Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

گلگت ۔بلتستان کے ضلع دیامر کی وادی بابوسر کو ویران کر دینے والی سیلابی طغیانی — فطرت کا انتباہ اور انسان کی بے حسی کا انجام

Posted on July 22, 2025July 22, 2025 by gabbaro

تحریر: رشید احمد گبارو

بابوسر کی بلندیوں سے گزرنے والی وہ پر ہیبت سڑک، جو سیاحوں کے دلوں میں جنت کی سی تصویر بسا دیتی تھی، حالیہ دنوں میں ایک بھیانک خواب بن گئی۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی وادی تھک بابوسر میں اچانک آنے والے طوفانی سیلاب نے نہ صرف قیامت برپا کی بلکہ فطرت کے انتباہی پیغام کو ناقابلِ فراموش انداز میں ہم تک پہنچا دیا۔سیلابی تباہ کاریوں میں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کئی ایک زخمی ہیں جن میں کئی کی حالت نازک ہے، اور پندرہ سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ آٹھ سے زیادہ گاڑیاں پتھروں سے بھرے ہوئے طغیانی کے ریلے میں بہہ گئیں۔ مقامی باشندے اور حکومتی انتظامیہ نے بروقت ریسکیو آپریشن کیا، مگر ناموافق حالات اور ٹوٹا ہوا مواصلاتی نظام امدادی سرگرمیوں میں بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ آپٹکل فائبر لائن تباہ ہو چکی ہے اور ہزاروں سیاح وادی بابوسر سے پیچھے صوبہ خیبر پختون خواہ کی وادی کاغان/ناران اور آگے صوبہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر چلاس شہر اور وادی بابوسر کے مختلف دیہات پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

یہ ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے — انسانیت سے!

اس سانحے کو محض ایک قدرتی آفت کہنا سادہ لوحی ہوگی۔ یہ ایک نتیجہ ہے ، ان غیر فطری مداخلتوں کا، جو ہم برسوں سے قدرتی ماحول کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ ہم نے پہاڑوں کے سینے چیرے، قدرتی جنگلات کو کاٹا، ندی نالوں اور دریا کے بہاؤ کو روکا، اور سبز زمین و شاداب حسین وادی کو سیمنٹ اور اسٹیل کے قبرستانوں میں بدل دیا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان اعمال کا انجام کیا ہوگا؟ اب فطرت خاموش نہیں ہے۔ وہ بول رہی ہے ۔ طغیانی اور سیلاب کی گرج میں، زلزلے کی جھٹکے میں، اور بے موسمی بارشوں کے عذاب میں۔بند آنکھیں اور کھلے زخم بابوسر کا منظر آج صرف ایک جغرافیائی یا جیالوجیکل تباہی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی ناکامی اور بدعنوانی کا آئینہ ہے۔ ہم نے ترقی کے نام پر جو راستے اپنائے، وہ ہمیں زمین کی گہرائیوں میں تو لے گئے، لیکن شعور کی بلندی تک نہ پہنچا سکے۔ تھک بابوسر آج فطرت کی زبان میں کہہ رہا ہے:”مجھے چھیڑو نہیں، ورنہ میں بھی تمہیں چین سے جینے نہیں دوں گا۔فطرت کا قانون اٹل ہے یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب توازن بگڑتا ہے تو ردعمل آتا ہے۔ بابوسر وادی کے تھک نالے کے طغیانی کی صورت میں بپھرنا اسی ردعمل کی ایک قسط ہے۔ قدرتی جنگلات سے بھری وادیاں جو کبھی لہکتی اور مہکتی تھیں، آج ویران ہو چکی ہیں۔ ہریالی کی جگہ ملبے کا ڈھیر ہے۔ چشمے جو صحت مند زندگی کی ضمانت تھے، آج تباہی کا پیغام بن چکے ہیں۔ قدرت کے اس انتباہ کو اگر ہم نے پھر بھی نہ سنا تو کل بابوسر کی جگہ کوئی اور سرد صحرائی پہاڑی علاقہ ہوگا، اور منظر شاید اس سے بھی بھیانک ہوگا۔

کیا ہم جاگیں گے؟سوال یہی ہے۔

کیا ہم بابوسر کے المیے کو محض ایک خبر سمجھ کر بھول جائیں گے؟ یا اسے ایک موقع بنا کر اپنی روش پر نظر ثانی کریں گے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ترقی کو فطرت سے ہم آہنگ کریں، نہ کہ اس کے خلاف۔۔۔۔۔ آخری بات…بابوسر کا سیلاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت کی مہلتیں لا متناہی نہیں ہوتیں۔ اگر ہم نے زمین کو سنبھالا نہ دیا تو وہ ہمیں سنبھالنا چھوڑ دے گی۔اور اُس دن، انسانیت شاید صرف ایک خبر بن کر رہ جائے گی۔

وادی تھک/ بابوسر میں سیلابی تباہ کاریاں

چلاس سےوادی کاغان / ناران شاہراہ پر کل آنے والے خطرناک طغیانی والے سیلاب نے تو قیامت ہی برپا کر دی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سیلابی ریلے میں سیاحوں کی 8 سے زائد گاڑیاں بہہ گئیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے 4 زخمی سیاحوں کو بحفاظت نکال کر ہسپتال منتقل کر دیا ہے، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ تین سیاحوں کی لاشیں بھی نکال لی گئی ہیں جبکہ پندرہ سے زائد سیاح تاحال لاپتہ ہیں۔ سیلابی طغیانی کے باعث ہزاروں سیاح وادی بابوسر اور کاغان کے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ قدرت کا سر سبز تاج اور قومی درخت دیار کے گھنے جنگلات، بے دردی سے کاٹ کر زمین کو ویرانی کا لباس پہنا دیا گیا۔ سرسبز و شاداب وادیوں کو بے جان اور سرد صحرا میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی وادی کے پشتنی باشندگان نے زمین کو اب چونکہ ویرانی کا لباس پہنا دیا ہے۔ لہذا فطرت کے عین مطابق اب اس کے مضر اثرات، قدرتی آفات کے شکل میں رونما تو ہونگے۔۔

گلگت بلتستان کی وادی تھک / بابوسر میں اس اچانک آنے والے طوفانی سیلاب نے نہ صرف قیامت کا منظر پیش کیا بلکہ کئی قیمتی جانوں کا چراغ بھی گل کر دیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق، اس سانحے میں جاں بحق،اور زخمی افراد تاحال لاپتہ ہیں کی تعداد میں لمحہ بہ لمحہ اضافے کی خبریں آرہی ہیں ۔ سیلابی ریلے کی بے رحم موجوں میں بہی جانے والی گاڑیوں میں بھی ہر گزرتے گھڑی کے ساتھ اضافے کی بھی خبریں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں بغیر کسی تفصیل کے ساتھ موصول ہو رہی ہیں۔ اطلاع دینے والے حضرات کے مطابق زخمیوں کو مقامی باشندوں اور حکومتی ریسکیو ٹیموں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چلاس شہر کے ریجنل اسپتال منتقل کیا، جہاں بتایا جاتا ہے زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ۔

وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں، اس ے پہلے کہ فطرت مکمل طور پر بیدار ہو جائے۔

جب تک ہم نے اپنی روش نہ بدلی، بابوسر جیسے مناظر بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے آئیں گے — کبھی شمال کی برف پوش وادیوں میں، کبھی جنوب کی ساحلی پٹی پر۔

ہمیں رک کر سوچنا ہوگا — کب تک ہم فطرت کو آزماتے رہیں گے؟ کب ہم زمین کو صرف “وسائل” سمجھنے کے بجائے ایک “زندہ نظام” کے طور پر تسلیم کریں گے؟

یہ صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ایک انتباہ ہے۔

فطرت اپنے انداز میں حساب لیتی ہے۔ یہ سیلاب، یہ طوفان، یہ زلزلے، اور یہ بےموسمی بارشیں — سب اس بے دردی کا ردعمل ہیں جو ہم نے اپنی سر زمین کے ساتھ روا رکھا ہے۔ ہم نے پہاڑ کاٹ ڈالے، درخت اکھاڑ دیے، ندیاں روک لیں، اور سمجھے کہ فطرت کو زیر کر لیا ہے۔ لیکن قدرت کی خاموشی کو کمزوری سمجھنا ہماری سب سے بڑی بھول تھی۔

ہرگز نہیں۔

قدرت کے وہ حسین نظارے — جو کبھی ان وادیوں کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے — حضرت انسان نے اپنی خود غرض ترقی کے نام پر کاٹ کر زمین کو صحرا کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ وہ سر سبز و شاداب، زرخیز، اورصحت مند زندگی سے بھرپور خطے اب بےجان، سنسان اور ویران ہو چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا فطرت خاموش رہے گی؟

وادیاں جو کبھی سانس لیتی تھیں، اب سسک رہی ہیں۔

سیلاب نے نہ صرف زمینی راستوں کو کاٹ کر رکھ دیا بلکہ پورا مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ جدید مواصلاتی نظام متاثر ہو چکا ہے اور ہزاروں سیاح بابوسر کے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے لمحہ بھر کے لئے حضرت انسان کے غرور زدہ ترقی پر خاموشی توڑ دی ہو۔

یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک کڑی وارننگ ہے — قدرت کی طرف سے، فطرت کے ساتھ کی گئی انسان کی طویل بےرحمی کا جواب۔

نوٹ: یہ تحریر رائے عامہ کی بیداری کے لئے لکھی گئی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اسے سنجیدگی سے پڑھیں اور آگے بڑھائیں۔ طالب دعاء ، رشید احمد گبارو

تھک / بابوسر وادی میں فلیش فلڈ اور سیلابی طغیانی سے تباہی کے مناظر / تصاویر

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108423
Visit Today : 66

calendar

July 2025
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031  
« Jun   Aug »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb