Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

بین الاقوامی ترقی کے مراحل : ایک تحقیقی تجزیہ اور پاکستان کی موجودہ پوزیشن

Posted on August 2, 2025August 2, 2025 by gabbaro
Spread the love

تحریر ؛ رشید احمد گبارو


پیش لفظ

اس تحقیقی مقالے کا بنیادی مقصد ترقی یافتہ اقوام کی فکری و مادی ترقی کے ان ارتقائی مراحل کا جائزہ لینا ہے جنہیں انہوں نے صدیوں پر محیط شعوری جدوجہد سے طے کیا۔ اقوامِ عالم کی ترقی کا عمل یکساں نہ رہا بلکہ ہر قوم نے اپنے مخصوص سیاسی، فکری، تعلیمی اور صنعتی پس منظر میں مختلف مراحل طے کئے۔ ہر مرحلے میں مخصوص فکری، ادارہ جاتی، اور سائنسی انقلابات رونما ہوئے جنہوں نے قومی ترقی کی رفتار کو تبدیل کر دیا۔ یہی تقابلی فریم ورک اس تحقیقی مقالے کا محور ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ مسلسل ارتقاء، جستجو، آزمائش اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ اقوام کی ترقی کسی ایک جست میں نہیں بلکہ وقت، سوچ، محنت اور حکمت کے متواتر مراحل سے گزرتے ہوئے ممکن ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک آج جس مقام پر فائز ہیں، وہاں پہنچنے کے لئے انہوں نے ایک طویل اور مشکل سفر طے کیا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام عموماً چار بنیادی مراحل سے گزریں؛ اول-ارتقائی مرحلہ، دوم-پیش رفت یعنی پراگرس کا مرحلہ ، سوئم-ترقی یعنی ڈیولپمنٹ کا مرحلہ، اور بالآخر معاشی قوت کا حصول۔ ترقی یافتہ اقوام — جیسے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان — نے صدیوں پر محیط ایک جدوجہد کے ذریعے اپنے معاشروں کو فکری آزادی، صنعتی طاقت، انسانی ترقی اور معیشت کی بنیاد پر موجودہ مقام تک پہنچایا۔ ان کی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ان کی ترقی کو مندرجہ بالا چار نمایاں مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔یہ چاروں مراحل اگرچہ مغربی دنیا نے تاریخی تسلسل کے ساتھ طے کئے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان یا برصغیر، جو ایک عظیم تہذیبی، فکری اور تاریخی پس منظر رکھتا ہے، اس وقت کس مرحلے سے گزر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ہر مرحلے کی نوعیت اور اس کے عالمی تناظر کو سمجھیں۔ ان مراحل کی ساخت، عوامل، فکری محرکات اور عملی اطلاقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مقالے کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حیثیت عالمی تناظر میں ان چار مراحل کے مطابق کس سطح پر ہے۔ یہ مقالہ بین الاقوامی تاریخ، سماجیات، معیشت، اور پبلک پالیسی کے تحقیقی حوالوں سے تقابلی مکالمہ فراہم کرتا ہے۔

دنیا کی ترقی فطری حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم شعوری، سائنسی، فکری، تعلیمی اور صنعتی محنت کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ مغرب نے ترقی کے جو مراحل طے کئے، ان میں واضح نظم، ادارہ سازی، تنقیدی فکر، سائنس و ٹیکنالوجی، اور آئین و قانون کی بالادستی شامل ہے۔ اس تناظر میں ترقی کا سفر صرف مالیات یا صنعتی پیداوار تک محدود نہیں بلکہ سماجی تبدیلی برائے بہبود آبادی، عدل و انصاف، تعلیم، انسانی فلاح، معاشرتی رواداری اور اختراعی نظام کا تسلسل ہے۔ زیر نظر مقالہ میں ان مراحل کی زمانی تقسیم، فکری جہات اور عملی اطلاقات کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش ہے۔ نیز اس تناظر میں پاکستان کی موجودہ پوزیشن کا تعین کرنا ہے۔ اختتامیہ کلمات میں پاکستان کی موجودہ سطح کی نشاندہی بھی کی گئی ہے

ترقی کے چار عالمی مراحل کا تاریخی و فکری جائزہ

ارتقائی مرحلہ (اٹھارہویں صدی)

ارتقاء کا مطلب ہے: “تبدیلی کے ذریعے تدریجی بہتری”۔

کلیدی خصوصیات

فکری بیداری

مذہب اور سائنس میں توازن کی تلاش

سائنسی تحقیق اور صنعتی سوچ کی بنیاد

ملوکیت کے خلاف فکری بغاوت

اٹھارہویں صدی موجودہ ترقی یافتہ اقوام کے لئے خوش قسمتی سے صحیح معنوں میں فکری بیداری کی علامت بنی۔ اس صدی میں “روشن خیالی” کی تحریک ابھری جس نے عقل، تجربہ، سائنسی مشاہدہ، اور انفرادی آزادی کو فکری اساس عطا کی۔ یورپ میں نیوٹن کی طبیعیات، فلسفہ دانوں کی معاشرتی فکر، سیاسیات، اور اخلاقی اصلاح نے معاشرے کی تشکیل نو کے لئے انسانی فطرت کے عین مطابق زمینی حقائق فراہم کیں۔ درسگاہوں، علمی مجالس، ذرائع ابلاغ عامہ اور سائنسی تحقیقاتی اداروں کا قیام اسی دور میں ہوا۔ یہی وہ ارتقائی مرحلہ تھا جب موجودہ ترقی یافتہ اقوام نے جہالت، روایتی سماج اور مطلق العنان بادشاہت سے بغاوت کر کے علمی و ادارہ جاتی ترقی کا راستہ چنا۔ اسی دور میں تعلیمی ادارے، تجربہ گاہیں، اور طباعت کا نظام مستحکم ہوا۔ سیاسی سطح پر ملوکیت کے خلاف بیداری نے یورپ میں اٹھارویں صدی کا دور “عصرِ تنویر” کے نام سے مشہور ہے۔ اس زمانے میں فکری جمود ٹوٹا، عقلیت، تجربہ، مشاہدہ، اور سائنسی تفکر کو اہمیت ملی، جمہوریت کی بنیاد رکھی ۔ چیدہ چیدہ فلاسفرز اور دیگر مفکرین نے فرد کی آزادی، ریاست کی ذمہ داری، اور علم کی حیثیت کو نئے انداز میں متعین کیا۔

پیش رفت–پراگرس–کا مرحلہ (انیسویں صدی)

انیسویں صدی میں مغرب نے ارتقائی افکار کو عملی جامہ پہنایا۔ صنعتی انقلاب اپنے جوبن پر تھا۔ریل، بجلی، ٹیلی فون، طب، تعمیرات اور تجارت میں زبردست پیش رفت ہوئی۔ قانون، جمہوریت اور تعلیم کے میدان میں بھی زبردست بہتری آئی۔

کلیدی خصوصیات

صنعتی انقلاب کی تیز رفتار توسیع

شہری تمدن کا عروج

نیشنل ازم اور ریاستی نظم و نسق کی تشکیل

ادارہ جاتی ترقی، پارلیمانی نظام، قوانین کا نفاذ۔

انیسویں صدی نے صنعتی انقلاب کے ذریعے مادی ترقی کا دروازہ کھولا۔ مواصلاتی نظام میں بھاپ کا انجن، ریل گاڑی اور ٹیلی گراف کی ایجادات، انسانی ضرورت کے پیش نظر بجلی کی پیداوار اور ترسیل، اور فولاد کی صنعت نے موجودہ ترقی یافتہ اقوام کو پیداواری معجزہ عطا کیا۔ سرمایہ کاری کا غلبہ، بینکنگ نظام، اور شہری تہذیب و تمدن کا فروغ اس صدی کی خاصیت رہے۔ فلسفیانہ سطح پر مدبرانہ سوچ رکھنے والوں نے سماجی و اقتصادی نظام کی نئی تعبیرات پیش کیں۔ مزدوروں کے حقوق، جمہوریت، اور تعلیم کو عام کرنا اس مرحلے کی لازمی پہچان تھی۔المختصر انیسویں صدی صنعتی انقلاب کی صدی تھی۔ ٹیکسٹائل اور مشینری نے مغربی معیشت اور سماج کو از سر نو ترتیب دیا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی نے صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا۔

ترقیات–ڈیولپمنٹ– کا مرحلہ (بیسویں صدی)

بیسویں صدی نے انسانیت کو دو عالمی جنگوں کے ذریعے ہلا کر رکھ دیا، مگر انہی جنگوں کے بعد اقوامِ عالم نے انسانی فلاح، سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم اور سماجی بہتری کی سمت میں حیرت انگیز اقدامات کئے۔ ترقی یافتہ ممالک نے فلاحی ریاست، جدید صنعتی ڈھانچے، انسانی حقوق اور عالمی اداروں کی تشکیل کے ذریعے عالمی قیادت سنبھالی۔

کلیدی خصوصیات

انسانی فلاح پر مبنی منصوبہ بندی

جدید تعلیمی اور تحقیقی ادارے

ٹیکنالوجی، ایجادات، خلائی تسخیر

فلاحی ریاست کا قیام اور پائیدار ترقی کے اصول

بیسویں صدی نے ریاستی نظام کو فلاحی مملکت میں تبدیل کیا۔ انسان کی بنیادی ضروریات کو ریاست کی ذمہ داری تسلیم کیا گیا۔ تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، رہائشی سہولیات، تعمیرات عامہ کے بنیادی ڈھانچے، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کا تحفظ، اور پالیسی سازی میں عوامی شرکت جیسے عناصر نمایاں ہوئے۔ اس صدی میں عالمی ادارے قائم ہوئے، اقوام متحدہ، یونیسکو، ورلڈ بینک جیسے ادارے عالمی نظم کو ممکن بنانے لگے۔ سائنس اور ٹکنالوجی نے کمپیوٹر، ایٹمی توانائی اور طب و جراحت کے شعبے میں انقلابات برپا کئے۔ عالمی جنگوں کے بعد مغرب میں ریاست کی ساخت تبدیل ہوئی۔ تعلیم، صحت، سوشل سیکیورٹی، لیبر لاز، اور پبلک پالیسی کو مرکزی اہمیت دی گئی۔

معاشی قوت–اکانومی– کا مرحلہ (اکیسویں صدی)

موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی کا مرکزی موضوع “معاشی طاقت” ہے۔ آج اقوام کی حیثیت ان کی معیشت سے جانی جاتی ہے۔ چین، امریکہ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی، پیداوار، برآمدات، مالیاتی ادارے، ڈیجیٹل انقلاب اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے عالمی معیشت پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اب طاقت کا معیار فوجی نہیں بلکہ معاشی برتری ہے۔

کلیدی خصوصیات

مضبوط کرنسی، مستحکم مالیاتی نظام

بین الاقوامی تجارت میں غلبہ

جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل معیشت

خود کفالت، برآمدات میں اضافہ، معاشی خود مختاری

اکیسویں صدی موجودہ دور کی ڈیجیٹل صدی کہلاتی ہے۔ انجینئرنگ کے مختلف شعبے، مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، روبوٹکس، بائیو ٹیکنالوجی اور خلائی۔ ارضی۔ بحری سائنس اب صرف نظری مباحث نہیں بلکہ معیشتوں کی بنیاد بن چکی ہیں۔ عالمی سطح پر طاقت کا تعین اب دفاعی قوت سے زیادہ معاشی و تکنیکی برتری سے کیا جاتا ہے۔ چین، جنوبی کوریا، امریکہ، جرمنی، جاپان جیسے ممالک نے اس مرحلے میں قیادت سنبھالی ہے۔ کرپٹو کرنسی، ای کامرس، بلاک چین، عالمی تجارت کے نئے معیارات اور پائیدار ترقی اب معیشت کا نیا پیمانہ ہیں۔ ترقی کو صرف معیشت نہیں بلکہ تعلیم، صحت اور معیارِ زندگی سے مشروط کیا۔

پاکستان کی موجودہ پوزیشن

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم درج ذیل مشاہدات سامنے لا سکتے ہیں۔

