مرتب: رشید احمد گبارو
استغفار صرف زبان سے ادا کرنے والا لفظ نہیں، بلکہ دل کی وہ تڑپ ہے جو گناہ سے نفرت اور نیکی سے محبت میں ڈھل کر اللہ کی رحمت کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ مؤمن کا دل جب گناہ کے خیال ہی سے لرز جائے تو سمجھ لیجیے کہ یہ ایمان کی زندہ علامت اور توبہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بارہا استغفار کی فضیلت بیان فرمائی ہے: “اور اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب مہربان بھی ہے اور محبت کرنے والا بھی۔” (ہود: 90)۔ اسی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک واقعہ علمائے دین کی کتب میں ملتا ہے کہ ایک بزرگ اپنے شیخ مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: حضرت! اللہ تعالیٰ نے قرآن میں استغفار کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے، لہٰذا مجھے کوئی ایسا گناہ بتا دیجیے جسے کر کے میں اپنے رب، اللہ الغفور الرحیم سے سچی توبہ اور استغفار کر سکوں۔ یہ سن کر مرشد حیران اور رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: حضرت! میں تو سب کو نیکیوں کی طرف بلاتا ہوں، گناہوں کی طرف نہیں۔ مگر مرید پر جذب و حال کی کیفیت طاری تھی اور وہ مسلسل اصرار کرتا رہا۔ بالآخر مرشد نے فرمایا: اچھا، ایسا کرو کہ آج رات تہجد نہ پڑھنا اور پھر سحر کے وقت اللہ سے استغفار کرنا، کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے: “وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ” (آل عمران: 17) یعنی وہ جو سحر کے وقت بخشش مانگتے ہیں۔
یہ سن کر مرید خاموش ہو گیا، مگر جب رات ڈھلی تو اس کے دل پر لرزہ طاری ہوا۔ وہ روتے ہوئے بار بار کہنے لگا: یا اللہ! میں کیسے تہجد ترک کروں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ تیرا بندہ تیرا در چھوڑ دے؟ اے اللہ! میں اسی خیال سے ہی استغفار کرتا ہوں کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں عبادت کو ترک کروں۔ چنانچہ اس نے اس رات نہ صرف تہجد ادا کی بلکہ ذکر و اذکار اور تسبیحات میں بھی مشغول رہا۔ اس کی آنکھیں اشک بار رہیں، زبان توبہ و استغفار کرتی رہی، اور دل میں یہ ندامت جاگزین رہی کہ عبادت چھوڑنے کا خیال بھی کتنا بڑا نقصان ہے۔
علماء امت نے فرمایا ہے کہ استغفار صرف زبان سے نہیں بلکہ دل کی کیفیت سے ہے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: “استغفار یہ نہیں کہ زبان سے سو بار کہا جائے اور عمل وہی رہے، بلکہ حقیقی استغفار یہ ہے کہ بندہ گناہ چھوڑ دے اور اللہ کی طرف ندامت کے ساتھ رجوع کرے۔” قرآنِ کریم بھی یہی درس دیتا ہے: “سوائے ان کے جو توبہ کریں، ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔” (الفرقان: 70)۔ یہی کیفیت ایمان کی اصل زندگی ہے کہ مؤمن گناہ کے ارادے ہی سے کانپ جائے اور نیکی کی محبت میں روتا ہوا اللہ کے حضور گڑگڑائے۔
اے مؤمن! استغفار کو محض زبان کی تکرار نہ سمجھ، بلکہ دل کی سچی کیفیت اور گناہ سے حقیقی ندامت بناؤ۔ رات کے آخری پہر جب دنیا خاموش اور دل تنہا ہو تو اپنے رب کے حضور اشکبار ہو کر استغفار کرو۔ چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی ہلکا نہ سمجھو کہ یہی دل کو سخت کر دیتا ہے۔ نیکی کی توفیق پر شکر کرو اور اگر قدم خطا ہو جائے تو فوراً توبہ و استغفار کو سہارا بناؤ۔ گناہ کے بعد ندامت ہی اصل توبہ ہے اور ندامت کے بعد استغفار ہی اصل نجات ہے۔
اے اللہ! ہمیں زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمارے چھوٹے بڑے، ظاہری باطنی، جانے انجانے سب گناہوں کو معاف فرما۔ اے اللہ الغفور الرحیم! ہمیں نیکی سے محبت، گناہ سے نفرت اور اہنی رضا کی جستجو نصیب فرما۔ اے اللہ! جب ہماری آنکھیں بند ہوں تو ہمارے آخری الفاظ تیری یاد اور استغفار ہوں اور ہماری آخری کیفیت ایمان و یقین کی ہو۔ آمین یا رب العالمین۔