
تمہید؛۔۔۔—- اسلام محض چند انفرادی عبادات کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی انفرادی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی زندگی کے تمام شعبہ جات کو منظم کرتا ہے۔ اس مکمل نظام کے قیام اور تنفیذ کو “اقامتِ دین” کہا جاتا ہے، جو اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ رسولﷺ میں بار بار اس فریضہ کو ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور تاریخِ اسلام اس امر کی شاہد ہے کہ صحابہ کرام، تابعین، مجاہدینِ اسلام، اور علمائے حق نے ہر دور میں اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اپنی جان و مال، عزت و اقتدار، حتیٰ کہ جانوں کی قربانی بھی پیش کی۔اسلام صرف ایک روحانی یا شخصی مذہب نہیں بلکہ ایک کامل نظامِ حیات ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ قرآنِ مجید نے اقامتِ دین ،یعنی دین کے عملی نظام کو قائم کرنے کو، ایک مستقل فریضہ قرار دیا ہے، جو نہ صرف عبادات، اخلاق اور عقائد کو شامل کرتا ہے بلکہ سیاست، عدل، معیشت، اور سماجی نظام کو بھی اپنے دائرے میں لیتا ہے۔ اس جامع مضمون میں ہم اقامتِ دین کے قرآنی اور عملی اساسیات، آثارِ صحابہ، مجاہدین و علماء حق کا تسلسل، فرقہ واریت کی رکاوٹ، اور جدید دور میں اس تصور کی تعبیر پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
اسلام کا بنیادی مقصد “اقامت دین” یعنی دین کے نظام کو زندگی کے تمام شعبوں پر قائم و نافذ کرنا ہے۔ عصرِ حاضر میں جب سیکولرزم، لبرل ازم، اور مادیت پرستی کا سیلاب ہر طرف چھایا ہوا ہے، اقامتِ دین کی دعوت ایک چیلنج اور آزمائش بن چکی ہے۔
جدید دنیا میں اقامت دین کی فکری و عملی تعبیر کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں، اور مسلم دنیا میں اس کے نفاذ کی راہیں کیا ہو سکتی ہیں۔
اسلام دینِ وحدت ہے، جو انسانیت کو ایک اللہ، ایک رسول ﷺ، ایک کتاب اور ایک امت میں جوڑتا ہے۔ مگر آج مسلم دنیا انتشار کا شکار ہے، اور اس انتشار کی سب سے مہلک صورت فرقہ واریت ہے، جس نے امت کو فکری، اعتقادی اور عملی لحاظ سے ٹکڑوں میں بانٹ کر اقامتِ دین جیسے عظیم فریضے کو معطل کر دیا ہے۔
زیر نظر مضمون اسی المیے کا تفصیلی جائزہ ہے، فرقہ واریت کا مفہوم، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مذمت، صحابہ کا طریقہ، تاریخی اسباب، موجودہ صورتحال اور اقامت دین کی راہ میں اس کی رکاوٹیں۔
اسلامی تاریخ شہادت، قربانی اور دعوت و جہاد سے مزین ہے۔ اگرچہ اقامتِ دین کا حکم قرآن کریم کی بنیادی ہدایات میں شامل ہے، لیکن اسلام کے عملی نفاذ کے لیے جو جماعتیں سب سے آگے رہی ہیں، وہ مجاہدین اسلام، علماء ربانیین، اور فقہائے حق کا طبقہ ہے۔انہوں نے دین کو محض خانقاہ یا مدرسے کی چار دیواری تک محدود نہ رکھا بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اس کے نفاذ اور غلبے کے لیے جدوجہد کی۔ یہ مضمون ایسے ہی کرداروں کی ایک تاریخی دستاویز ہے جو امت کے لیے چراغِ راہ ہیں۔
اسلامی تاریخ میں عدل و قسط کے قیام کے لیے اٹھنے والے اہلِ حق کو ہمیشہ باطل طاقتوں کی طرف سے ظلم، قید، اور قتل کا سامنا رہا۔ وہ لوگ جو محض اللہ کی شریعت کو غالب کرنا چاہتے تھے، معاشرے میں عدل کا بول بالا اور ظلم کا خاتمہ چاہتے تھے—انہیں فتنہ پرور، باغی، اور مجرم ٹھہرایا گیا۔یہ مضمون انہی مظلوم مگر باعزم افراد کے بارے میں ہے، جنہوں نے عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کی، اور نتیجتاً اپنی جان کی بازی لگا دی۔
اقامتِ دین یعنی دین کے مکمل نظام کو زندگی میں قائم کرنا ہر دور میں اہلِ ایمان کا فریضہ رہا ہے، لیکن جدید دور میں یہ فریضہ کئی رکاوٹوں، فکری انحرافات، اور سیاسی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکا ہے۔آج کے دور میں اقامتِ دین کو یا تو محض انفرادی اصلاح تک محدود کر دیا گیا ہے، یا اسے شدت پسندانہ مزاحمت کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے، جس سے اس عظیم قرآنی فریضے کی جامعیت، اعتدال، اور مقصدیت دھندلا چکی ہے۔
اقامتِ دین کا حقیقی نمونہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرامؓ کی عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ صحابہ کرام وہ نفوسِ قدسیہ تھے جنہوں نے وحی کے سائے میں پرورش پائی، براہِ راست رسول ﷺ سے دین سیکھا، اور اس کو دنیا کے سامنے ایک زندہ و تابندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ اقامتِ دین یعنی دین کو اجتماعی، سیاسی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی نظام کے طور پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد صحابہ کی زندگیوں کا مرکزی عنوان تھی۔
ا…اقامتِ دین۔ قرآنی اور عملی بنیادیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:حسبى اللّٰهُ لا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ…سورہ التوبہ.. ١٢٩…اسلام صرف عقیدے کا نام نہیں بلکہ ایک عملی نظام ہے، جس کی اقامت کا مطالبہ قرآن بار بار کرتا ہے:الذينَ إِن مَكَّنّٰهُم فِي الأرضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الأُمورِ۔ الحج۔٤١۔ اقامت دین کی بنیاد اللہ کی حاکمیت و ربوبیت کو تسلیم کرنا۔ انسانی زندگی میں شریعتِ الٰہی کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا۔ باطل نظاموں کا انکار اور حق کے نظام کا قیام۔۔ اقامت دین کی قرآنی بنیادیں قرآن مجید نے اقامتِ دین کو محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے اجتماعی اور ریاستی ذمہ داری قرار دیا۔۔ وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔ آل عمران ..١٠٤۔۔ اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ یہ آیت اقامت دین کے لیے منظم جماعت کی تشکیل کا حکم ہے۔ مزید برآں، سورۂ توبہ کی آیات میں قتال (جہاد) کو اقامت دین کا ذریعہ بتایا گیا۔ قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ … وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ۔ التوبہ . ٢٩…. ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور دینِ حق کو قبول نہیں کرتے۔ یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اقامت دین صرف دعوت یا وعظ تک محدود نہیں بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ دین حق کو عملاً غالب کیا جائے۔
٢…. آثارِ صحابہ۔ اقامت دین کے عملی نمونے
اقامتِ دین: صحابہ کی زندگی کا مرکز و محورصحابہ کرام کا ایمان کسی نجی عبادت یا انفرادی نجات تک محدود نہ تھا، بلکہ ان کی زندگی کا محور لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ …الحدید. ٢٥ تھا—یعنی عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا۔ انہوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کی، اور اسی راہ میں ہجرت، قربانیاں، جہاد، اور حتیٰ کہ جانوں کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کیا۔خلفائے راشدین کا عملی اسوہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ اول کی حیثیت سے سب سے پہلے ان کا اقدام ارتداد اور منکرینِ زکوة کے خلاف اعلانِ جہاد تھا۔ انہوں نے فرمایا.. واللہ! اگر وہ اونٹ کی رسی بھی روکیں گے جو رسول ﷺ کے زمانے میں دیتے تھے، تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ صحیح بخاری.. یہ اقامت دین کے اصولی تحفظ کی علامت تھی کہ دین کا ایک بھی جزو ترک نہ ہونے پائے۔حضرت عمر بن خطابؓ اپنے دورِ خلافت میں عدل، مشاورت، نظمِ حکومت اور حدود اللہ کے قیام کو باقاعدہ ادارتی شکل دی۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں انہی کی قیادت میں زیر ہوئیں۔حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن کریم کی واحد مستند قرأت کے ذریعے دین کی تحریف سے حفاظت کی۔ خلافت کے نظم کو وسعت دی، بحری بیڑہ قائم کیا، اسلامی فتوحات کو آگے بڑھایا۔حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دورِ فتن میں دین کی اصل روح کو بچانے کے لیے باطل قوتوں کے خلاف قیام کیا، اور اصول و اخلاق کی جنگ لڑی۔خلفائے راشدین و صحابہ۔۔۔ اقامت دین کی پہلی جماعت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین زکوٰۃ سے قتال کیاحضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی عدل و قانون کا پہلا باقاعدہ نظام نافذ کیا۔۔ حضرت علیؓ المرتضى امت کے انتشار میں بھی اقامت حق کی علامت بنے۔۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ، ان حضرات نے دین کو نظامِ عدل و سیاست کے طور پر نافذ کیا، نہ کہ محض ذاتی عبادت۔فاتحین صحابہ اقامت دین کی عالمی توسیع ۔۔۔ حضرت خالد بن ولیدؓ، سیف اللہ کہلائے۔ روم و فارس کی فوجوں کے خلاف عظیم فتوحات حاصل کیں۔ اقامتِ دین کے لیے ان کی شمشیر ہمیشہ میدان میں رہی۔حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر کو فتح کیا اور اس خطہ میں اسلامی حکومت کا نظام قائم کیا، جس نے بعد ازاں دنیا میں علوم و تمدن کی عظیم روایات کو جنم دیا۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، ایران کا مشہور معرکہ قادسیہ انہی کی قیادت میں ہوا۔ مدائن اور تیسفون فتح کر کے اسلامی ریاست کو فارس تک وسعت دی۔سعد بن ابی وقاصؓ — فاتحِ قادسیہ ایران کو فتح کرکے وہاں اقامتِ دین کی بنیاد رکھی۔ ان کے ذریعے اسلامی عدل و قانون وہاں قائم ہوا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اقامت دین کے فریضے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ ان کی جدوجہد نہ صرف تبلیغی تھی بلکہ نظامِ جاہلیت کے خلاف عملی اقدام پر بھی مشتمل تھی۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایران کی سلطنت کو عدل و توحید کے پیغام سے بدل دیا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر کو ظلم و کفر سے نکال کر اسلام کے نظام کے تابع کیا۔ امین الامت حضرات ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے شام میں اسلامی حکومت قائم کر کے اقامت دین کی روشن مثال قائم کی۔ سیدین السعیدین الشباب اہل الجنہ حسنین کریمینؓ کی قربانیاں، خصوصاً امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت، اقامتِ دین کی وہ روشن مثال ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
٣… مجاہدین اسلام اور اکابر علمائے و فقہاء حق کا کردار
اقامت دین کی جدوجہد میں علماء و مجاہدین کی تاریخ ساز خدمات ۔صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین، مجاہدین اور علمائے حق نے اقامت دین کا سلسلہ جاری رکھا۔ سیدنا زید بن علیؒ نے اموی سلطنت کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ سیدنا محمد نفسِ زکیہؒ نے عباسی خلفاء کی بے دینی و ظلم کے خلاف مدینہ میں جہاد کیا۔امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہاء امت محمدیہ نے حاکموں کے ظلم کے باوجود حق کا علم بلند رکھا۔ اکابر علمائے دیوبند، اہل حدیث، بریلوی اور دیگر مکاتب فکر کے علماء نے دین کے تحفظ اور اقامت کے لیے قربانیاں دیں۔ مجاہدین و علمائے ربانیین، اقامت دین کے علمبردار طبقہ اسلام صرف عقائد یا عبادات کا نام نہیں، بلکہ ایک نظامِ حیات ہے۔ اس نظام کے نفاذ کے لیے ہر دور میں اللہ نے ایسے مجاہدین و علماء پیدا کیے جنہوں نے:باطل نظاموں سے ٹکر لی عوام الناس میں دینی شعور بیدار کیا اپنے علم کو صرف “قال و قیل” نہیں بلکہ “عمل و قتال” کا ذریعہ بنایاقرآن کریم۔۔۔ وَلَيَنصُرَنَّ اللّٰهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ الحج۔ ٤٠۔ ترجمہ۔ اللہ ضرور اُن کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں، بیشک اللہ قوی اور غالب ہے۔ بنو امیہ و عباسی ادوار کے علماء و مجاہدین، امام ابو حنیفہ… نے ظالم حکمرانوں کی بیعت سے انکار کیاقید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔۔ امام مالکؒ نے ۔۔۔ طلاق مکرہ، یعنی زبردستی طلاق کا مسئلہ ۔۔ جیسا فتویٰ دے کر حکمرانوں کے غلط فیصلے پر جرأت کی۔۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فتنہ خلق قرآن میں کوڑے کھائے، مگر باطل کے آگے نہ جھکے نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ، علمائے حق کا یہ طبقہ تلوار سے نہیں بلکہ علم و عمل، استقلال و استقامت سے اقامت دین کا عملی مظہر بنا۔۔ مجاہدین اسلام، شمشیر و علم کے وارث ، صلاح الدین ایوبیؒ نے نہ صرف بیت المقدس آزاد کرایا بلکہ اسلامی عدل کو فروغ دیاعلماء، قضاۃ اور محتسبین کی سرپرستی کی ۔۔ نور الدین زنگیؒ نے اقامت عدل، اور نظام قضا کے اصلاحی اقدامات منبرِ اقصیٰ بنوایا تاکہ یروشلم کی بازیابی کی یاد قائم رہے۔۔۔ امیر تیمورؒ نے فاسق حکمرانوں، غیر اسلامی بادشاہتوں کے خلاف خروج کیا مدارس، مساجد، اور اسلامی حکومت کو فروغ دیا۔۔۔ برصغیر کے علمائے حق نے فتنہ استبداد و استعمار کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے مغل شہنشاہ اکبر کے دین الہٰی کو للکارا ۔ اکبر کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں جھکنے سے انکار کیا۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسلامی خلافت و سیاست کی بحالی کا فلسفہ مغل زوال کے دور میں جہاد کا فکری مقدمہ تیار کیا۔۔ سید احمد شہیدؒ و شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سکھوں کے خلاف مسلح جہاد، اسلامی حکومت کے قیام کی عملی کوشش ، توحید اور اتباع سنت، کا انقلابی پیغام دیا ۔علمائے دیوبند نے 1857 کی جنگ آزادی، تحریک ریشمی رومال مدارس کے ذریعہ فکری و دینی مزاحمت کی۔۔ مولانا مودودیؒ نے اقامت دین کو جدید علمی، سیاسی اور دستوری زبان دی”تحریک اسلامی” کا فکری خاکہ پیش کیا اقامت دین کے حق میں ان علماء کا مشترکہ منہج نظامِ باطل سے براءت اسلامی حکومت کے قیام پر زور تعلیم، دعوت، اور سیاست کو دین کے تابع کرنے کی کوشش کتاب و سنت، اجماعِ صحابہ، اور تعاملِ امت کی روشنی میں تحریکات برپا کرنا ۔۔۔۔۔اقامت دین کا فریضہ علماء اور مجاہدین کی وراثت ہے ، اقامت دین صرف قاضی یا خلیفہ کا کام نہیں ہر صاحب علم، بصیرت اور غیرت مند فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ فکری جہاد کرے دعوتی و تعلیمی کوشش کرے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اگر موقع ہو تو سیاسی اور عملی اقدام بھی کرے۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ، علمائے ربانی، مجددین، فقہائے دین اور مجاہدین اسلام نے ہمیں بتا دیا کہ دین کا غلبہ صرف اقوال یا خطبات سے نہیں آتا، بلکہ علم، عمل، قربانی، قیادت اور حکمت عملی سے ممکن ہے۔آج اقامت دین کے خواہاں افراد کو انہی کے راستے پر چلنا ہوگا: اتحاد، اخلاص، جرأت، استقامت اور قربانی کا راستہ۔
٤… عدل و انصاف کے قیام اور اہلِ قسط کا قتل
قرآن کی رو سے:“وَالَّذِينَ قُتِلُوٌا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ” ترجمة، جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردئے جاتے ہیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔۔سورہ۔محمد آیت ٤۔۔۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اقامت دین اور عدل و قسط کے قیام کے لئے نکلے، انہیں ظالم حکمرانوں نے شہید کر دیا۔۔ سیدنا امام حسینؓ کی شہادت حضرت زید بن علیؒ اور حضرت نفس زکیہؒ کا قتل، امام احمد بن حنبلؒ پر کوڑوں کی بارش، امام ابو حنیفہ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اقامت دین کی راہ میں جان دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ قرآنی اصول کے تحت عدل و قسط کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا فرمان ، ۔۔۔إِنَّ اللّٰهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤدُّوا الأَماناتِ إِلىٰ أَهلِها ۖ وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ…۔۔۔ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل سے فیصلہ کرو. سورہالنساءآیت ٥٨…..۔ اسلام میں عدل محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ریاست و معاشرے کا بنیادی ستون ہے۔ مگر تاریخ میں بارہا عدل کے داعی کو فتنہ گر اور قسط کے قائم کرنے والے کو مفسد قرار دیا گیا۔ حق کے داعیوں پر خروج کا الزام ، حق کی دعوت جب طاقتور ظالم نظام کے مقابل آتی ہے، تو حکمران اُسے دین کا انکار نہیں بلکہ اقتدار کا چیلنج سمجھتے ہیں۔ یوں دین پر عمل کو بغاوت قرار دیا جاتا ہےحق گو کو فتنہ پرداز اور غدار کہا جاتا ہےاصلاح کی کوشش کو خروج اور مفسد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔ جو اللہ کے بندے عدل کا قیام چاہتے ہیں، وہ باطل کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں۔۔۔حضرت امام حسینؓ کا کردار۔۔۔ عدل کی خاطر شہادت کا جامع پی لیا اور یزید کی بے انصافی و ظلم کے خلاف قیام ، خلافت کو وراثت بنانے کے خلاف احتجاج مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا تک کا سفر عدل و انصاف تک رسائی اور دین کی سربلندی کے لئے تھا۔۔شہید کربلا کا پیغام۔۔۔ میں خروج اس لیے کر رہا ہوں تاکہ امت کو رسول اللہ ﷺ کے دین پر واپس لاؤں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں گا نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ حق کے قیام کی پاداش میں شہادت اور خاندانِ نبوت کی قربانی تاریخ کی ابدی حقیقت بن گئی۔ اہلِ قسط کا قتل،۔۔۔ تاریخ کی تکرار۔۔۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی مکہ مکرمہ میں اسلامی خلافت کی کوشش کی اور حجاج بن یوسف کے ظلم سے شہادت کا جام نوش فرمایا ۔۔۔۔ امام زید بن علیؒ کی خلافتِ امیہ کی ناانصافی کے خلاف خروج اور اس کی پاداش میں شہادت اور سر کو کوفہ کی گلیوں میں لٹکایا گیا۔۔۔ علماء حنفیہ و مالکیہ۔۔۔جابر حکمرانوں کی بیعت سے انکارپر قید، کوڑے، اور قتل کے واقعات۔۔۔ امام نوویؒ، امام ابن تیمیہؒ کی ظلم کے خلاف فتویٰ و تحریر، قید و بند اور جلا وطنی۔۔۔ برصغیر میں قسط کے داعی ۔۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد بریلوی نے توحید، سنت، اور عدل کا پرچم بلند کیا ،سکھ استبداد کے خلاف جہاد کیا اور بالاکوٹ میں شہادت پائی ۔۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ۔۔خلافت اور عدل اسلامی کا داعی جلا وطنی، قید و مشقت، مگر فکر پر قائم ، تحریک خلافت و جنگ آزادی ، عدل کی بحالی، استعمار کے خلاف اتحاد، قید و شہادت ،جدید دور میں خروج برحق اور ظالم نظام کی طرف سے ظلم ۔ مسلم دنیا میں۔۔۔ عرب میں علماء و مصلحین کا قتل مصر، شام، اور فلسطین میں عدل کے داعیوں پر پابندیاں کشمیر و افغانستان میں مزاحمت کرنے والوں پر دہشت گردی کے الزامات۔ ۔ یہ قربانیاں پیغام دیتی ہیں کہ اسلامی عدل و قسط کو نافذ کرنا ایک قانونی جنگ سے زیادہ، اخلاقی و دینی فریضہ ہے، جس کی راہ میں قربانیاں ناگزیر ہیں۔ عدل و قسط کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں قدرتی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ اہل حق قتل ہوتے رہے، مگر ان کا پیغام زندہ رہا اقامت دین اور عدل کی جدوجہد کو آج بھی زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرہ اگر خاموش رہے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے۔۔ عدل و قسط کا قیام انبیاء، صحابہ، اور علماء کا مشترکہ مشن ہے۔ اس راہ میں قتل، قید، اور الزام جیسے مراحل آتے ہیں، لیکن یہی قربانیاں قوموں کی تقدیر بدلتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم تاریخ کے ان درخشاں نقوش کو مشعلِ راہ بنائیں اور ظلم کے نظام کو عدل کے نظام میں بدلنے کی کوشش کریں۔
٥…. فرقہ واریت، اقامت دین کی سب سے بڑی رکاوٹ
فرقہ واریت دین اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرتی آرہی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔۔۔إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ۔۔ یفعلون — سورہ الأنعام ۔١٥٩ … ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ ہو گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، پھر ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے۔۔۔۔۔— فرقہ واریت کی وجوہات..— اصول دین میں اختلافات صحابہ کے تعامل سے انحراف خواہشات اور سیاسی مفادات کو دین کا رنگ دینا ..— اسلام کا پیغام ہے کہ اتحاد، اجتماعیت اور صراطِ مستقیم پر استقامت ۔۔ کتاب و سنت کی اصل تعبیر۔۔—- تفسیراتِ صحابہ اور اجماعِ امت۔ قرآنی تنبیہات، تاریخی حقائق، اور موجودہ دور کی تقسیم۔ فرقہ واریت۔۔۔۔— دین میں تفرقہ ڈالنے والوں سے رسول اللہ ﷺ بیزار ہیں۔یہ تفرقہ وہ ہے جو اصول دین میں کیا جائے، یعنی ایمان، توحید، رسالت، اور آخرت جیسے بنیادی عقائد میں۔فرقہ واریت کی قرآن و سنت میں شدید وعید آئی ہے ..— سورۃ آل عمران، آیت ١٩ میں اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔ إنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔۔۔—ترجمہ، بیشک اللہ کے نزدیک (معتبر) دین اسلام ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے آپس کی ضد و حسد سے، علم آنے کے بعد اختلاف کیا، اور جو اللہ کی آیات کا انکار کرے تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔—–سورہ روم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔—مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا…الروم.آیت ٣٢…— فرقہ بندی اقامتِ دین کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن فرقہ واریت کو دین سے انحراف قرار دیتا ہے۔ کہ جو لوگ اصولِ دین میں پھوٹ ڈالیں اور فرقے بن جائیں، وہ اس دین کا حصہ نہیں رہے جس کے داعی نبی کریمﷺ تھے۔۔۔۔—تفسیر مظہری ۔۔تشریح۔ جمہور صحابہ کرام کے منہج سے ہٹ کر قرآن و سنت کی تاویلات کرنا فرقہ واریت کی بنیاد ہے۔ اختلاف فروع میں ہو سکتا ہے، اصول میں نہیں۔ یہی فرقہ واریت ملتِ اسلامیہ کو کمزور کر چکی ہے اور غلبہ دین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔فرقہ بندی محض جہالت نہیں، بلکہ علم رکھنے کے باوجود ضد اور بغض کی پیداوار ہے۔یہ اختلاف عقیدہ اور غلبۂ دین کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔فرقہ واریت کا آغاز۔۔۔— علمی و سیاسی انحراف خلفائے راشدین کا دور۔۔۔— پوری امت ایک مرکز پر جمع تھی اصول دین، حکومت، قضاء، تعلیم، اور جہاد سب ایک مرکز سے چلتے تھے۔ بعد ازاں خلافت ، ملوکیت میں بدلی اور سیاسی و قبائلی مفادات غالب آئے۔ اصول دین میں مناظرانہ اختلافات پیدا ہوئےاعتقادی فرقے (خوارج، قدریہ، مرجئہ، رافضیہ اور ناصبی ، معتزلہ وغیرہ) ابھرنے لگے۔۔ صحابہ کرامؓ کا منہج۔۔۔—- تفرقہ سے بچاؤ کی عملی مثال—ما أنا عليه وأصحابي — وہی راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں—۔۔ حدیث افتراق امت۔۔۔—صحابہ کرامؓ نے قرآن و سنت کو اجتماعی فہم کے تحت سمجھا ، اختلافِ رائے تھا، مگر اصول دین میں کوئی تفریق نہ تھی ان کا تعامل (عملی اتفاق) ہی دین کا معیار ٹھہرا۔ فرقہ واریت اس وقت پیدا ہوئی جب جمہور صحابہؓ کی تفسیر، تعامل اور فہم کو چھوڑ کر ہر فرقہ نے اپنی بات کو حقیقی دین قرار دینا شروع کیا۔ اور اسی میں خوش ہوئے—-موجودہ دور میں فرقہ واریت کی خطرناک شکل اور فکری تقسیم۔۔—ایک فرقہ دوسرے کو کافر، بدعتی، یا گمراہ سمجھتا ہےدعوت، اصلاح اور اقامت دین کی تحریکیں بکھر گئیں۔۔۔— عملی تقسیم۔۔— اتحاد امت کی بجائے گروہی رسومات، مخصوص میلاد، مجالس، اور جلسے دین کا مزاج قبائلی سیاسی پارٹیوں جیسا ہو گیا۔۔ مساجد، مدارس، اور خانقاہیں بھی گروہی نشانیاں کہ یہ فلاں فرقہ کی مسجد ہے، اتحاد کی بجائے پہچان کی علامت بن گئیں ۔ اقامت دین پر فرقہ واریت کا عملی اثر دین کی اجتماعی دعوت غیر مؤثر ہو گئی ۔ حکمرانی، معیشت، اور قانون سازی میں دین کا غلبہ مقصد نہیں رہا، ہر فرقہ اپنے جزوی مسائل میں الجھ کر اقامت دین کو بھول گیا المختصر اقامت دین ایک اجتماعی فریضہ ہے، اور فرقہ واریت اجتماعیت کو ختم کر کے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔۔۔۔—علاج اور راہِ نجات،۔۔۔— فکری اتحاد، کتاب و سنت، اور تعامل صحابہؓ۔ الف۔ اصول دین میں وحدت پر زور ۔ ۔—-توحید، رسالت، آخرت، قرآن، سنت – ان میں کوئی اختلاف نہ ہو جمہور صحابہ کا منہج معیار ہو۔ ب۔ فروعات میں وسعت۔۔۔— ائمہ دین، محدثین، فقہاء کا اختلاف دلیل و حکمت پر تھا ان کو فرقہ نہ بنایا جائے ۔۔— ج، دعوتِ اقامت دین کو مرکز بنایا جائے۔۔–”فقہی و کلامی بحثوں کی بجائے نظامِ دین کی بحالی پر زور ہو سیاسی، تعلیمی، معاشی میدانوں میں اتحاد عمل ہو۔۔۔ اتحاد، اقامت دین کی بنیاد ہے، امت کا اصل زوال اس وقت شروع ہوا جب اس نے اصول دین میں اختلافات پیدا کر لئے اور جمہور امت، صحابہ اور سلف کے منہج کو چھوڑ دیا۔ فرقہ واریت نہ صرف فکری گمراہی ہے بلکہ اقامت دین کی راہ میں شیطانی رکاوٹ ہے، جس سے نجات پانا ہر اہل حق کی شرعی اور تاریخی ذمہ داری ہے۔
٦… سورہ العصر کی روشنی میں اقامت دین کا منہج۔وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ ترجمہ۔ زمانے کی قسم۔بیشک انسان ضرور خسارے میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔۔۔۔—- یہ سورت اقامت دین کا جامع منہج پیش کرتی ہے۔۔۔— ایمان عمل صالح، حق کی دعوت اور صبر و استقامت ہی چار عناصر اقامت دین کے ستون ہیں۔۔۔—۔یہ سورت اقامتِ دین کی چاروں بنیادی شرائط کو سمیٹتی ہے۔ ایمان دینی نظریہ، عمل صالح، انفرادی و اجتماعی نیکی ، تواصی بالحق۔ سچائی اور دین حق کی دعوت تواصی بالصبر، مزاحمت، استقامت اور قربانی۔۔۔—-
٧… جدید دور میں اقامت دین کی تعبیر
اقامت دین کی قرآنی تعبیر ۔ وقت سے ماورا فریضہ
وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰى أَمْرِه، وَلٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ..— یوسف۔۔ آیت ۔٢١
ترجمہ: اللہ اپنے حکم پر غالب ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔
اقامت دین آج بھی ایک زندہ فریضہ ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ فکری طور پر قرآن و سنت پر مبنی ہے، عملی طور پر صحابہ کرام، اہلِ بیت العظام اور مجاہدین کے راستے پر، اور حکمت کے ساتھ موجودہ حالات میں ایک متوازن، پُرعزم اور تعمیری جدوجہد کا نام ہے۔
حاصل کلام۔۔۔— اقامت دین وقت کی ضرورت بھی ہے، امت کا مشن بھی—-
لہذا دین کی جامعیت کو پیش کریں۔۔
فرقہ واریت سے دور رہ کر اتحاد پر کام کریں۔۔۔
آن لائن دعوتی مواد تخلیق کریں۔۔۔۔
خود تعلیم یافتہ بنیں اور دین کا علم سیکھیں۔۔۔
عملی نکات.
کردار سازی، مہارت اور دعوت کا امتزاج کو اپنا شعار بنائیں۔۔
فکری غلامی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔۔
جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو فکری بیداری کی تعلیم دیں۔
اقامت دین اور مسلم نوجوان…. امید کا سرچشمہ ہے۔۔۔
طاغوتی طاقتوں کے خلاف عملی مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔۔
اسلامی آئین، نظامِ حکومت، دعوتی نظم پیدا کریں ۔۔
اقامت دین کے لئے تعلیمی، دعوتی اور سیاسی میدان میں کام کریں …
تفرقہ بازی سے پرہیز کریں۔۔
اسلامی تنظیمی ڈھانچے
زکوٰۃ و وقف کے جدید ادارے قائم ہوں۔
اسلامی مالیاتی نظام کی ترویج ہو۔۔
سود سے پاک بینکنگ کا نظام متعارف ہو۔۔
اسلامی معیشت کا قیام کو لازمی جز بنائیں۔
فکری رہنمائی کے لئے مؤثر بیانیہ کو تشکیل دیں۔۔
ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو دعوت الی اللہ کا ذریعہ بنائیں۔۔
جدید علوم کے ساتھ فقہی و شرعی شعور کو بیدار رکھیں۔
تعلیم و تربیت کی اسلامی تشکیل کے لئے اسلامک ورلڈ ویو پر مبنی نصاب متعارف کرائیں۔۔
جدید تناظر میں اقامت دین کے لئے مؤثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کریں۔۔
آپس میں مشاورت، شفاف حکومت، بیت المال، عدالتی نظام، دعوت و تبلیغ دین کو فروغ دیں۔
قانون سازی اور نظامِ زندگی میں صرف شریعت کی اطاعت کریں۔
اللہ تعالٰی ہی کو حاکمِ اعلیٰ مانیں ۔۔
توحید پر راسخ العقیدہ اور غیر متزلزل ایمان رکھیں۔۔
اقامتِ دین کی فکری بنیادیں، عصرِ جدید کی روشنی میں رکھیں۔
اقامت دین کا میدان صرف منبر و محراب پر ہی نہ چھوڑیں، بلکہ میڈیا، یونیورسٹیاں، معیشت اور قانون سازی کے اداروں کو بھی شامل کریں۔
منفی پیغام۔ جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے!
اسلامی نظام کو بنیاد پرست اور شدت پسند لوگوں سے دور رکھیں۔۔
مغربی اقدار کے فروغ سے اجتناب کریں۔۔
استحصالی مالیاتی ادارے جو اسلامی اصولوں سے متصادم ہیں کے قرضوں سے بچیں۔۔
سودی نظام کے غلبے سے بچیں۔۔
دین کو نجی یا ذاتی معاملہ قرار دینے سے احتراز کریں۔۔
سیکولر نظام کی حوصلہ شکنی کرنے والی حکمت عملی اپنائیں۔۔
جدید چیلنجز اور اقامتِ دین کے لیے بدلتا ہوا میدان!
اسلامی اصولوں کا غلبہ ہی اقامتِ دین ہے۔ معیشت سے لے کر سیاست تک، تعلیمی نظام سے لے کر عدلیہ تک،
مندرجہ ذیل آیت کریمہ ہر دور میں مسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کامل نظام ہے جسے غالب آنا ہے۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ۔ سورہ۔۔ الفتح
ترجمہ، وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کرے۔
آج اقامت دین کی کوششوں کو درج ذیل صورتوں میں بروئے کار لانا ضروری ہے۔۔۔—- دعوت و تبلیغ کا احیاء، شریعت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا فروغ۔۔—، شریعت کیمطابق عدل و انصاف اور معیشت کا قیام۔۔۔— میڈیا، قانون اور سیاست میں دین کی بالا دستی۔۔۔—۔ فقہی اختلافات کو امت کے اتحاد پر قربان کرنا۔۔۔—-
اقامت دین ایک قرآنی، نبوی، صحابہ اور علما کا مشن ہے جو آج بھی جاری ہے۔ فرقہ واریت، نفسانیت، اور مصلحت پرستی اقامت دین کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم کتاب و سنت اور آثار صحابہ کے منہج پر استقامت سے جمے رہیں، اور دین اسلام کو مکمل نظام حیات سمجھ کر اسے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی جدوجہد کریں۔
ولله اعلم بالصواب، طالب دعا۔۔ رشید احمد