ہماری بڑی آبادی آج بھی عقلی سوچ، سائنسی ذہنیت، تحقیق، مطالعہ اور تعلیم سے محروم ہے۔ جامعات کی تعداد کے مقابلے میں تحقیق کا معیار نہایت پست ہے۔ معاشرہ تقلید اور جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، نہ کہ تدبر اور دلیل کی بنیاد پر۔

پاکستان آج بھی فکری، تعلیمی، ادارہ جاتی اور صنعتی ترقی کے بنیادی مرحلے یعنی ارتقائی سطح پر موجود ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں ترقیاتی پیش رفت کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن وہ مربوط قومی حکمتِ عملی، نظام میں شفافیت اور علمی تحقیق کا کلچر ابھی تک تشکیل نہیں پا سکا جس نے دیگر اقوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

صنعتی ترقی کی رفتار سست، وسائل کی کمی، توانائی کا بحران اور حکومتی پالیسیوں کا فقدان ہمیں اس دور کے ابتدائی حصے میں رکھتا ہے جہاں مغرب انیسویں صدی میں تھا۔ ہمارے ہاں ابھی تک بنیادی انفرا اسٹرکچر مکمل نہیں ہو سکا۔

فلاحی ریاست کے اصول، پائیدار ترقی، سماجی انصاف، صحت، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی شعبوں میں واضح وژن اور تسلسل نہیں۔ پالیسیاں یا تو وقتی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں یا مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔

پاکستان کا معیشتی ماڈل قرضوں، درآمدات اور سبسڈی پر مبنی ہے۔ برآمدات محدود، پیداوار کم، کرنسی غیر مستحکم اور صنعتی خود کفالت کا شدید فقدان ہے۔ ہم ابھی تک معاشی خود انحصاری کی ابتدائی سطح پر بھی نہیں پہنچے۔


نتیجہ: ہم کس مرحلے میں ہیں؟

اگر ہم مغربی ترقی کے درج بالا ان چار مراحل کو معیار بنائیں تو پاکستان فی الحال ارتقائی مرحلے اور پیش رفت کے مرحلے کے درمیانی خلا میں معلق ہے۔ نہ مکمل فکری آزادی ہے، نہ علمی تحقیق کا مزاج، نہ صنعتی خود کفالت اور نہ معاشی طاقت۔ قوم کا بڑا طبقہ معاشی، تعلیمی، فکری اور ثقافتی پسماندگی کا شکار ہے۔ ریاستی ادارے کمزور، پالیسیاں غیر مستقل، اور سیاسی نظام غیر مستحکم ہیں۔

مختصراً

پاکستان اس وقت اس مقام پر کھڑا ہے جہاں مغرب اٹھارویں اور انیسویں صدی کے درمیانی دور میں تھا۔ ہمیں ابھی بہت سے بنیادی سبق سیکھنے ہیں، سماجی شعور بیدار کرنا ہے، تعلیم کو حقیقی ترجیح بنانا ہے اور معیشت کو پائیدار خطوط پر استوار کرنا ہے۔

فکری و سائنسی سطح

مملکت خداداد پاکستان میں تحقیق کے لئے جی ڈی پی کا صرف صفر اعشاریہ تین فیصد مختص کیا جاتا ہے۔ جامعات میں تحقیقی رجحان محدود اور غیر مؤثر ہے، جبکہ نصاب میں تنقیدی و اختراعی فکر کی تربیت کمزور ہے۔تحقیقی مقالہ جات، پیٹنٹس، اور جدت کا گراف نہایت کم ہے۔ نظامِ تعلیم روایتی ہے، جس میں تحقیق اور تخلیق کو کم اہمیت حاصل ہے۔

صنعتی و ادارہ جاتی سطح

صنعتی پیداوار قومی معیشت میں اٹھارہ فیصد سے کم ہے۔جبکہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہ 30% سے زیادہ ہے۔ توانائی، ٹرانسپورٹ، اور انفرااسٹرکچر میں دیرینہ بحران، پالیسیوں کا غیر تسلسل، انفراسٹرکچر میں ناکافی سرمایہ کاری، اور ادارہ جاتی ناکارکردگی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

ترقیاتی اشاریے

انسانی ترقیاتی انڈیکس میں پاکستان کا درجہ ایک سو چونٹھ ہے، جو کہ کم تر ممالک کے برابر ہے۔ تعلیم، صحت اور آمدنی کے شعبے مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ جو دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع غیر متوازن ہیں۔

معاشی پوزیشن

معیشت مسلسل قرضوں، تجارتی خسارے، درآمدی انحصار، اور مہنگائی کے بحران کا شکار ہے۔ برآمدات محدود، اور پیداواری بنیادیں کمزور ہیں۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جبکہ برآمدات محدود ہیں۔ 2024 میں کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ اور مہنگائی کی شرح 25% سے تجاوز کر چکی ہے۔

عالمی تقابل: جدول

مرحلہترقی یافتہ اقوامپاکستان
ارتقائی
Evolution
اٹھارہویں صدیاب بھی جاری
پیش رفت
Progress
انیسویں صدیابتدائی سطح پر
ترقی
Development
بیسویں صدیجزوی کوشش
معاشی قوت
Economy
اکیسویں صدیابھی دور ہے

علمی مکالمہ اور سفارشات

اگر ہم واقعی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں درج ذیل اقدامات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا

  • سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کی اولین ترجیح
  • نظامِ تعلیم میں انقلابی اصلاحات
  • صنعتی و زرعی خود کفالت کی منصوبہ بندی
  • معاشی ماڈل کو درآمدات سے برآمدات کی طرف منتقل کرنا
  • قانون کی بالادستی، ادارہ جاتی اصلاحات اور احتساب کا نظام

پاکستان کو اگر عالمی ترقی کی دوڑ میں شریک ہونا ہے تو اسے پہلے فکری، تعلیمی اور ادارہ جاتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ترقی کوئی درآمدی شے نہیں بلکہ اندرونی فکری تبدیلی کا نام ہے۔ قوموں کی تشکیل نو کتابوں، مشینوں یا قرضوں سے نہیں بلکہ اخلاقی اور فکری قیادت، انصاف، میرٹ اور ادارہ جاتی استحکام سے ہوتی ہے۔ اگر ترقی کو صرف مادی پیمانے سے نہیں بلکہ علمی، فکری، معاشرتی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر ناپا جائے، تو پاکستان نہ صرف پیچھے ہے بلکہ فکری طور پر ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ہمیں شعور، تحقیق، اور ریاستی وژن کی سطح پر “Enlightenment” کی ضرورت ہے۔

اصلاحی اقدامات

تعلیم و تحقیق کو قومی ترجیح بنایا جائے۔ قومی صنعت کو پائیدار حکمت عملی کےتحت ترقی دی جائے۔ اداروں میں شفافیت اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے۔ قومی تدبر و بصیرت اور حکمت عملی میں تسلسل برقرار رکھا جائے۔ قلیل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دی جائے۔ موجودہ عالمی تناظر اور معروضی حالات کے پیش نظر امن امان کی صورتحال کو ترجیحیی بنیادوں پر منظم و مضبوط کیا جائے۔۔سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن اصلاحات اقدامات کئے جائیں۔

ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ قوموں کو ارتقاء، پیش رفت، ترقی اور مضبوط معیشت جیسے مراحل سے صبر، عزم، قربانی اور دانشمندی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم آج بھی بیدار نہ ہوئے تو کل بھی ہمارا ماضی آج جیسا ہی ہو گا — ایک کھویا ہوا موقع، ایک ماندہ خواب۔

وللہ اعلم بالصواب۔ رشید احمد گبارو

حوالہ جات (References)

  1. United Nations Development Programme (2023). Human Development Report.
  2. UNESCO Science Report (2022).
  3. Pakistan Economic Survey 2023-24.
  4. Huntington, Samuel P. (1968). Political Order in Changing Societies.
  5. Giddens, Anthony. (1990). The Consequences of Modernity.
  6. Amartya Sen (1999). Development as Freedom.
  7. Fukuyama, Francis (2004). State-Building: Governance and World Order in the 21st Century

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

August 2025
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031
« Jul    
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb