Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

دین کی تکمیل: روحانی اصلاح یا سیاسی غلبہ؟ — ایک تنقیدی اور تقابلی تجزیہ

Posted on July 28, 2025July 28, 2025 by gabbaro
Spread the love

تحریر : رشید احمد گبارو

مولانا وحیدالدین خانؒ کی اصل عبارت کہ ،مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ انہوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ حکومت اور سیاسی عظمت ہے۔ حقیقت میں، مسلمانوں نے جو چیز کھوئی ہے، وہ اللہ سے تعلق اور اللہ کے آگے جوابدہی کا احساس ہے۔— مولانا وحید الدین خانؒ اس قول میں مسلمانوں کی اجتماعی سوچ پر تنقید فرما رہے ہیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمومی طور پر یہ باور کروایا گیا ہے کہ ان کے زوال کی وجہ صرف سیاسی اقتدار اور دنیاوی حکومت کا ختم ہونا ہے۔ یعنی انہوں نے جو کچھ کھویا ہے، وہ صرف خلافت، سلطنت یا دنیاوی طاقت ہے۔ مولانا مرحوم کے مطابق یہ ایک سطحی اور ظاہری سوچ ہے۔ دراصل، مسلمانوں نے جو اصل چیز کھوئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے جڑا ہوا روحانی تعلق ہے، اور آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہی کا گہرا احساس ہے۔ یہی وہ تقوی کی بنیاد تھی جو مسلمان کی شخصیت، کردار اور معاشرت کو مضبوط بناتی تھی۔ جب اللہ سے تعلق اور جوابدہی کا شعور ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں اخلاقی زوال، برےاعمال اور باہمی انتشار نے جنم لیا، جس کا اثر سیاسی میدان میں بھی ظاہر ہوا۔ یہ اقتباس دراصل ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم محض سیاسی یا دنیاوی اقتدار کی بحالی پر زور کے علاوہ اپنی اصلاح، ایمانی تعلق، اور تقویٰ کی طرف بھی پوری توجہ دیں۔ جب مسلمان دوبارہ اللہ کی بندگی، خشیت اور جوابدہی کے احساس کو اپنی زندگی میں مرکزی حیثیت دیں گے، تب ہی حقیقی عروج ممکن ہوگا۔

ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اور اسلام کے بطور دین اسکی جامعیت اور ہمہ گیری اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے صرف عبادات یا صرف سیاست و حکومت تک محدود نہ کیا جائے۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سنت نے دین کو انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا نظام قرار دیا ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں ایک خاص رجحان سامنے آیا ہے جس میں بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ، جب تک خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ عبادات قبول فرماتا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف تنگ نظری کو فروغ دیتا ہے بلکہ دین کی جامع روح کو محدود کر دیتا ہے۔یہ مضمون مندرجہ ذیل تین مرکزی نکات کا احاطہ کرتا ہے؛

بہلا نکتہ ، مولانا وحیدالدین خان کا فکری تناظر ؛ مولانا وحیدالدین خان کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دین کا اصل مقصد فرد کی اصلاح ہے۔ ان کے نزدیک اسلام ایک پرامن دعوتی تحریک ہے جو فرد کی فکری اور اخلاقی اصلاح کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا کرتی ہے۔بقول علامہ اقبال رح ، افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔ مولانا وحید الدین خانؒ کے مشہور کلمات کہ ، رسالت محمدیؐ کے بعد اس دنیا میں اب صرف دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں، قرآن اور صاحبِ قرآن کی سیرت۔ یہی دو چیزیں قیامت تک کے لئے انسانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔مولانا کے فکری نکات، کہ دین اسلام کو دعوت، اخلاق اور تدبر کے ذریعے غالب کیا جائے گا، نہ کہ بزورِ شمشیر۔موجودہ دور میں حکومت و خلافت کے قیام پر زور دینا، جبکہ اخلاقی بگاڑ اور فکری انتشار عام ہو، بے وقت کی راگنی ہے۔اسلامی انقلاب کا آغاز فرد کی ذات سے ہوتا ہے، نہ کہ ریاست کے قیام سے۔

دوسرا نکتہ ، قرآنِ مجید اور سنت نبوی کی روشنی میں دین کا مفہوم اور غلبہ

سورۃ البقرہ، آیت ٢٠٨، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً

یہ آیت تمام مسلمانوں کو دین میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیتی ہے، یعنی ان کا عمل، اخلاق، لین دین، تعلقات، سب اللہ کی مرضی کے مطابق ہوں۔ اس آیت کا مطلب صرف سیاسی نظام میں داخل ہونا نہیں، بلکہ پوری زندگی کا اللہ کے حکم کے تابع بن جانا ہے۔

سورۃ الفتح، آیت ٢٨ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا

یہ آیت دین کے غلبے کی خبر دیتی ہے، مگر “غلبہ” کا مفہوم محض سیاسی تسلط ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی فکری، اخلاقی اور روحانی بالادستی بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا مکی دور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دین کی دعوت سیاسی اقتدار کے بغیر بھی غالب ہو سکتی ہے۔

سورۃ المائدہ، آیت ٣ ، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي

یہ اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا جبکہ خلافت یا ریاست وجود میں آئے کم و بیش دس سال گزرے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی تکمیل صرف حکومت یا سیاسی غلبے سے ہی مشروط نہیں بلکہ وحی رسالت، عقائد، اخلاق، عبادات اور نظامِ حیات کے نازل ہو جانے سے ہو گئی۔

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ الذين یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۔ سورة النصر

جب اللہ کی مدد اور فتح (فتح مکہ) آ جائے ۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجئے اور ان سے مغفرت طلب کیجئے ۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے سورہ النصر۔

اس سورت میں نبی کریمﷺ کی بعثت کے مشن کی تکمیل کی طرف اشارہ ‏ہے، نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آپﷺ کی رخصت اس دنیا سے قریب ہے؛ ‏لہذا آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ کثرت سے اللہ تعالی کی تسبیح وتحمید بیان کریں اور استغفار کریں۔‏حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی اچھے کام سے فارغ ہو جائیں، تو کام کی تکمیل پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی کی حمد و تسبیح ‏کریں، نیز استغفار بھی کریں، تاکہ اللہ تعالی ان کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائیں، جو کام کے دوران ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس سورت میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق ہے کہ جب وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب ہو جائے، تو وہ اللہ تعالی کی ‏طرف متوجّہ ہو کر تسبیح وتحمید اور استغفار کرے۔ام المومنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ مندرجہ ذیل ذکر پڑھتے تھے۔

‏سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ

حدیث شریف میں وارد ہے کہ اللہ تعالی کا یہ ذکر

سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللهِ العَظِيم

قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بہت ‏زیادہ وزن دار ہوگا کیونکہ یہ زبان میں پڑھنے میں ہلکے اور رحمٰن کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہیں۔لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم روزانہ کچھ وقت نکال کر یہ ذکر اہتمام کے ساتھ کریں۔اسی طرح آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بکثرت

 أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ

 پڑھتے تھے۔ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہﷺ نفل نماز کے اندر اپنے ‏رکوع اور سجدہ میں

 سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغِفُرُ الله 

پڑھا کرتے تھے۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ خوش خبری ہے اس شخص کے لئے، جو قیامت کے دن اپنے ‏نامئہ اعمال میں کثرت استغفار پائے۔اس حدیث شریف میں اس شخص کو خوش خبری دی گئی ہے، جو ہمیشہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے۔چنانچہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر نظر نہ کرے اور نہ اپنے نیک کاموں سے مطمئن ہو جائے، بلکہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور اللہ تعالی کے سامنے اپنی بے بسی، عاجزی اور کمزوری کا اظہار کرے اور ہمیشہ اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی ‏معافی مانگتا رہے۔دنیاوی حکومت کا کھونا اصل نقصان نہیں؛ اللہ سے رشتہ کھونا اصل نقصان ہے۔امت کی اصلاح کا آغاز سیاسی نعروں سے نہیں بلکہ قلبی تبدیلی سے ہوگا۔ اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو؟ اگر ہم واقعی امت کی عزت اور عظمت کی بحالی چاہتے ہیں توہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ ہمیں اپنی عبادت، اخلاق، اور کردار کو درست کرنا ہوگا۔ہمیں احساسِ آخرت کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ہوگا۔

تیسرا نکتہ، موجودہ انتہا پسندانہ موقف کا تنقیدی جائزہ

کچھ مسلمان بھائیوں کا یہ اجتہاد ہے کہ جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، نماز، روزہ، زکوٰۃ، دعوت و تبلیغ سب بے کار ہیں۔ دین مکمل نہیں اور اللہ راضی نہیں ہوتا۔بعض افراد کا اس حد تک یہ موقف سامنے آتا ہے کہ ، جب تک اسلامی خلافت قائم نہ ہو، دین مکمل نہیں ہوتا، عبادات قابلِ قبول نہیں ہوتیں، سود کا خاتمہ، زکوٰۃ کی تقسیم اور عدل کا قیام ممکن نہیں، اور اللہ کی ناراضگی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس موقف میں عبادات اور انفرادی اصلاح کو کم تر، اور سیاسی غلبے یا خلافت کو دین کی اصل قرار دیا گیا ہے۔ اس نظریے کی حمایت میں ادخُلوا فِی السِّلمِ کافَّةً ۔البقرہ اور ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی… الفتح، جیسی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن واقعتاً دین کے مکمل ہونے کو حکومت کے قیام سے مشروط کرتا ہے؟کیا اسلام کی اصل دعوت فرد کی اصلاح ہے یا نظام کا غلبہ؟ غلبہ کا مطلب فکری، روحانی، اور اخلاقی بالادستی بھی ہے۔نبی ﷺ کے مکی دور میں حکومت نہیں تھی، مگر دین نے فکری اور اخلاقی انقلاب برپا کر دیا۔اگر غلبہ کا مطلب صرف سیاسی تسلط لیا جائے، تو پھر مکہ کے تیرہ سالہ نبوی مشن کو دین کے غلبے سے خارج ماننا پڑے گا — جو سراسر غلط ہے۔

یہ نظریہ قرآن کے مزاج سے متصادم ہے:قرآن کریم میں بار بار انفرادی اعمال کی قبولیت پر زور دیا گیا ہے

إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ . المائدہ: ٢٧

اللہ صرف پرہیزگاروں کا عمل قبول کرتا ہے

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ. فصلت،٤٦

جو نیکی کرے، وہ اپنے ہی لئے کرے

قرآن کے مطابق، مومنین پر اصل نعمت اور احسان کیا ہے؟

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ۖ— آل عمران، ١٦٤

بیشک اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا جب اُن میں خود اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُن پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے، اُنہیں پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے

قرآن کی روشنی میں، اصل کامیابی کا معیار

روز محشر اللہ تعالٰی کے حضور، احساسِ جوابدہی جب ختم ہو جائے تو پھر قوموں کے اندر فساد، بےعملی، ظلم اور زوال جنم لیتا ہے۔

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ— سورۃ الزلزال

پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی، وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی، وہ بھی اسے دیکھے گا

جب انسان یہ بھول جائے کہ اسے ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، تو پھر نہ انصاف باقی رہتا ہے، نہ دیانت، نہ اخلاق۔ سورۃ الزلزال میں قیامت کا وہ منظر بیان کیا گیا ہے جو ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے۔

احساسِ جوابدہی، بھولی ہوئی حقیقت

یہ قول مولانا وحیدالدین خانؒ کے بیان کی تائید کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پیش کردہ اسلام اور اللہ سے سچا تعلق ہی اصل عزت اور بلندی کا ذریعہ ہے۔

صحابہ کرامؓ کا فکری ورثہ

خلیفہ الراشد الثانی، امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق بن خطابؓ کا قول تاریخ کا ایک انمول سرمایہ ہے:

نحن قوم أعزنا الله بالإسلام، فمهما ابتغينا العزة بغيره أذلنا الله

ہم ایک ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، جب بھی ہم کسی اور ذریعے سے عزت چاہتے ہیں، اللہ ہمیں ذلیل کر دیتا ہے۔

زوال کی اصل وجہ، قرآن کی گواہی

قرآن مجید ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ انسان کی فلاح کا دار و مدار دنیاوی فتوحات یا اقتدار کے علاوہ اللہ تعالٰی سے سچا تعلق، عملِ صالح، اور تقویٰ پر ہے۔

قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”— سورۃ الأنفال۔٥٣

یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی قوم کی نعمت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل دے

یہ آیت کریمہ اس امر کی صریح وضاحت کرتی ہے کہ زوال کسی خارجی سازش یا دشمنی سے نہیں بلکہ اندرونی فساد اور روحانی کمزوری سے آتا ہے۔

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ— سورۃ الأعلى

بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک کیا، اور اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی

یہ آیت کریمہ ظاہر کرتی ہے کہ کامیابی کا معیار وہی ہے جو اندرونی طہارت، اللہ کی یاد اور بندگی سے جُڑا ہوا ہو۔

خلافت یا حکومت دین اسلام کو نافذ کرنے کا مرکز ہے

خلافت یا اسلامی حکومت دین کے مقاصد کو نافذ کرنے کا مرکز و محور ہے۔ اگرصرف حکومت ہی سب کچھ ہوتی تو نبی کریم ﷺ مکہ میں تیرہ سال تک صرف تبلیغ اور تربیت پر زور نہ دیتے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو اجتماعی طور پر مرکز کی ضرورت ہر وقت ہے۔ تاکہ افراد اس مرکز سے جڑے رہیں۔

عبادات کو ناقابلِ قبول قرار دینا فتنہ پروری ہے

امت مسلمہ کے ایک طبقے کا یہ کہنا کہ جب تک حکومت نہ ہو، حج، نماز، دعوت و تبلیغ، زکوٰۃ سب بے کار ہیں، قرآن و سنت کی صریح مخالفت ہے۔

تکفیر اور شدت پسندی کی راہ

یہ نظریہ لوگوں کو عام حکومتوں کو کافرانہ نظام قرار دے کر فتنہ، بغاوت اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرتا ہے، جو کسی طور بھی اسلامی مزاج کے مطابق نہیں۔

دین کا توازن اور ترتیب اسلام ایک ہمہ گیر، توازن پر مبنی دین ہے۔

عقیدہ و توحید | عبادا ت و اخلاق | معاملات و معاشرتی اصلاح| حکومت و خلافت | عملی نفاذ کا ذریعہ یعنی دین کا آغاز فرد کی اصلاح سے ہوتا ہے، جبکہ انتہا ریاست کے قیام سے۔ اور یہی نبوی ترتیب ہے۔۔۔ پہلے قرآن سے دلوں کو بدلنا، پھر معاشرتی تبدیلی لانا، اور آخر میں عدل و حکومت کا قیام۔-سچ یہ ہے کہ،

ہم نے صرف خلافت ہی نہیں، اپنے نبی رحمت ﷺ کی تعلیمات، اللہ تعالی کی یاد ، اور روز محشر اپنے رب کے حضور احساسِ جوابدہی کھو دیا ہے۔

معروضی حالات میں واپسی کا راستہ صرف حکومت ہی نہیں، تقویٰ، علم اور عملِ صالح ہے۔یہ کہنا کہ “جب تک خلافت نہ ہو، اللہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کچھ قبول نہیں کرتا”، قرآن کے روحانی تصورِ بندگی سے متصادم ہے۔

خلافت کی اہمیت — لیکن ترتیب میں

اسلامی حکومت/ خلافت، عدل، اور نظامِ زکوٰۃ کی بہت اہمیت ہے، لیکن:

یہ مقاصدِ دین میں سے ہیں۔

یہ نتیجہ ہوتے ہیں۔

جو شخص یہ کہے کہ “نماز، روزہ، تبلیغ بے فائدہ ہیں جب تک خلافت نہ ہو”، وہ نہ صرف قرآن کے مزاج کو نظرانداز کر رہا ہے، بلکہ دین کی اصل روح سے بھی دور ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کو فرد سے شروع کیا — دل سے، نیت سے، کردار سے — اور پھر امت کی اصلاح و تنظیم کی طرف بلایا۔

خلافت ہو یا حکومت، یہ دین کا اہم ترین جزو ہے۔

اسلام ایک تدریجی، توازن پر مبنی، ہمہ جہت دین ہے

نتیجہ و خلاصہ

فتنہ تکفیر، شدت پسندی اور بغاوت کی فضا بنانا

عام مسلمانوں کو مایوسی اور بدگمانی میں مبتلا کرنا

انفرادی اصلاح کو نظرانداز کرنا

عبادات کی توہین اور بے وقعتی

انتہا پسندانہ بیانیے کے خطرات

رسول اللہ ﷺ نے پہلے تزکیہ، تعلیم، دعوت، صبر اور حکمت کو بنیاد بنایا، تب جا کر مدینہ کی ریاست قائم ہوئی۔–اللہ! ہمیں دین کی صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے جو دین کو سیاست کا کھیل، یا طاقت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی سیرت کے مطابق توازن، حکمت اور رحمت سے دین پر چلنے کی توفیق دے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اپنے وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کے دو قومی نظریے اور سرحدوں کی حفاظت اور دفاع بشمول جملہ اسلامی ممالک پر بیرونی حملوں کی صورت میں جم کر ثابت قدمی سے دفاع کرنے کی ہمت دے ۔ رب ذوالجلال طاغوتی قوتوں سے امت مسلمہ کےمقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی قوت اور حوصلہ عطا فرمائے۔۔اللہ تعالٰی اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ہدایت اور ہمت عطا کرے تاکہ وہ اپنے زیر حکمرانی ریاستوں میں اسلام نظام نافذ کر سکیں۔۔۔

۔وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ

وللہ اعلم بالصواب۔ طالب دعا : رشید احمد

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

July 2025
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031  
« Jun   Aug »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb