
تحریر : رشید احمد گبارو
قوموں کی تاریخ میں بعض ایسے لمحات آتے ہیں جب قیادت کے فیصلے اور الفاظ آنے والی نسلوں کے مقدر کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ بھی اسی سچائی کی مظہر ہے۔ ایک طرف وہ دور تھا جب قیادت ایسے اوتاروں کے ہاتھوں میں تھی جو بیرونِ ملک بسنے والے تارکینِ وطن کے نعرے اور کم علم نسلِ نو جس کو عرف عام میں قوم یوتھ کہتے ہیں کی خواہشات کے سہارے اقتدار میں آئے۔ اُن کی سوچ اور بیانات نے قوم کے حوصلے بلند کرنے کے بجائے کمزور کئے ۔اسی نسل نو اور بعض تارکین وطن کے کلٹ اوتار کا قومی اسمبلی میں بطورِ قائدِ ایوان دیا گیا وہ مضحکہ خیز جملہ — “تو میں کیا انڈیا پر حملہ کروں؟” — آج بھی ایک کمزور قیادت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ دشمن کی جارحیت کے سامنے یہ الفاظ قوم کے دلوں میں اضطراب اور مایوسی کا سبب بنے۔ اسی اوتار کے دور میں جب بھارتی پائلٹ ابھینندن کو پاک فوج نے گرفتار کیا تو اُس کی فوری رہائی کو امن پسندی کے نام پر ظاہر کیا گیا، مگر دراصل یہ موقع پاکستان کی برتری کے اظہار کے بجائے جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ یہی وہ طرزِ عمل تھا جس نے قوم کو احساس دلایا کہ قیادت محض نعرے ، کلٹ اور کمزور حکمتِ عملی کے سہارے ہے۔لیکن وقت نے پلٹا کھایا۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ “اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا”، اور یہی وعدہ پاکستان نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا۔ سنہء ۲۰۲۲ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سیاسی بصیرت اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عسکری قیادت نے قوم کو ایک نئی سمت دی۔ بیانات کے شور سے ہٹ کر عملی تدبیر اور ٹھوس اقدامات سامنے آئے۔ مئی ۲۰۲۵ ء کا وہ معرکۂ حق ہماری عسکری تاریخ کا روشن باب ہے جب پاک فضائیہ نے بھارتی غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے چھ طیارے اور کئی اہم فوجی تنصیبات تباہ کئے اور دشمن کو عبرتناک شکست دی۔ یہ معرکہء حق نہ صرف عسکری مہارت اور تدبر کا مظہر تھا بلکہ پاکستان کی ناقابلِ تسخیر قوت کا اعلان بھی تھا۔قرآن کہتا ہے: “بے شک اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی راہ میں صف باندھ کر ایسے لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں”۔ یہی کیفیت ہماری افواج کی تھی۔ سپاہیوں کی صفوں میں اتحاد، قوم کا غیر متزلزل اعتماد اور قیادت کا عزم، سب نے مل کر اس آیت کو زندہ حقیقت میں بدل دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستانی عوام نے محسوس کیا کہ اب ان کا دفاع محض بیانات پر نہیں بلکہ عملی قوت اور سیسہ پلائی ہوئی حکمتِ عملی پر قائم ہے۔اس معرکۂ حق کی بازگشت سرحدوں سے باہر بھی پہنچی۔ خلیجی اور اسلامی ممالک نے پاکستان کی عسکری قوت اور قیادت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ سعودی عرب نے دفاعی و اقتصادی معاہدے کے ذریعے اپنی پذیرائی ظاہر کی، امریکہ نے پاکستان کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے واضح الفاظ میں تحسین کی، روس اور چین نے پاکستان کو خطے کی توازن قائم رکھنے والی طاقت مانا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان نے نہ صرف جنگی محاذ پر کامیابی حاصل کی بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی اپنی حیثیت کو بلند کیا۔یوں ایک ہی دہائی میں پاکستان نے قیادت کے دو مختلف رنگ دیکھے: ایک طرف وہ اوتار جنہوں نے قوم کے حوصلوں کو کمزور کیا اور موقع پرستی و تذبذب کو اپنا شعار بنایا، اور دوسری طرف وہ فاتحین جنہوں نے تدبر، عزم اور ثابت قدمی سے قوم کو عزت و وقار بخشا۔ آج پاکستانی قوم فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ اپنے فاتحینِ معرکۂ حق — شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر — کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ یہی وہ اتحاد اور ایمان ہے جو پاکستان کو آئندہ بھی ناقابلِ شکست رکھے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے عزم و استقامت کا روشن پیغام ہوگا۔
ایسے لمحات قوم کو واضح عزم، ٹھوس حکمتِ عملی اور متحد قیادت کی توقع ہوتی ہے — صرف الفاظ ہی کافی نہیں ہوتے۔البتہ اس کی روشنی میں ایمان کی وہ دلیل بھی ہمیشہ سامنے رہتی ہے جو قرآن مجید میں آتی ہے: (سورۃ محمد: 7)یہ وعدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب قوم اللہ کی مدد اور راہِ حق میں ثابت قدمی اختیار کرتی ہے تو اللہ اس کی مدد فرماتا ہے اور اُس کے قدم مضبوط کرتا ہے۔ اسی ایمان و اخلاق نے سنہ ء ٢٠٢٢ کے بعد ہماری نئی قیادت اور افواج کو وہ قوت بخشی جو تاریخ ساز عملی نتائج میں بدل گئی۔مئی ۲۰۲۵ کا وہ باب اس تبدیلی کا سب سے روشن ثبوت ہے۔ اس مہینے میں جب فضا میں کشیدگی عروج پر تھی، پاکستان نے محض بیانات پر اکتفا نہ کیا بلکہ دفاعِ وطن کی حکمتِ عملی بروئے کار لائی؛ پاک فضائیہ نے منصوبہ بندی، مہارت اور بہادری سے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دشمن کی فضائی قوت کو پسِ پشت رکھ دیا گیا — نتیجہ وہ واضح برتری تھی جس نے قوم کے حوصلے اور عالمی تاثر دونوں کو بدل کر رکھ دیا۔ اس معرکے میں پاکستان کی کارروائیوں اور دعوؤں نے بین الاقوامی نگاہ کو مبذول کیا اور میڈیا و تجزیہ نگاروں نے اس کشمکش کی تفصیلی کوریج کی۔یہ عسکری فتح صرف جنگی کامیابی تک محدود نہ رہی بلکہ اس کے سفارتی ثمرات بھی نظر آئے۔ مئی کے بعد علاقائی سطح پر پاکستان کی دفاعی قوت و سیاسی موقف کو نئی توجہ ملی؛ خلیجی اور اسلامی دنیا نے پاکستان کے کردار پر توجہ دی، اور بڑی عالمی قوتوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستان نے مؤثر دفاعی حکمتِ عملی اور نظمِ و ضبط کا مظاہرہ کیا — نتیجتاً علاقائی شراکت داریوں میں نئے اشارے اور بین الاقوامی ثالثی کی پیشکشیں نمودار ہوئیں۔ امریکہ نے خطے میں امن بحال کرنے کی کوشش میں ثالثی کی گنجائش دیکھی اور ثالثی کے خواہشمند بیانات آئے، اور عالمی سطح کے مذاکراتی و سفارتی اقدامات نے اس معرکے کے نتیجے کو ایک سیاسی قبولیت کا رخ دیا۔اسی طرح، خطے کے توازن میں تبدیلی کے آثار واضح ہوئے: خلیجی شراکت داریوں میں دلچسپی، دفاعی تعاون کے نئے اشارے، اور بعد ازاں بعض بین الاقوامی سطح کے مذاکرات نے اس بات کی عکاسی کی کہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی سفارتی قربت اور دفاعی سطح پر مذاکرات (جنہوں نے خطے میں نئی حکمتِ شراکت کی راہیں کھولیں) نے بعض حلقوں میں ماہ مئی کے معرکے کی حکمتِ عملی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قرار دینے میں مدد دی۔ (بین الاقوامی رپورٹس اور تجزیاتی کوریج اس رجحان کو نوٹ کرتی ہیں)۔تاریخِ اسلام ہمیں ثابت قدمی اور حکمت کے وہ مہارت بھرے اسباق دیتی ہے جو آج کے دور کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جب سپاہی صفِ واحد میں ہوتے ہیں تو وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ٹھہرتے ہیں، اور یہی وہ کیفیت تھی جس نے پاک فضائیہ اور پاک فوج کو متحد کر کے میدان میں فتح دلائی۔ اور جیسا کہ دوسری آیات میں چھوٹے گروہوں کی فتح کو اللہ کے حکم سے بیان کیا گیا ہے، اسی حکمتِ الٰہیہ نے کمزور محسوس ہونے والی قوتوں کو غالب آنے کا موقع دیا۔ (سورۃ البقرہ: 249 کی روح)آج قوم جس اعتبار اور وقار کے ساتھ اپنے بہادر سپاہیوں کی فتوحات کا جشن منا رہی ہے، وہ محض عسکری روایات کا حاصل نہیں بلکہ ایمان، اتحاد اور قیادت کی بصیرت کا نتیجہ ہے۔ بڑے عالمی کھلاڑیوں — چاہے وہ خلیجی ریاستیں ہوں، امریکہ کی ثالثی اور قبولیت کا اظہار، یا دیگر عالمی قوتوں کی محتاط پذیرائی — نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستان نے دفاعِ وطن میں قابلِ فخر کارکردگی دکھائی۔ (بین الاقوامی بیانات اور رپورٹنگ میں یہ کردار دیکھنے کو ملتا ہے)۔سب سے آخر میں ایک روشن سچ یہ ہے کہ حقیقی فتح وہ نہیں جو محض دعوے سے ثابت ہو، بلکہ وہی ہے جو عملی اقدامات، بین الاقوامی تعلقات میں وزن، اور قوم کے دلوں میں جگائے گئے اعتماد سے واضح ہو۔ مئی ۲۰۲۵ کے واقعات نے یہی نشانیاں دیں: پاکستان نے نہ صرف اپنے دفاع کو کامیابی سے ثابت کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی حیثیت کو مضبوط کیا — اور اِس سب میں قوم کا وہ لازوال ساتھ قابلِ ستائش ہے۔ پاکستانی قوم اپنے فاتحینِ معرکۂ حق کے ساتھ کھڑی ہے؛ اُن بہادر جوانوں کے ساتھ جو اپنے فرائض میں ثابت قدم رہے، اُن کے ساتھ جو حدِ ایمان و حبِ وطن سے سرشار ہو کر کارِ وطن سرانجام دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے، ہمارے قائدین کو حکمت عطا فرمائے، معرکہ حق کے فاتحین کو سلامت رکھے اور شہداء کے درجات بلند کرے۔ آمین۔ وما توفیقی إلا باللہ۔۔ وللہ اعلم بالصواب۔۔ طالب دعا۔۔ رشید احمد گبارو