Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

فوج، سیاست اور زمینی حقائق: پاکستان کا اصل بیانیہ

Posted on September 11, 2025September 12, 2025 by gabbaro
Spread the love

تحریر : رشید احمد گبارو

فوج، سیاست اور زمینی حقائق: پاکستان کا اصل بیانیہ پاکستان کی سیاست میں اقتدار کی جنگ کوئی نئی بات نہیں۔ مگر عمران خان اور فوج کے درمیان جو معرکہ برپا ہوا وہ دراصل اقتدار کی کشمکش سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اگر عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی مل جائے تو فوج فوراً ’’نیوٹرل‘‘، آرمی چیف ’’ایماندار‘‘ اور قوم کا ’’باپ‘‘ قرار پاتا ہے۔ اور جیسے ہی کرسی چھن جائے، وہی فوج نااہل، بدعنوان اور غاصب ٹھہرتی ہے۔ یہ تضاد دراصل عمران خان کی سیاست کا وہ چہرہ ہے جس میں اصول کم اور اقتدار کی ہوس زیادہ ہے۔عمران خان کے بیانیے کا دوسرا رخ بھی دلچسپ ہے۔ وہ بدعنوانی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا، مگر اس کے اپنے دورِ حکومت میں کرپشن کے سکینڈلز زبان زدِ عام رہے۔ اس نے خاندانی سیاست کو آڑے ہاتھوں لیا تھا، مگر آج اس کی بہنیں پہلی صف میں کھڑی اس کے لئے سیاسی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ یہ وہی شخصیت کا تضاد جس میں باتیں اور دعوے کچھ اور ہوتے ہیں، مگر عمل ان کا الٹ نکلتا ہے۔عمران خان کا اسلامی ٹچ بھی محض ایک سیاسی ہتھیار تھا۔ جلسوں میں قرآن و سنت کے حوالے دے کر عوام کے اسلامی جذبات کو ابھارنا، دراصل پاکستانی عوام کے مذہبی مزاج کو سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام اب اس ڈھونگ کو پہچان چکے ہیں۔عمران خان کے حامیوں کا ایک بڑا طبقہ سمندر پار مغربی دنیا میں آباد ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر سوشل میڈیا پر عمران کا بیانیہ بیچتے ہیں، مگر ان کے پاؤں پاکستان کی زمین پر نہیں ہیں۔ یہاں کے حقیقی مسائل، مہنگائی، بیروزگاری، اداروں کی پیچیدگیاں اور سیاسی جوڑ توڑ سے وہ ناآشنا ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا پر بنائے گئے مصنوعی طوفان اور پاکستان کے زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اب اگر موازنہ نواز شریف اور عمران خان کے سیاسی سفر کا کیا جائے تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ نواز شریف نوجوانی ہی سے سیاست میں داخل ہوئے اور کئی بار عروج و زوال دیکھا۔ جیلیں کاٹیں، جلاوطنی بھگتی اور سیاسی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ دوسری طرف عمران خان پہلے کرکٹر اور عیاشیوں کی دنیا کا حصہ رہے اور پھر اچانک اقتدار کے ایوانوں میں کود پڑے۔ ایک کھلاڑی سے لیڈر تک کا یہ سفر غیر فطری اور سطحی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف جتنی سیاسی صلاحیت اور قد کاٹھ رکھتے ہیں، عمران خان کو شاید دوبارہ جنم لینا پڑے تو بھی اس سطح تک پہنچنا ممکن نہ ہو۔پاکستان کے تناظر میں یہ سمجھنا لازم ہے کہ فوج کا کوئی قصور نہیں۔ پاکستان ایک کثیر الجہتی ملک ہے جس میں مختلف قومیتیں، مسالک اور طبقات بستے ہیں۔ فوج کو اس سے نکال دیا جائے تو یہ ملک ایک دن بھی قائم و دائم نہ رہ سکے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور فوج اس ملک کے لئے سب کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیں گے مگر دفاع پر اپنے سب کچھ لٹانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے اور دشمن میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ فوج نے صرف جغرافیائی سرحدوں کا دفاع نہیں کیا بلکہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی اس کے ذمے ہے، اور وہ آج بھی اسی مشن پر ڈٹی ہوئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں سیاسی چہرے بدلتے رہتے ہیں، کبھی کرپشن کے خلاف، کبھی خاندانی سیاست کے خلاف، کبھی اسلام کے نام پر۔ مگر ریاست کا قلعہ ہمیشہ فوج کے لہو اور قربانیوں سے محفوظ رہا ہے۔ آج بھی اگر پاکستان قائم ہے تو اس کی اصل ضمانت یہی فوج ہے جو اپنی قربانیوں اور مشن کے ساتھ اس وطن کے لئے ڈھال بنی کھڑی ہے۔نظریہ، سرحد اور غیرت—سب کچھ افواجِ پاکستان کی امانت ہے!۔۔۔ اور دراصل یہی حقیقت ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں سیاست اور حکومتی فیصلے ہمیشہ خالصتاً عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ بظاہر جمہوری عمل کے ذریعے الیکشن ہوتے ہیں اور بعض اوقات نیک نیتی سے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت لوگ اس عمل میں شریک بھی ہوتے ہیں، لیکن بڑی پالیسیوں اور ریاستی حکمتِ عملی کے تعین میں بالادستی اکثر و بیشتر فوج کی ہی رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فوج کا کردار صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ دنیا کی بڑی جمہوری حکومتوں، خصوصاً امریکہ میں بھی عسکری اداروں کی رائے اور کردار کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر کل ہی ایک امریکی وزارت خارجہ سے قطر پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے حوالے سے سوال کیا گیا۔ اُنہوں نے براہِ راست کوئی واضح جواب دینے کے بجائے یہ کہا کہ اس سلسلے میں ہمیں تو پینٹاگون نے آگاہ کیا ہے۔ اس پر صحافیوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ آخر ایسی نوعیت کی خبر یا پالیسی وضاحت سول حکومت کی طرف سے ہونی چاہیے یا عسکری ادارے کی طرف سے؟ لیکن وزارت خارجہ نے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ امریکہ جیسی بڑی جمہوریت میں بھی بعض اوقات عسکری اداروں کی رائے یا عمل، سول حکومت سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ تاہم فرق یہ ہے کہ وہاں اس کردار کو عمومی طور پر ’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’دفاعی معاملات‘‘ تک محدود رکھا جاتا ہے، جبکہ پالیسی سازی اور داخلی سیاسی عمل میں بالادستی بہرحال عوامی نمائندوں اور سول حکومت کی تسلیم کی جاتی ہے۔اس تقابلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فوج ہر ریاست میں اہم ادارہ ہے، لیکن جمہوری نظام میں اس کے کردار کو کس حد تک محدود یا وسیع کیا جانا چاہیے، یہ سوال ہر ملک کے سیاسی ارتقا اور عوامی شعور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وللہ اعلم بالصواب

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0110721
Visit Today : 29

calendar

September 2025
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930  
« Aug    
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb