ امہات المومنین کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے۔ چناں چہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن میں مذکور ہے، فقہاء کرام نے بھی اس کی رُو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہے جو حضرت عائشہ پر تہمتِ گناہ لگاتاہے۔ جیسا کہ” فتاویٰ شامی” میں ہے:
«نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی الله عنها۔» 8
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تہمت لگانے والا شخص بلا شبہ کافر ہے۔
اور ملعون “سلمان رشدی” اپنی کتاب میں امہات المومنین کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے، بالخصوص سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ، جیسا کہ ہفت روزہ “حریت” جلد۷ -۱۱تا۱۷نومبر ۱۹۸۸ء شمارہ ۴۵میں تفصیلی طورپرنقل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات اہلِ دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ ملعون سلمان رشدی نے حالیہ ناول شیطانی آیات Satanic Versesکے علاوہ “مڈنائٹ چلڈرن” اور “شیم ” میں بھی شان رسالت مآب میں دریدہ د ہنی اور ذہنی خباثت کی بدترین مثال پیش کی ہے۔ تفصیل انڈیا ٹوڈے ستمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں موجودہے۔اور مزید اس کتاب کو متعدد ممالک سے شائع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دنیا میں فساد پھیلایا جائے اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے، تاریخ کو مسخ کیا جائے، نا پختہ اذہان کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے اور مسلمانوں کے دل و جگر پر تیشے چلائے جائیں اور تلاشِ حق میں دامنِ اسلام کی طرف بڑھنے والے سادہ دل انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن کیا جائے۔ لہٰذا یہ شخص اگر پہلے سے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا ہے اور ارتداد پر اصرار کرنے کی وجہ سے ملحد اور زندیق ہے جس کی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں اور اس کی سزا قتل ہی ہے۔وللہ اعلم - اپنی اصلاح کی ضرورت
عظیم تابعی حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے : . کہ تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے ۔۔ منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے سنا ،کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ : جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے”۔۔ امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وبے انصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی و انکساری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔’مادر وطن میں بڑے لوگ یعنی صلحا، سخی، دانشور اور معالج آج کے اس مختصر زمانے میں یکے بعد دیگرے اس دنیائے فانی سے بڑی جلدی میں رخصت ہو رہے ہیں۔۔۔دراصل .موت العالِم موت العالم (عالِم کی موت عالم کی موت ہے) کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہیں کسی افق میں کوئی آفتابِ علم غروب ہوتا ہے، موت ایک تلخ سچائی ہے اور ہر ذی نفس کو اس سچائی کا زائقہ چکھنا ہے، جو لوگ رخصت ہوئے ہیں انہیں جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی تھا، مگر معاشرے کے بڑے قیمتی لوگوں کے جانے سے جہاں یہ غم ہے کہ یہ لوگ علم و عمل کی محفلوں سے دفعۃً اٹھ کر چلے گئے وہاں یہ غم بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو جگہیں خالی ہورہی ہیں ان کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہے، بعض مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ دور تو نہیں آگیا جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: (بخاری رقم الحدیث: ۶۰۷۰۔۔۔۔نیک لوگ زار و قطار اٹھائے جائیں گے اور جو یا کھجور کے سڑے بھوسے کی طرح ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کو ذرا پرواہ نہ ہوگی۔وللہ اعلم
- عدالتی ایوان یا جنگی میدان
عدالتی ایوان یا جنگی میدا ن :(تالیف : رشید احمد گبارو)لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے کیس میں نامزد تمام 32 ملزمان کو یہ فیصلہ سناتے ہوئے بری کر دیا کہ 28 برس قبل بابری مسجد کی شہادت کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔اس مقدمے کے بتیس ملزمان میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی، سابق مرکزی وزرا مورلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان بھی شامل تھے۔عدالتی کارروائی کے بعد بری ہونے والے موجود کچھ ملزمان نے احاطہ عدالت سے باہر نکل کر میڈیا کو اس فیصلے پر اپنا اپنا ردعمل دیا ہے۔بری ہونے والےسفاک مجرم ایل کے اڈوانی کے وکیل ومل سریواستو نے فیصلے کے بعد کہا کہ ’تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا ہے، اتنے شواہد موجود نہیں تھے کہ الزمات ثابت ہو سکتے۔‘اسی مقدمے میں دوسرے سفاک مجرم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مندر توڑا تھا، ہمارے اندر سخت غصہ تھا، ہر کارسیوک کے اندر ہنومان جی سما گئے تھے۔ ہم نے مسجد کو منہدم کیا تھا ، اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے۔ عدالت نے سزا نہیں دی۔ یہ ہندو مذہب کی فتح ہے، ہندو دھرم کی فتح ہے۔‘خصوصی عدالت کے باہر موجود افراد نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔دوسری جانب بابری مسجد اراضی مقدمے میں ایک فریق ہاشم انصاری کے بیٹے نوجوان نسل کے جدید مسلمان اقبال انصاری نے کہا ’ہم قانون کی پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں، اچھا ہے اگر عدالت نے بری کر دیا ہے تو ٹھیک ہے۔ کیس بہت طویل عرصے سے التوا میں تھا اب ختم ہوگیا ہے’ اچھا ہوا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس کا جلد فیصلہ ہوجائے۔ ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور لکھا ’دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’بابری مسجد انہدام کیس میں لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے ذریعہ ایل کے ایڈوانی، کلیان سنگھ، ڈاکٹر مورلی منوہر جوشی، اما جی سمیت بتیس افراد کے کسی بھی سازش میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس فیصلے سے ثابت ہوا ہے کہ دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی ہے۔‘ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر میں سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی۔ اسی مقام پر دو مہینے قبل گجرات کے قصائی نریندر مودی نے ایک پُر تعیش تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا۔دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے شہادت کا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ مسجد پانچ سو سال قبل برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے مسلمان شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندو انتہا پسندوں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کے جائے پیدائش کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔بابری مسجد کے شہادت کے بعد ایودھیا کی انتظامیہ نے دو مقدمے درج کئے تھے۔ایک مقدمہ مسجد کے تقدس کو پامال کرکے شہید کرنے والے ہزاروں نامعلوم ہندو دہشت گردوں کے خلاف درج ہوا تھا اور دوسرا مقدمہ مسجد کو شہید کرنے والوں کی سازش کے بارے میں تھا۔ اس مقدمے میں ایل کے ایڈوانی،منوہر جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور وشو ہندو پریشد کے کئی بڑے دہشت گرد اور ایودھیا کے کئی بااثر مجرم بنائے گئے۔ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اٹھائیس برس سے جاری اس کیس کی سماعت کے دوران سولہ ملزمان مر بھی کر چکے ہیں۔بابری مسجد کے شہادت کے یہ دونوں مقدمے پہلے رائے بریلی اور لکھنؤ کی دو عدالتوں میں چلائے گئے مگر بعد میں انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر یکجا کر دیا گیا اور ان کی سماعت لکھنؤ کی سیشن اور ضلعی عدالت میں مکمل کی گئی۔ تقتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ایسا بھی مرحلہ آیا تھا جب تفتیشی بیورو نے ایل کے ایڈوانی، منوہر لال جوشی اور دوسرے کئی بڑے شدت پسند ہندو عناصر کے خلاف مسجد کو شہید کرنے کی سازش کا مقدمہ واپس لے لیا تھا لیکن بعد میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی سیکولر جمہوریت رفتہ رفتہ ہندو دھرم میں بدلنے لگی۔ ایڈوانی جب نائب وزیراعظم تھے، اس وقت نریندر مودی گجرات کےقصائی وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ مودی کے مذہبی اور سیاسی گرو تصور کئے جاتے تھے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں جب مودی کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی نکتہ چینیوں کا سامنا تھا اس وقت ایڈوانی نے ہی مودی کا دفاع کیا تھا اور وہ ہر مشکل مرحلے پر مودی کے ساتھ کھڑے تھے۔لیکن غالباً قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر ماننے کے سبب ایل کے ایڈوانی سے مودی کے گہرے اختلافات پیدا ہو گئے۔ہندو قوم پرستی کو مذہبی انتہا پسندی تک پہنچانے والے ایڈوانی اور ان کے ساتھی مورلی منوہر جوشی آج سیاسی تنہائی میں زندگی تو گزار رہے ہیں مگر جس ہندو قوم پرستی کی انھوں نے بنیاد رکھی آج اسی کی بنیاد پر نریندر مودی ہندو دھرم میں اپنی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔ایڈوانی نے ہندوؤں کے غلبے والے جس مہابھارت کا تصور پیش کیا تھا وہ خواب مکمل تکمیل کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی ہندوستان میں لکھنؤ کی سیشن عدالت اگر انہیں ایک مسجد کے انہدام کی سزا دیتی تو یہ ان کے ساتھ تاریخ کی ستم ظریفی ہوتی۔ہمارے اس دور کے معروضی حالات میں اس طرح کے عدالتی فیصلے بھی نئے نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمرانوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال کیا ہے تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا بے پناہ اختیار بہرحال ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف حکومت کے لئے عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہوتا ہے مگر جابر اور گمراہ حکومتوں کے لئے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ کار بھی نہیں۔آج کے اس فیصلے پر اور بابری مسجد کی شہادت جو ہندوستان میں ماچس کی تیلی بن کر تقریبا تین ہزار مسلمانوں کی جانوں کو جلا کر خاکستر کرگیا ‘مولانا ابولکلام آزاد کا مندرجہ ذیل قول صادق آتا ہے کہ ” تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں”
- مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے
” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے برونی وئیر(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہر عمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چند دنوں یا ہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈور ٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی وئیر نے محسوس کیا کہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالکن تھی۔اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کر نتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے‘ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔چنانچہ برونی وئیر نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چند دن یا ہفتے پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز یا کوئی ہمدرد۔برونی وئیر نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غور سے سن کر محفوظ کر لے گی۔ چنانچہ برونی وئیر نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پر ایک بلاگ(Blog) کی شکل میں مرتب کرنا شروع کر دیا۔اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پوری دنیا سے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی وئیر کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کے جمع کردہ مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔ لہٰذہ اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔اس نے یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔ اس کتاب کانام -مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے(The top five regrets of dying) بہت ہی کم عرصے میں برونی وئیرکی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلند ترین سطح کوچھونے لگی۔حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزر رہے تھے۔آئیے زرا ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں کہ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے
پہلی بات ؛ دنیا چھوڑنے سے پہلے جو سب نے کہی۔ جس سے کوئی بھی مستثنٰی نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہِمّت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جی لیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔ برونی وئیر کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔
دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمّےداری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قِلّت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہئے تھا۔ ساری محنت جن لوگوں کے لئے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دور کر دیا۔ کام ان کے لئے پھانسی کا پھندا بن گیا جس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ برونی وئیر نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتنا کام نہیں کرنا چاہئے تھا کہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔ وہ یہ کہ اکثر لوگوں نے خود سے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اور جذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔ بیشتر لوگ صرف اس لئے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔ مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کُڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کا علم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔
چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔ اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔ ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔ سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔ برونی نے محسوس کیا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔ اکثر مریض تو برونی وئیر کو اپنے پرانے دوستوں کے نام تک بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔ مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی
پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طور پر خوش رکھنے کے لئے کوئی محنت نہیں کی۔ اکثریت نے دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
مندرجہ بالا تحقیق کے مطابق میرے نزدیک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ برعکس اسکے وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ وہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندر ہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کر دیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔ برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔ پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔ مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔مگر . . .شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہو کر ایک شخص کو یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اور اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ہو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔یہ سن کر وہ شخص چل پڑا ۔ چلتے چلتے ظہر ہوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاہئے، مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں،، پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاہئے۔الغرض واپسی کا سفر کافی دیر سے شروع کیا ۔ اب واپسی میں یوں لگتا تھا جیسے سورج نے اس کے ساتھ مسابقت شروع کر دی ہے۔ وہ جتنا تیز چلتا پتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رہا ہے۔ عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا پِگلنا شروع ہو گیا ہے۔وہ شخص دوڑنا شروع ہو گیا کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا۔ اب وہ اپنی لالچ کو کوس رہا تھا، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے اس کا سینہ درد سے پھٹا جا رہا تھا،مگر وہ تھا کہ بس دوڑے جا رہا تھاآخر سورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے سٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کر رہے تھے، یوں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کر دیا- جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ اس کی قبر بنائی گئی اور قبرپر کتبہ لگایا گیا، جس پر لکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔”اس شخص کی ضرورت بس اتنی ساری جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبر ہے”اللہ پاک نے بھی اپنے کلامِ پاک میں اسی طرف اشارہ کیا ہے؛( 1 ) (لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا( 2 ) یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں( 3 ) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا( 4 ) پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا( 5 ) دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)( 6 ) تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے( 7 ) پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا)( 8 ) پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی ۔۔۔۔القرآن ؛ سورۃ التکاثر…آج ہمارے دائرے بھی بہت بڑے ہوگئے ہیں، چلئے واپسی کی سوچ سوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔اللہ پاک ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائےاور خاتمہ بالخیر فرمائے .. آمین۔ یا رب العالمین :طالبِ دعا؛ بوسکندر
- کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
کسی جنگل میں ایک “خرگوش” کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس بے انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے منتظم اعلٰی کے پاس جا کر شکایت کی، منتظم اعلٰی صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کےلئے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعوی دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ درخواست گزار ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا:میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کےلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔(چیک ادب سے ماخوذ)
- القائد الخلیفہ امیرالمومنین سیدنا عمر ابن الخطاب الفاروق احاديث صحیح بخاری کے مطابق۔
جس معصوم عن الخطاءہستی کو ابو الانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ جل شانہ سے مانگا وہ سرور کونین سیدنا محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جسس محفوظ عن الخطاءشخصیت کو سیدنا محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ رب العزت کے بارگاہ سے مانگا وہ سیدناعمر ابن الخطاب الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔۔ یکم محرم الحرام کو یوم شہادت شہید محراب ، دعائے رسول اللہ، سیدنا عمر ابن الخطاب الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔۔۔اس حوالے سے بخاری شریف کے چند احادیث کے مفاہیم قارئین کے نذر ہیں۔
سیدنا و حبیبنا ومو لانا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی سیرابی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پر بہہ رہی ہے، پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ و بارک وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔ بخاری شریف مفہوم حدیث3681
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جب سیدنا عمر فاورق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ( شہادت کے بعد ) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے جسم مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لئے ( اللہ سے ) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، جسم مبارک ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی وجہ اللہ الکریم تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور ( ان کی میت مبارک کو مخاطب کر کے ) کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو ( پہلے سے ) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“ بخاری شریف مفہوم حدیث 3685
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی تعبیر کیا لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے۔بخاری شریف مفہوم حدیث 3691
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزید پڑھا «من نبی ولا محدث» ۔بخاری شریف مفہوم حدیث 3689
- Syed Munawar Hasan رح
آہ سید منور حسن رح ۔۔۔!زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ ایک انٹرویو میں سوال وجواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال :منور حسن صاحب آپ اپنے اثاثے ڈکلئیر کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب میں سید منور حسن رح نے فرمایا :اثاثے ڈکلئیر کے لئے ضروری ہے کہ اثاثے ہونے بھی چاہئے میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز(تین مرلہ) مکان کے علاوہ اثاثے نام کی کوئی چیز نہیں. یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں ملا، میں ساری حلال کی کمائی سے گھر تو دور کی بات ہے گاڑی بھی نہیں خرید سکا، جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی زمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتا ہوں ورنہ ساری زندگی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا. اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور ہے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ہے. بس مجھے اس کی ادائیگی کی پریشانی رہتی ہے.یہ اس شحص کے کا حال ہے جو الیکشن 1977 میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے خود ممبر قومی اسمبلی (MNA)بھی رہا اور پانچ سال تک انکی زوجہ محترمہ بھی ممبر قومی اسمبلی (MNA)رہیں. بیس سال جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل اور پانچ سال امیر جماعت اسلامی رہا. مگر انکے پاس اپنی بیوی کی وراثت میں ملا سو گز کا مکان سو گز ہی رہا اور آج اسی گھر سے انکا جنازہ اٹھایا گیا….بیٹے کی شادی کی تو وہ اس وقت امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی حالانکہ اس وقت وزیر اعظم ، وزراء اعلیٰ، گورنر ، بےشمار وزراء اور میں خود بھی شریک ہوا، ہم سب نے پوچھا تو کہنے لگے بس اتنی ہی استطاعت رکھتے ہیں. مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بیٹی کی شادی میں بے شمار تحفے ملے تو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیئے کہ یہ میری بیٹی کو امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے ملے ہیں اور ان پر حق جماعت اسلامی کا بنتا ہے.جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذات نفس کے پیچھے نہیں پڑتے. سید منور حسن صاحب جس زہد و تقوی کی معراج پر تھے آج ہر شخص انکی مثال دے رہا ہے کہ اس شخص کو نماز پڑھتے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا. جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسو سے تر ہوتا، کبھی تہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑتے. تین چار کپڑے کے سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ اور انکی بھی حالت کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی ہوتی. ہم پاکستانی نہ جانے کب اپنے پاس رہتے ہوئے ان نگینوں کو سمجھ سکیں گے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجیب الرحمٰن شامی کے کالم اقتباس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزید پڑھئے ۔۔۔۔شاہ صاحب کی مختصر سوانح عمری:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر تھے۔ وہ اگست 1944 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ تعلق تقسیم برصغیر سے پہلے کے شرفائے دہلی کے سید گھرانے سے ہے۔ آزادی کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان کو اپنے مسکن کے طور پر چنا اور کراچی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے 1963 ء میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966 ء میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہو گئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہےاس کے بعد طلبہ کی بائیں بازوکی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF)میں شامل ہوئے،اور1959 ء میں اس تنظیم کے صدر بن گئے۔ زندگی میں حقیقی تبدیلی اس وقت برپا ہوئی جب آپ نے اسلامی جمیعت طلباء پاکستان کے کارکنان کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھااور مولانا سید ابولاعلی مودودی رح کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ نتیجتاً آپ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اورجلد ہی اپنی پارسائی کی وجہ سے جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن منتخب گئے۔ بعد ازاں 1964 ء میں آپ اس کے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) بنے اور مسلسل تین ٹرم کے لئے اس عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کی عرصئہ نظامت میں جمعیت نے طلبہ مسائل، نظام تعلیم اور تعلیم نسواں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی خاطر کئی مہمات چلائیں۔۔۔1963 ء میں اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ ان کی زیِر قیادت اس اکیڈمی نے ستر (70) علمی کتابیں شائع کیں۔ سید منورحسن 1967 ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ اپنے تقوی کی بنیاد پر جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ کئی فورمز پر جماعت اسلامی کی نمائندگی کی جیسے یونائیٹد ڈیموکریٹک فورم اور پاکستان نیشنل الائنس (پاکستان قومی اتحاد) وغیرہ۔ 1977 ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992 ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔شاہ صاحب نے ریاست ہائے متحدہ امریکا،کینیڈا،مشرق وسطٰی ،جنوب مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کئے اور اسلامی تشخص کو بھرپور طریقے سے ان علاقوں میں اجاگر کیا۔مارچ 2009 میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔ ان سے قبل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی رح، میاں طفیل محمد صاحب رح اورقاضی حسین احمد صاحب رح نےجماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری نبھائیں ۔ آپ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے ہیں۔ مدت 2009ء تا 2014ء ہے۔پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر سید منور حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل امریکا کا اس خطے سے چلے جانا ہے، جب تک امریکا اس خطے میں رہے گا دہشگردی میں اضافہ ہوتا رہے گا، اس لئے ضروی ہے کہ تمام سطحی کاموں کو چھوڑ کر پوری قوم “گو امریکا گو” مہم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔کورنا وبا سے متاثر ہوکر 26 جون 2020 کو سید منور حسن صاحب اس دار فانی سے بطور شہید رخصت ہوئے۔إنا لله وإنا إليه راجعون ○ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔االلہ تعالی شاہ صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور روز آخرت انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔۔۔آمین
- فداك امى و أبي يا رسول الله صلى الله عليه واله وسلم
سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک روضہ انور کے بارے میں مکمل ۔۔۔۔۔تشریح وتوضیح:-گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔وہ حجرہ شریف جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو اصحاب سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمر فاروق رضوان اللہ تعالی علیھم کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں
- فداك امى و أبي يارسول الله
سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قبر انور مبارک کے بارے میں تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں - اولی الامر اور کورونا وائرس کی وبا
تحریر: رشید احمد گبارو: 29 مارچ 2020: اولی الامر اور کورونا وائرس کی وبا: کورونا وائرس کا زمانہ ہے۔ سائنسدانوں نے اسکو کوڈ 19 کا نام دیا ہے۔ یہ وائرس چین کے صوبہ ووہان سے پھیلا۔ زیر نظر مضمون جب لکھا جارہا ہے اسوقت چین نے اس پر کافی حد تک قابو پایا ہے۔ ساری دنیا میں یہ نظر نہ آنیوالا قاتل وائرس پھیل چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں ملک اٹلی میں ہوچکیں ہیں جہاں روزانہ ایک ہزار کیسز سامنے آرہے ہیں اور اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ ہے جہاں کیسز باقی ممالک کے نسبت زیادہ ہیں۔ دنیا میں ہلاکتوں کی شرح تقریبا ڈھائی ہزار انسانوں کا ضیاع ہونا روزانہ ہے۔ اس وبا کے دوران پاکستان کے سارے صوبے بشمول راقم کا پاکستانی انتظامی صوبہ گلگت بلتستان بھی لاک ڈاون کے عمل سے گزر رہا ہے جہاں پر اس وبا سے متاثرہ لوگ ایران سے براستہ بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ یہاں گلگت پہنچ گئے ہیں۔ ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات خانہ کعبہ ، مسجد نبوی ، بیت المقدس ، کربلا، اور نجف اشرف بھی حکومت کے حکم پر بند ہیں۔ پاکستان کے سارے مساجد ، خانقاہیں، اور امام بارگاہیں بھی بند ہیں۔ ساری دنیا اس وقت ایک نفسیاتی کیفیت سے گزر ر رہی ہے۔ کوئی ذی شعور انسان گھر سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سماجھی دوری اور گھر میں پڑے کام سے فراغت میں وہم بڑھتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے خوف سے نکلنے کے لئے حکمران وقت ، بڑے بڑے سائنسدان ، ڈاکٹرز اور علما اقدامات کے بارے سوچ و بیچار میں مصروف عمل ہیں۔ ہر طرف خوف اور ڈر کا سما ہے۔ حکمران فیصلے لینے میں بھی نفسیاتی کیفیت کے شکار ہیں۔ فوج کے دستے انتظامیہ کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔ مختلف شہروں میں قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ مشتبہ کورونا کیسز کی چھان بین جاری ہے۔ جس کو بھی مشتبہ کورونا مریض قرار دیا جاتا ہے اس کو قرنطینہ میں لے جایا جاتا ہے ، اسکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اگر رپورٹ مثبت ہو تو اس کو قرنطینہ میں لے جاکر انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے جبکہ منفی رپورٹ کی صورت میں گھر بیجھدیا جاتا ہے۔ فوج اور انتظامیہ داخلی اور خارجی راستوں کی کڑی نگرانی میں ہیں۔ عجیب اتفاق ہے لوگ دم اور تعویذ لینے سے اجتناب کررہے ہیں، گویا سارے پیروں اور عاملوں کی چھٹی ہوچکی ہے۔ لوگ سماجھی فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں ایک دوسرے کو چھونا تو دور قریب بھی جانے سے اجتناب کررہے ہیں۔ حکمران اور قائدین کے سیاست کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مخیر حضرات خیرات دینے سے بھی اجتناب کررہے ہیں۔ عوامی اور حکومتی حلقوں نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو مسیحاؤں اور قومی ہیروز کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔ ہمارے صوبے میں اس وبا سے پہلا جا بحق ہونے والا مریض بھی چلاس دیامر کا ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض ہے۔ حکومت نے کورنا کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو قومی ہیرو قرار دیا ہے اور اعلی ملکی تمغہ کے لئے نامزد کیا ہے۔ فلائٹ آپریشن برائے اندرون اور بیرون ملک بھی بند ہے۔ عوام کو اپنے گھروں میں محدود رہنے کی تلقین جاری ہے۔ لاوڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے کے اعلانات جاری ہیں۔ حکمران حالات کے کنٹرول ہونے کے دعوے فرمارہے ہیں۔ پولیس ، فوجی ، اور عوام ڈاکٹروں کو جگہ جگہ سلام پیش کرتے ہوئے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آتے ہیں ۔لاک ڈاون کے باعث دوسرے ییماریوں سے متاثر مریض پریشان حال ہیں۔ حکومت شہریوں سے گھروں میں رہنے کے لئے تعاون کی درخواست کر رہی ہے۔ اب تک ملک میں تقریباً دو سو قرنطینہ کے مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ حتی کہ بلوچستان میں تین سو لوگوں کے لئے ایک کنٹینر کو قرنطینہ میں تبدیل کیا چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق قرنطینہ میں رکھے گئے زیادہ تر لوگوں کی تعداد ایران سے واپس پاکستان آنے والے زائرین کی ہے۔ جبکہ اس سے پیشتر حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ چین میں پھنسے پاکستانی واپس نہیں آسکتے یہ بہر حال ایک اچھا فیصلہ تھا جبکہ اس فیصلے پر کافی ردعمل بھی آیا تھا۔ بتا یا جاتا ہے کہ تقریباً دس لاکھ کم و بیش لوگ بیرون ممالک سے پاکستان آچُکے ہیں۔ ایران کے علاوہ دوسرے ممالک سے آنے والے پاکستانی میں سے کتنے لوگ اس وبا سے متاثرہ تھے یہ ایک معمہ ہے ، اور ان سے ملنے والے کتنے مزید لوگ متاثر ہیں یہ بھی پتہ نہیں۔ اب تک کی سرکاری رپورٹ کے مطابق مملکت خداداد پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ ہے جس میں سے ایک درجن سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ اس وبا کے تشخیص کے لئے درجنوں لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ آئندہ ہفتے کی اعداد شمار کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حکومت بس یہی کہتی ہے کہ کورونا کا علاج ۔۔ احتیاط ۔ احتیاط اور بس احتیاط۔۔۔۔ہے ۔۔ اب تک لیبارٹری ٹیسٹنگ کی صلاحیت بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کی برابر ہے۔ پنجاب میں بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس وبا سے متاثر مریضوں کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ تاثر ہے کہ لاہور اس وقت اس وبا کا مرکز بنا ہوا ہےجہاں پر ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ وفاقی حکومت یہ بیانیہ دے رہی ہے کہ ہمیں غریبوں کی فکر ہے۔ حالانکہ لوکل ٹرانسمٹ کے بھی خاطر خواہ مثبت کیسز آرہے ہیں۔ سندھ میں بروقت لاک ڈاون کی وجہ سے تعداد کی شرح میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ لیکن ابھی تک کے اطلاعات کے مطابق سندھ میں صرف پانچ ہزار ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ یہ اطلاع اطمینان بخش اس لئے نہیں ہے کہ چین میں روزانہ دس ہزار جبکہ کوریا میں روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ ہورہی ہیں جس کے وجہ سے ان ممالک نے اس بے رحم وبا سے تقریباً نجات پائی ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ چین پاکستان کو اس وبا میں طبی امداد بشمول ڈاکٹرز اور ٹیسٹنگ کٹ کے پہنچا دیا ہے۔ پوری دنیا میں متاثرہ افراد کی تعداد اب تک چھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ جس میں سے تقریباً تیس ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ اور ہلاکتیں ایک خاص شرح سے روز بہ روز بڑھ رہی ہیں۔ دنیا کے امیر و غریب ، شہزادے اور حکمران بھی اس وبا کے لپیٹ میں آچُکے ہیں۔ ہر سطح پر حکومتی اقدامات اور انتظام کا جائزہ لیا جارہا ہے ایک عام آدمی کو اعداد و شمار کا اندازہ لگانے کے لئے قارئین کے نذر تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جس سے خود اندازہ لگائیں کہ حساب کتاب کیسے لگائے جا سکتے ہیں:۔
“ برصغیر میں تقریباً سترہ سو سال قبل گپتا مہاراجوں کی حکومت قائم تھی اور اس دور میں ’’سیسا‘‘ نامی ایک شخص نے شطرنج کا کھیل ایجاد کیا۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسی خوشی کے بدلے میں سیسا سے پوچھا کہ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘سیسا نے بادشاہ سے عرض کیا کہ ’’حضور چاول کے چند دانے وہ بھی اس طرح کہ بساط کے 64 خانے بھر دیں لیکن میرے فارمولے کے مطابق‘‘بادشاہ نے پوچھا ’’یہ فارمولا کیا ہے‘‘سیسا بولا ’’آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کو ڈبل کرتے چلے جائیں حتی کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں‘‘۔ بادشاہ نے سیسا کے مطالبے پر قہقہہ لگایااور یہ شرط قبول کرلی ۔ یہ بظاہر تو آسان سا حساب و شمار تھا لیکن حقیقت میں یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھا۔بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے بساط کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، سیسا چلا گیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی، چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی قطار کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی ، دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔ سولہویں دن یہ 32768 چاول کے دانے ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑاسا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے وزیر اور عمال سلطنت سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اـٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔قصہ مختصرجب شطرنج کی چوتھی قطار یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے، بادشاہ حیران رہ گیا ، چنانچہ سلطنت کے سارے ریاضی دا ن اور مہندسین بلوائے اور ان سے پوچھا کہ شطرنج کے 64خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہونگےاور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں۔ بادشاہ کے سارے ماہرین ہندسیہ اور ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ اندازہ تقریبا سترہ سو سال بعد بل گیٹس نے لگایا تھا۔بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے۔بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی۔ آپ بھی یہ حساب و شمار کر کے دیکھ لیں ، آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔مگر یہ یاد رکھئیے کہ یہ حساب عام کلکولیٹر کے ذریعے نہیں لگایا جا سکے گا، یہ صرف کمپیوـٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔اس حساب و شمار کو مینجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ کہا جاتا ہے۔شطرنج بنانے والے اور گپتا بادشاہ کو اس خوفناک مسئلے میں پھنسانے والے سیسا کو بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی قطار پر پہنچ کر بہر حال گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو شطرنج کے بساط کے وسط میں پہنچ کر چاول پورے کرنے کیلئے ساڑھے پانچ دن لگ گئے تھے۔وہ اگلے خانوں کی طرف بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے، جس سے بادشاہ جھلا اٹھا اور انتہائی غصے میں شطرنج بنانے والے کا سر قلم کروا دیا اور یوں شطرنج کا موجد قتل کیا گیا لیکن شطرنج کی سر دردی آج تک قائم ہے۔
اگر ہم شطرنج کی بساط والا واقعہ سمجھ لینے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کریں اور سماجھی دوری اختیار نہ کریں تو یہ وبا دوسروں میں ایک کے بعد دو اور چار کی صورت میں پھیلے گی اور مسلسل پھیلتا جائے گا حتی کہ زمیں میں سب ہلاک ہو جائیں۔ حکمران کے رعایا پر بڑے موثر اثرات ہوتے ہیں ، اگر حکمران ہر دلعزیز ہو تو رعایا جلدی بات مان جاتی ہے ۔ اگر حکمران لوگوں میں ناپسندیدہ ہو تو وہ اس کی بات قطعا نہیں مانتی ، لہذا ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے حکمرانوں کو رعایا پر سختی کرنی پڑتی ہے جس کا واحد حل کرفیو یا لاک ڈاون ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی قرآن میں حکم دیتے ہیں کہ جو بات تمھارے فائدے میں ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مخالف نہ ہو تو اولی الامر کی اطاعت فرض عین ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا○ (النساء:۵۹)
ترجمہ؛”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور والیانِ امر کی جو تم میں سے ہوں. پھر اگر باہم جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹا دو اللہ اور رسولؐ کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر یہ اچھا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔۔”۔۔۔ یہ آیت مبارکہ اس اعتبار سے قرآن حکیم کی اہم ترین آیات میں شمار ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کے اندر جو کچھ بھی دستوری اور قانونی نظام قائم کیا جائے گا اس کے لئے راہنمائی کا یہ گویا سب سے بڑا سر چشمہ ہے. اللہ کی اطاعت اور رسولؐ کی اطاعت کے بارے میں تو کوئی بحث نہیں اور نہ شک ہے ‘ مگر اولی الامر کی اطاعت کے معاملے کو تھوڑا سا تجزیہ کر کے سمجھ لینا ضروری ہے۔ اطاعت کی دو لازمی شرائط (۱) ؛ آیت مبارکہ میں “اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ” کے الفاظ آئے ہیں‘ یعنی اولی الامر جو خود تم میں سے ہوں. اولی ٔامر اگر غیر مسلم ہو تو اس کا اطلاق مجبوری کے تحت مشکل ترین اور معروضی حالات میں ہو گا اور ایسے حکمران کی اطاعت اگر بطور خوشآمد کی جائے گی تو اس سے اسلام کی نفی ہو جائے گی. غیر مسلم حکمران کی اطاعت مجبوراً تو کی جاسکتی ہے‘ برضا و رغبت نہیں! مثال کے طور پر اگر کسی غیر مسلم حکمران نے مسلمانوں کا کوئی علاقہ بزورِ شمشیر فتح کر لیا ہو یا کسی نے کسی مسلمان کو جبراً گرفتار کر کے غلام بنا لیا ہو‘ جیسے افریقہ سے ہزاروں مسلمانوں کو جبری طور پر غلام بنا کر لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر امریکہ لے جایا گیا‘ تو ایسی صورت میں ایک مسلمان ایک غیرمسلم اولی الامر کی اطاعت پر مجبور ہے۔ اولی الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ھے: بعض مفسرین کہتے ہیں ؛ (الف):-کہ “اولوا الامر ” سے مراد ہر زمان و مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی پیروی کریں۔ ( ب) :- کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔ (۲) ؛ اللہ جل سبحانہٗ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت مستقل بالذات ہے‘ لیکن اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے تابع اور اس سے مشروط ہے. یہ اطاعت کبھی بھی غیر مشروط نہیں ہو سکتی‘ بلکہ ہمیشہ سے مشروط رہی ہے اور ہمیشہ مشروط ہی رہے گی. یعنی اولی الامر میں اتباع رسولﷺ کا ہو نا لازمی ہے ’’اولی الامر‘‘ کون ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولی الامر کون ہیں؟ ہم اس کا بھی تجزیہ کرتے ہیں. اولی الامر معاشرتی نظام میں بھی ہیں اور سیاسی نظام میں بھی. چنانچہ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے لئے اولی الٔامر ہے. اسی طرح معاشرتی نظام میں ہر جگہ درجہ بدرجہ ہر شخص کی جو بھی حیثیت ہے‘ اس کے اعتبار سے وہ اپنے دائرے اور حلقہ احباب کے اندر صاحب ِ امر ہے. لہذا اطاعت کا سلسلہ صرف حاکم ِ اعلیٰ تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے. بیوی کے لیے شوہر والی ٔامر ہے‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا: ۔
فَالصّٰلِحٰتُ قٰـنِتٰت ○ (النساء:۳۴)
ترجمہ: ” کہ نیک بیویاں وہی ہیں جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہیں”۔۔۔۔۔۔ بیوی کے لیے شوہر کے ہر حکم کی اطاعت لازم ہے‘ اِلا یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے متصادم ہو. ایسی صورت میں لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ کا ابدی اصول مدنظر رکھا جائے گا. مزید برآں‘ ماتحت امراء کا شمار بھی اولی الامر میں ہوتا ہے. ایسے امراء رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی ہوتے تھے‘ جیسے کہیں کوئی لشکر بھیجا جاتا تو اس کا کسی کو سپہ سالار مقرر کیا جاتا‘ کہیں کوئی چھوٹا دستہ بھیجا جاتا تھااور کسی کو امیر بنایا جاتا. مذید تفصیل کے لئے حضورﷺ کی حیاتِ طبیہ کے دو واقعات قارئین کے نذر ہیں : کہ غزوۂ اُحد میں ۳۵ حضرات کی طرف سے اپنے امیر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حکم عدولی کا واقعہ بہت مشہور ہے. انہیں رسول اللہﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا امیر مقرر کر کے ایک درّے پر متعین کیا تھا اور ان حضرات کو حکم دیا تھا کہ آپ لوگ اس درّے کو مت چھوڑیں خواہ ہمیں شکست ہو جائے‘ ہم سب قتل ہو جائیں اور آپ لو گ دیکھیں کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں. ان حضرات نے جب اپنے لشکر کو فتح سے ہمکنار ہوتے اور دشمن کو راہِ فرار اختیار کرتے دیکھا تو درّے کو چھوڑ کر جانے لگے‘ کیونکہ ان کے خیال میں حضورﷺ نے درّے کو نہ چھوڑنے کاجو حکم دیا تھا وہ شکست کی صورت میں تھا. لوکل کمانڈر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ انہیں روکتے رہے‘ لیکن ان پچاس میں سے ۳۵ صحابہ کرامؓ درّے کو چھوڑ گئے. ماتحت امیر کے حکم کی خلاف ورزی کی ، جس کی سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طو ر پر یہ دی گئی کہ جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا گیا. سورۂ آل عمران میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:-
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ○ ؕ (آیت ۱۵۲)
ترجمہ: “اور اللہ نے تو تمہیں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب تم انہیں اس کے حکم سے گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. یہاں تک کہ تم ڈھیلے پڑے اور تم نے نظم کو توڑا اور تم نے نافرمانی کی‘ بعد اس کے کہ میں تم کو وہ چیز دکھا چکا جو تمہیں بہت محبوب ہے۔ یعنی فتح”۔۔۔۔؛ یہاں نافرمانی سے مراد رسول اللہﷺ کی نافرمانی نہیں‘ بلکہ ماتحت کمانڈر کی نافرمانی ہے‘ کیونکہ رسول اللہﷺ کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کر لی تھی. اسی طرح ایک بار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک دستہ کہیں بھیجا اور ان میں سے ایک صاحب کو اس کا امیر مقرر کیا.یہ صاحب ذرا جلالی مزاج کے مالک تھے‘ کسی بات پر اپنے ساتھیوں سے ناراض ہو گئے اور یہ ناراضگی اس حد تک پہنچی کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ایک بہت بڑا گڑھا کھودنے کا حکم دیا. جب انہوں نے گڑھا کھود دیا تو ان سے کہا کہ اس کے اندر لکڑیاں جمع کرو. لکڑیاں جمع کر دی گئیں تو انہیں آگ لگانے کا حکم دیا. جب آگ بھڑک اٹھی تو ساتھیوں سے فرمایا کہ اب اس آگ کے اندر کود جاؤ! اس پر ساتھیوں نے کہا کہ اس آگ سے بچنے کے لیے تو ہم نے محمد(ﷺ ) کا دامن تھاما ہے‘ ہم اس میں داخل ہونے کو تو تیار نہیں ہیں. جب واپس آ کر یہ معاملہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضورؐ نے ان کی تصویب کی اور فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے اس امیر کا حکم مان کر آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ آگ ہی میں رہتے. اس لیے کہ یہ خود کشی ہوتی جس کی سزا خلود فی النار ہے. چنانچہ ماتحت امراء کی اطاعت رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی اللہ اور رسول کے حکم کے تابع تھی‘ اس دائرے سے خارج نہ تھی اور آپؐ کے بعد بھی یہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ تا قیامت مشروط رہے گی. ان شا اللہ۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ رعایا حکمران کی بات مان لیں اور کورنا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اس جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہونے کے لئے سماجھی فاصلہ رکھیں اور ڈاکٹروں کے ہدایات کے مطابق عمل کریں ۔ گھروں سے مت نکلیں اور نہ ہی گھر کسی کوآنے کی اجازت دیں اور اجتماعات سے گریز کریں۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ عوام کو گھر میں رہنے پر مجبور کریں اور گھر پر ہی کورونا وائرس کے ٹیسٹنگ کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ اسلام انسانیت پر احسان کرنے والا مذہب ہے اور ہمارے آقا رسول کریم محمد مصطفی احمد مجتبٰی ﷺ محسن انسانیت ہیں اور آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے حکمرانی ، اخلاق ، رہن سہن اور عبادت خداوندی کا بہترین نمونہ ہے۔ارباب اختیار کو چاہئے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اللہ کا حکم اور نبی کی سنت اور تعلیمات کو مد نظر رکھیں ۔۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:-
وأمرھم شوریٰ بینھم (شوریٰ : ۳۶) وشاورھم فی الأمر (آل عمران : ۱۵۹
رسول اللہ کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے
حالاںکہ رسول اللہ کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ۔
- قومی ہیرو شہید ڈاکٹر اسامہ ریاض کون تھے۔
نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض مریضوں کی سکریننگ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے خود کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث جاں بحق ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے ڈاکٹر اسامہ ریاض ضلع گلگت کے سب ڈویژن جگلوٹ سئی میں ایران اور عراق سبراستہ تافتان ے آنے والے زائرین کی سکریننگ کی ڈیوٹی پر تعینات تھے اور سب ڈویژن جگلوٹ سئی کے قصبہ سونیار میں واقع سکریننگ کیمپ میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے کورونا وائرس کا شکار ہوئے ۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض میں کورونا وائرس کی تصدیق چند دن قبل ہوئی تھی۔ یہ گلگت بلتستان میں کورونا سے ہونے والی پہلی ہلاکت ہے۔گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات نے مختلف خبررساں ایجنسیوں کو ان کے جان بحق ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ حکومت گلگت بلتستان نے اس شہید نوجوان ڈاکٹر کو قومی ہیرو کا درجہ دیا ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس سے ہے۔ شہید قومی ہیرو ڈاکٹر اسامہ ریاض کے والد ریاض حسین ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ کے فرزند ہیں ۔ شہید ڈاکٹر اسامہ محض ڈیڑھ سال قبل گلگت بلتستان محکمہ صحت میں بطور ڈاکٹر تعینات ہوئے تھے۔وہ جمعے کی رات سے گلگت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں انتہائی تشویش ناک حالت میں زیرعلاج تھے۔ ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر انہیں ونٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کے وزیر قانون اور کورونا کے لیے فوکل پرسن محمد اورنگ زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تفتان سے متاثرین نے آنا شروع کیا تو اس وقت گلگت بلتستان حکومت نے کئی قرنطینہ مرکز قائم کیے تھے۔ جن میں سے ایک میں نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی فرائض انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض، تفتان سے گلگت بلتستان آنے والے زائرین کے پڑی بنگلہ اور سونیا جگلوٹ سئی کے مقام پر قائم کردہ قرنطینہ مرکز میں اس وائرس سے متاثر ہونے سے قبل خدمات انجام دے رہے تھے۔
اس صورتحال میں ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر مریضوں کو علاج معالجہ فراہم کرتے رہے تھے۔ ڈاکٹر اسامہ اصل ہیرؤ ہیں۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کی قدر دانی کی جائے۔ ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر اسامہ اسکریننگ پہ معمور تھا جبکہ ان کے پاس حفاظتی کٹ تک نہیں تھی اس کی قیمت کے طور پہ ڈاکٹر اسامہ کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔ان کی خدمات اور قومی میڈیا ، نجی ٹی چینلز کی بے حسی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔
مرحوم ڈاکٹر اسامہ کے عزیزوں کا کہنا تھا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر سکریننگ کی ڈیوٹی پر مامور تھے جس کے دوران وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد انہیں آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کو پہلا پاکستانی ڈاکٹر قرار دیا جا رہا ہے جو کرونا کے خلاف بحیثیت ڈاکٹر جاں بحق ہوا ہے۔
دوسری جانب چیلاس کے ایک رہائشی کا خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آج کے دن تک اسامہ کے اہل خانہ کو ان کے بیٹے کی زندگی اور موت کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی گئی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر انکی موت کے خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم اسامہ کی موت کلینیکل لحاظ سے جمعہ کو ہی واقع ہو گئی تھی۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور اُنہیں گلگت بلتستان کا قومی ہیرو قرار دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے سوشل میڈیا صارفین اور مقتدر حلقوں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اُنہیں بغیر کسی میڈیکل کیٹ اور فقط ماسک پہنا کر ڈیوٹی پر مامور کرنے والے ذمے داران کے خلاف کاروائی کی جائے۔۔
خاندانی ذرائع کے مطابق تقریبا ایک ہفتہ قبل ڈاکٹراسامہ نے ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا۔ڈاکٹر اسامہ نے قائداعظم میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی جبکہ اگست 2019 میں انہوں نے پی پی ایچ آئی گلگت میں بطور ڈاکٹر کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے اسی سال فروری 2020 میں ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کیا اور جولائی میں سپیشلائزیشن کیڈر میں انڈکشن کے منتظر تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کون تھے؟
وہ بہت پر عزم تھے، اور اس مرض کے خلاف انتہائی حوصلے سے لڑ رہے تھے
قریبی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر اسامہ کہتے تھے ’میں نے تو اپنا فرض ہر صورت میں اد اکرنا ہے چاہے مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔‘
لوگوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر اسامہ ریاض نے اپنی ایک ٹیم بنا لی تھی۔ ان کے پاس کوئی زیادہ حفاظتی سہولتیں بھی نہیں تھیں مگر پھر بھی دن رات کام کرتے تھے۔‘
’ان کی بیماری سے تین روز قبل جب ان کی حلقہ احباب سے بات ہوئی تھی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض بہت زیادہ پریشان تھے کہتے تھے کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ان زائرین کو بچا لیں یہ نہ ہو کہ یہ مرض پھیل جائے تو پھر بہت ہی زیادہ مشکلات ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ’جب ایران سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنے ایف ایس سی پارٹ ٹو کے داخلے کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ مرکز قائم کیے جا رہے ہیں تو انھوں نے فوراً واپس آ کر کیمپ کا چارج سنبھال لیا تھا۔
خاندان کے لوگوں نے بتایا کہ ’جب تفتان سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس کے بعد ایک دو مرتبہ ڈاکٹر اسامہ کو فون کر کے خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے اس پیغام کے ساتھ فون کاٹ دیا کہ میں مصروف ہوں فارغ ہو کر فون کرتا ہوں۔‘
خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان میں اور بھی ڈاکٹر موجود ہیں جب کورونا کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہم نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو فون کیا اور کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ینگ ڈاکٹرز کو فرنٹ لائن پر لڑنا پڑے گا آپ کے کیا ارادے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ میں تو پوری طرح تیار ہوں اور اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘
ڈاکٹر اسامہ اپنے لوگوں کو بچانا چاہتے تھے
گلگت بلتستان کے محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسامہ ریاض کو مکمل سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ ہر قسم کے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ کوئی غفلت نہیں برتی گئی۔
جب گھر والوں نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو بے ہوشی کی حالت میں پایا تو سب سے پہلے ان کو سی ایم ایچ گلگت پہنچایا گیا۔ جہاں پر ان کو فی الفور وینٹیلیڑ پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان کو گلگت ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر گلگت ہسپتال میں نیورو سرجن دستیاب نہیں تھے۔ وہاں پر سی ٹی سکین اور ایم آئی آر مشین دو ماہ سے خراب پڑی تھی۔ لوگوں نے بار بار گزارش کی، سب سے کہا کہ کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد ایئر لفٹ کیا جائے۔ نیورو سرجن کو بلایا جائے، مگر افسوس کہ یہ ساری سہولتیں ان کو میسر نہیں تھیں۔‘
گلگت ہسپتال میں مناسب سہولتیں دستیاب نہیں
خاندان کے ایک فرد کے مطابق ’بیس فروری کو ڈاکٹر اسامہ ریاض نے پہلی ہی مرتبہ میں ایف ایس سی پی پارٹ ون کلیئر کر لیا تھا۔ وہ بہت ذھین تھا، اپنی پڑھائی اور پیشے سے انتہائی مخلص تھا۔‘ ’اس کا خیال تھا کہ وہ ایف ایس سی پی کرنے کے بعد امریکہ جائے گا جہاں پر کچھ کورسز کرنے کے بعد واپس گلگت بلتستان آکر اپنے ہی لوگوں کی خدمات انجام دے گا۔ ڈاکٹر اسامہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے گلگت بلتستان میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض نے اپنی ابتدائی تعلیم چلاس ہی سے حاصل کی جبکہ اس کے بعد گلگت پبلک سکول ساینڈ کالج سے امتیازی نمبروں سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد سال 2013/14 میں بہاولپور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ بہاولپور ہی سے ہاوس جاب مکمل کرنے بعد گلگت بلستان محکمہ صحت سے منسلک ہو گئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ .
- کرنل مجیب الرحمن شہید کون تھے
کرنل مجیب الرحمن شہید ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک کے قریب دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ○ پاک فوج کے اس افسر نے شہادت سے قبل دو انتہائی سفاک دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کی بڑی کاروائی کرکے کئی بے گناہوں کی جانیں لینے کی تیاری کررہے تھے۔ جس وقت کرنل مجیب الرحمن کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا تو اُن کے بارہ سالہ بیٹے نے باپ سے لپٹ کر شکایت کی کہ یہ چیٹنگ ہے کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرینگے، اس منظر کو دیکھ کر وہاں موجود دیگر لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔ بعد ازاں جب کرنل مجیب الرحمن کے جسد خاکی کو تدفین کیلئے گلگت لے جایا جارہا تھا تو شہید کرنل کے بارہ سالہ جگر گوشے نے ایک بار پھر معصومانہ انداز میں کمانڈر کو درخواست کی کہ انکل میرے دوسرے بہن بھائیوں کو نہ بتائیں کہ پاپا کو کیا ہوا ہے جس پر وہاں موجود ہر شخص بلک بلک کر آبدیدہ ہوا ۔
کرنل مجیب الرحمن شہید کی نماز جنازہ منگل کے روز دس بجے آرمی ہیلی پیڈ گلگت میں ادا کی گئی۔نماز جنازہ شمالی علاقہ جات کے فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسن محمود خان نے خود پڑھائی جس میں سابق کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ہدایت الرحمن، وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سمیت سول اور فوجی حکام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اسی روز بعد از نماز ظہر بوقت دو بجے کرنل مجیب الرحمن شہید کی نماز جنازہ انکے آبائی قصبہ بونجی میں پھر پڑھائی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان توحید نے شرکت کی۔ ان کو بونجی میں انکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
شہید کرنل مجیب الرحمن ، گلگت بلتستان کی ہردلعزیز شخصیت ڈی آئی جی ریٹائرڈ میر افضل خان کے فرزند ارجمند ہیں جبکہ کرنل ریٹائرڈ حبیب الرحمن انکے بڑے بھائی ، معروف سیاسی اور کاروباری شخصیت عتیق الرحمن جڑواں بھائی اور ایکسئین مبشر حسن، معروف بینکار اشفاق حسن، میجر تہذیب الحسن چھوٹےبھائی ہیں۔
شہید کرنل مجیب الرحمن کےپسماندگان میں ایک بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر بارہ سال کے قریب ہے۔کرنل مجیب الرحمٰن نے پی ایم اے 91 لانگ کورس میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع استور کے علاقہ بونجی سے ہے۔ کرنل مجیب الرحمن وطن عزیز کی سلامتی کے لیے امر ہوئے۔۔۔۔۔سلام ہو قوم کے اس سپوت پر جس نے ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیا
، ۔۔
- سیاست
تالیف و ترتیب : بوسکندر رشید احمد گبارو
لغت میں سیاست کے معنی ٰ: حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔
اصطلاح میں: فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں
۔ قرآن میں سیاست کے معنی ٰ: حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا سود ی کاروبار اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے’ دین اسلام کو اپنی اصل روح میں بھر پور طریقے سے نافذ کرنا۔
کتب احادیث میں سیاست کے معنی: عدل و انصاف و فلاحی معاشرے کا قیام اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔
فلسفہ کی نظر میں: فلسفہ کے نزدیک فن حکومت، اجتماعی زندگی کا سلیقہ، صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔ چونکہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے، جس کو دین کہتے ہیں۔
اسلام میں سیاست اس فعل اور عمل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دو ہوجائیں۔ اہل مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ اسلام دراصل ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور دین کا مفہوم تقریباً ہی سیاست کے بنتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر،مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیا ٴ آلمعصومین ‘ چوٹی کے آ صحاب الرسول’ اہل بیت العظام اور اولیأ کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ [ “اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ اللہ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت ساری دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ اللہ تعالی نے اُس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور جسم (تن و توش)بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور اللہ تعالی (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے• (القرآن۔ سورہ البقرہ آیت: 247)”] [” وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے• (القرآن۔ الفتح:28)] ان آیات سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں،سیاستدان کے لئے ذاتی طور پر ”دولت مند“ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم باعمل اور شجاع (دلیر) ہونا چاہئے۔ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (حکیم الاُمّت’ مُصَّوِرِ پاکستان شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ ) مرادِ رسول الله ﷺ ‘خلیفۂ الراشد الثانی امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کا دورِ خلافت کرۂ ارض پر عالمِ انسانیت کے لئے ایک بہترین فلاحی اور اصلاحی حکومت کا نمونہ تھا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیاست کو اگر دینِ حق سے جُدا کر دیا جائے تو سیاست کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل دُنیائے سیاست کا ہے۔۔۔۔! ایک دفعہ خلیفۂ الرسول ‘ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالٰی عنہٗ مسجد نبوی ﷺ میں منبرِ رسول اللہﷺ پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا! کہ ” اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہیں بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ دُگنا ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا تمہارے حصّے میں ملا تھا وہ اس سے آدھا تھا”۔ تو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے کہا کہ “کیا اس مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ ابنِ عمر موجود ہے؟ “۔ چنانچہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ! کہ ” تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے؟ ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں قیامت تک اس مبارک منبر پر نہیں چڑھوں گا۔” سیدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا! کہ “بابا کے حِصّے میں جو کپڑا ملا تھا وہ ناکافی تھا کہ حِصّہ بقدرِ جُثّہ آپ کا پورا جسم ڈھانپ سکے جبکہ آپ کے پاس پہلے سے پہنا ہوا جو لباس تھا وہ بھی بہت حد درجہ کا خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے حِصّے کا کپڑا اپنے والد گرامی کو دے دیا تاکہ آپ پورا لباس زیب تن کر سکیں” ابن سعد اپنے طبقات میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ” لوگ ایک دن امیرالمؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز(باندی) کا گزر ہوا۔ اُن لوگوں میں سے بعض کہنے لگے یہ باندی امیرالمؤمنین کی ہے۔ آپ (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ) نے سنتے ہی یہ فرمایا کہ “امیرالمؤمنین کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اللہ جل جلالہٗ کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے”۔ اپنے دور خلافت میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کسی شخص کو بطورِ گورنر یا عاملِ حکومت تقرری کرکے کسی خطے میں بھیجتے تو یہ شرائط بتا دیتے کہ “1-ترکی گھوڑے پر کبھی سوار نہیں ہونا؛ 2۔ عمدہ کھانا کبھی نہ کھانا؛ 3۔ باریک یا ریشمی کپڑا کبھی نہ پہننا اور؛ 4۔ حاجت مندوں کی داد رسی کرتے رہنا۔ ” اگر کسی گورنر یا عمالِ حکومت کو ان شرائط کی پاسداری کرتے نہ پاتے تو احتساب کرتے اور سزائیں دیتے۔
- Message on 5th, February, on Kashmir solidarity day.
A message to the world on 5, February- Kashmir Day:
I strongly endorse that, KASHMIR RESOLUTION IS KEY TO PEACE, PROSPERITY AND STABILITY IN SOUTH ASIA;
“ Jammu and Kashmir is more a part of Pakistan than it can ever be with india, with all her eloquence and all her extravagance with words. jammu and Kashmir is part of Pakistan, in blood, in flesh, in Culture, in history, in geography, in every way and in every form”.~ Shaheed Zulifkar Ali BhuttoKashmir is India’s greatest moral and political failure. It is here that even the most civilised amongst us begin to make excuses for repression, brutality and violence. It is here that we subsume all that we otherwise celebrate under the demands of freedom, progress, liberalism, liberty and secular ideals. Since 1947, the Indian state has responded to the political aspirations and the social and the legal demands in Kashmir through militarisation, repression, and indiscriminate violence, including, at various times, the denial of democratic rights, the manipulation of elections, and the murder and imprisonment of its political leaders.
- Wedding ceremony of Dr. Mehmood Rehman
Glimpses of Wedding Ceremony of Dr Mehmood Rehman in Karachi.
- اظہار تشکر ۔۔۔
اظہار تشکر: ہم، ان تمام رشتہ دار، دوست اور احباب کے انتہائی ممنون اور مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے مرحوم والد محترم محمد شریف اللہ کی وفات پر ہم سے تعزیت کی، ہمارا غم بانٹنے میں شرکت فرمائی اور دعا کیلئے آبائی گاوں بونجی تشریف لائے۔ اللہ آپ سب لوگوں کی دعاوں کو قبولیت بخشےاور آپ سب کو آجر دے۔ بغرض اطلاع عرض ہے کہ موسم کی بڑھتی شدت، سفر کی صعوبت میں تعزیت کیلئے آنے والوں کی ممکنہ مشکلات کے پیش نظر کل بروز بدھ مورخہ 22 جنوری سے تمام لواحقین گلگت شہر منتقل ہورہے ہیں۔ تعزیت اور فاتحہ کیلئے تشریف لانے والوں سے گزارش ہے کہ بغرض تعزیت گلگت شہر میں ذیل میں دئے گئے پتہ پر تشریف لائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔ ” رہائش گاہ آصف اللہ خان، عقب گلگت بلتستان اسمبلی جوٹیال گلگت”۔ شکریہ۔ منجانب پسران محمد شریف اللہ حشمت اللہ مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف، حاجی نعمت اللہ خان سابق صوبائی وزیر، ڈاکٹر عنایت اللہ، پروفیسر احسان اللہ، شہید ڈی ایس پی عطاء اللہ خان و پروفیسر عرفان اللہ خان، عارف اللہ خان، آصف اللہ خان صوبائی سکریٹری سیاحت گلگت بلتستان، ایڈوکیٹ حامد اللہ خان و دختران ڈاکٹر عائشہ حبیب خان و محترمہ پروفیسر انیسہ تبسم و دیگر سوگواران
- Winter
Snowfall in Gilgit City.
دسمبر کی آخری دعا بھی تم تھے
جنوری کی پہلی دعا بھی تم ہو - Posts
- سیاست