Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

شخصیت کی بقا: دنیاوی شہرت اور اخروی کامیابی کا تقابلی جائزہ

Posted on September 6, 2025September 7, 2025 by gabbaro
Spread the love

تحریر و تالیف : رشید احمد گبارو

انسانی زندگی ایک محدود مدت رکھتی ہے، لیکن یہ سوال ہمیشہ زندہ رہا ہے کہ موت کے بعد انسان محض مٹی میں دفن ہو کر فنا ہوجاتا ہے یا اس کی شخصیت اور کردار باقی رہتے ہیں؟ عام خیال یہ ہے کہ مرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ چند سال یا چند نسلوں تک ہی نام باقی رہتا ہے، مگر قرآن و سنت اور تاریخ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جسم فنا پذیر ہے لیکن انسان کے اعمال اور ان کے اثرات اسے زندہ رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: “ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے” (آل عمران، 185) لیکن ساتھ ہی یہ بھی اعلان کرتا ہے: “ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ان کے اعمال اور آثار کو لکھتے رہیں گے” (یس، 12)۔ گویا انسان کی حقیقی بقا اس کے اعمال اور چھوڑے ہوئے نقوش میں ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو دعا کرے” (صحیح مسلم، حدیث: 1631)۔ یہ تعلیم اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ بقا محض جسمانی یادداشت یا دنیاوی شہرت میں نہیں بلکہ ایسے اعمال میں ہے جو نسلوں کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔

اسلامی تاریخ کے عظیم کردار اس حقیقت کی روشن مثال ہیں۔ خلیفہ رسول صدیق اکبر سیدنا ابوبکرؓ کی ایثار و قربانی، امیرالمومنین فاروق اعظم سیدنا عمرؓ کا عدل، امیرالمومنین ذوالنورین سیدنا عثمانؓ غنی کی سخاوت اور امیرالمومنین حیدر کرار سیدنا علیؓ المرتضی کی شجاعت آج بھی امت کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ سیدنا امام حسنؓ المجتبی نے امت کو خونریزی سے بچانے کے لئے اپنی خلافت سیدنا امیر معاویہؓ کے حوالے کر دی۔ ان کی یہ صلح اس حقیقت کی دلیل ہے کہ بعض اوقات ذاتی اقتدار قربان کرنا امت کی وحدت کے لئے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ان کے بھائی شہید کربلا امام عالی مقام سیدنا حسینؓ نے اس کے برعکس یزیدی ظلم کے خلاف اپنی جان قربان کر کے قیامت تک کے لئے حق و باطل کا فرق واضح کر دیا۔ یوں دونوں بھائیوں کے کردار امت کے لئے دو الگ لیکن مکمل رہنمائی کے اصول فراہم کرتے ہیں۔

سیدنا امام حسنؓ و سیدنا امام حسینؓ کے بعد تاریخ میں امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسی شخصیات نظر آتی ہیں جنہیں مجدد الفِ اول کہا جاتا ہے۔ انہوں نے خلافت کو عدل، دیانت اور تقویٰ کا حقیقی نمونہ بنایا اور خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ اسی طرح ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے فقہ اسلامی کی ایسی بنیادیں رکھیں جو آج بھی کروڑوں مسلمانوں کے لئے عملی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ائمہ فقہاء کے بعد ائمہ محدثین کا کردار بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے علم حدیث کو وہ مرتبہ دیا کہ آج تک ان کی تصانیف امت کے لئے سب سے معتبر ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی محنت نے سنت رسول ﷺ کو صدیوں تک محفوظ رکھا۔

برصغیر کی تاریخ میں مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کا کردار دین کو تحریف و بگاڑ سے بچانے اور اسلامی شعور کو زندہ رکھنے کے حوالے سے بے مثال ہے۔ جدید دور میں علامہ محمد اقبالؒ شاعرِ مشرق اور مفکرِ اسلام کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، جنہوں نے غلامی کے اندھیروں میں خودی اور بیداری کا پیغام دے کر امت کو ایک نیا شعور عطا کیا۔

مسلمان فلاسفرز جیسے فارابی، ابنِ سینا اور ابنِ رشد نے فلسفہ، طب اور منطق میں ایسے نقوش چھوڑے جن سے مغرب نے بھی استفادہ کیا اور یورپی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد پڑی۔ اس تسلسل میں غیر مسلم سائنسدان جیسے نیوٹن، آئن سٹائن اور ایڈیسن اپنی تحقیقات اور ایجادات کے باعث انسانی تاریخ میں زندہ ہیں۔ نیوٹن کے قوانینِ حرکت، آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت اور ایڈیسن کی عملی ایجادات آج بھی انسانی ترقی کی بنیاد ہیں۔ یہ سب اس بات کی گواہی ہیں کہ علم و تحقیق پر مبنی خدمات انسان کو دنیاوی شہرت عطا کرتی ہیں، اگرچہ یہ لازماً اخروی کامیابی کی ضامن نہیں۔

تاہم قرآن اور سنت یہ واضح کرتے ہیں کہ نیک اعمال اگر اخلاص کے بغیر صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہوں تو وہ ریاکاری شمار ہوتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

“اَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ”

صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “ریاءُ” (یعنی دکھاوا)۔(مسند احمد، حدیث: 24030)۔

یہی وجہ ہے کہ دنیاوی شہرت اگرچہ وقتی طور پر مل سکتی ہے لیکن اللہ کی رضا کے بغیر وہ لاحاصل ہے۔ اسی تناظر میں یہ حقیقت بھی نظر آتی ہے کہ اگر دنیاوی شہرت ہی کامیابی کا معیار ہوتی تو اللہ کے برگزیدہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب آج دنیا میں معروف و مشہور ہوتے۔ حالانکہ ہزاروں انبیاء مبعوث ہوئے لیکن آج دنیا میں صرف چند کے نام ہی محفوظ ہیں، باقی کے مبارک نام اور ذکر تک معدوم ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل کامیابی اللہ کی رضا اور آخرت کی نجات میں ہے، نہ کہ محض دنیا میں مشہور ہونے میں۔ جیسا کہ قرآن اعلان کرتا ہے: “اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش کہ وہ جانتے” (العنکبوت: 64)۔

یہی وجہ ہے کہ دنیاوی تاریخ یہ بھی دکھاتی ہے کہ نمرود، فرعون، شداد اور یزید جیسے لوگ بھی زندہ مثال ہیں لیکن ان کے ظلم و سرکشی کی وجہ سے۔ قرآن فرعون کے بارے میں کہتا ہے کہ اللہ نے اسے غرق کر کے اس کی لاش کو محفوظ کیا تاکہ وہ آنے والوں کے لئے نشانی بن جائے (یونس، 92)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دنیاوی شہرت بذاتِ خود کامیابی نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ انسان کس پہلو سے یاد رکھا جاتا ہے۔

اسلامی عقیدہ تقدیر کو اللہ کے علم و قدرت کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو پہلے سے لکھ رکھا ہے لیکن انسان کو اختیار بھی دیا ہے تاکہ وہ خیر یا شر کی راہ اختیار کرے۔ قرآن کہتا ہے: “یہ نہیں کہ تم جو چاہو سو ہو، مگر یہ کہ اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے” (التکویر، 28-29)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا علم کامل ہے لیکن انسان اپنے اختیار سے اپنی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔

یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ شخصیت کی بقا کے لئے محض دنیاوی شہرت کافی نہیں۔ اصل بقا اخلاصِ نیت، نیک اعمال، علم، خدمتِ خلق اور اللہ کی رضا میں ہے۔ نیک لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب رہتے ہیں، جبکہ بداعمال اور سرکش لوگ دنیا میں عبرت اور آخرت میں خسارے کے وارث ٹھہرتے ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جس پر انسان کی دائمی کامیابی کا فیصلہ ہوگا۔— وللہ اعلم بالصواب

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0110721
Visit Today : 29

calendar

September 2025
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930  
« Aug    
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb