
بطل اسلام عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد ؒ ، نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) اور پرتگال یعنی اندلس کی مسیحی حکومت پر قبضہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا، اور ٧١١-٧١٨ عیسوی میں ویسیگوتھک ہسپانیہ یعنی موجودہ اسپین اور پرتگال پر مسلمانوں کے فتح کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی فوج کے ہمراہ شمالی افریقہ کے ساحل سے آبنائے جبل الطارق کو عبور کیا ، انھوں نے اپنی فوجوں کو اس مقام پر مستحکم کیا جسے آج جبرالٹر کی چٹان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبرالٹر عربی نام جبل الطارق کا ہسپانوی ماخذ ہے،انھیں یورپ کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ خلافت اموی کے صوبہ افریقہ کے گورنر جناب موسی بن نصیر ؒ کے فوجی جرنیل اور کمانڈر تھے۔طارق بن زیاد 675ء میں الجزائر کے مغربی صوبہ وہران میں پیدا ہوئے، زندگی کی 45بہاریں دیکھنے کے بعد 720ء میں وفات پا گئے۔ طویل القامت طارق بن زیاد کی نسل سے متعلق مختلف روائتیں پائی جاتی ہیں۔پہلی روایت ان کو شمالی افریقہ کے بربر قبیلے سے جوڑتی ہے، دوسری روایت کے مطابق ان کا تعلق ایران کے صوبے حمدان سے تھا۔ تیسری روایت کہتی ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق یمن کے علاقے حضرموت سے تھا۔ طارق بن زیاد کے نسب کی طرح ان کی زندگی کا اختتام بھی پراسراریت کے پردوں میں دبا ہوا ہے۔
احراق سفن کا قصہ۔۔۔۔ طارق بن زیاد نے رمضان ٩٢ھ بمطابق جولائی٧١١ء میں اندلس کو فتح کیا۔ کہا جاتاہے کہ طارق جب آبنائے بحیرہ روم کے ذریعہ سمندر کو پار کرکے اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی فوج کو ہسپانوی فوج سے جنگ پر اکساتے ہوئے کہا: “اب بھاگنے کی جگہ کہاں۔ سمندر تمہارے پیچھے ہے اور دشمن تمہارے آگے ہے۔ خدا کی قسم اب تمہارے لئے صدق اور صبر کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حقائق کا گہرا تجزیہ بتاتا ہے کہ کشتیوں کو جلانے کا یہ قصہ محض قصہ گو قسم کے لوگوں کی ایجاد ہے ، وہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں۔ ایک عرب مصنف نے لکھا ہے کہ اسپین میں ایک مثل ہے کہ میں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی ساری طاقت خرچ کر دی۔ یعنی جنگ کرو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ ممکن ہے کہ یہی ہسپانوی مثل عربی میں ترجمہ ہوئی ہو، اورپھر کچھ لوگوں نے اس کو محض الفاظ کے معنی میں لے کر خود سے ہی کشتیوں کو جلانے کا افسانہ گھڑ لیا ہو۔طارق بن زیاد کا قافلہ پہلی صدی ہجری کے آخری عشرے میں ہسپانوی ساحل سمندر میں داخل ہوا ہے۔ اس زمانےکی معاصر تاریخ میں یا کسی بھی قریبی زمانے کی تاریخی دستاویز میں کشتیوں کے جلانے کا کوئی ذکر نہیں ۔ ابتدائی دور کی تمام کتب اس کے ذکر سے خالی ہیں۔ یہ قصہ پہلی بار ان کتابوں میں ملتا ہے جو اصل واقعہ کے ساڑھے چار سو سال بعد چھٹی صدی ہجری میں لکھی گئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جس واقعے کی خبر معاصر مؤرخین کو یا قریبی زمانے کے تاریخ دانوں کو نہ ہو سکی، اس کی خبر صدیوں بعد کے مصنفین کو کیسے ہو گئی۔طارق بن زیاد کے فتح ہسپانیہ ٩٢ھ کے بارے میں قدیم ترین ماخذ دو کتابوں کو مانا گیا ہے۔ یہ دونوں کتا بیں چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں۔ اور ان میں کشتیاں جلانے کا مطلق کوئی ذکر نہیں۔ وہ کتا بیں یہ ہیں : تاریخ افتتاح الاندلس ، ابن القوطیہ ، اخبار مجموعہ ، مصنف کا نام نامعلوم ، یہ کتاب چوتھی صدی ہجری ییں لکھی گئی۔ ان کے علاوہ چوتھی صدی ہجری میں کئی مشہور مسلم مؤرخ گزرے ہیں ۔ مثلاً ابن عبدالحکیم (فتوحات مصر و المغرب و الاندلس ) عبد الملک بن حبیب (مبتدأ خلق الدنیا) ابو بکر محمد القرطبی ( تاریخ افتتاح الاندلس) احمد بن محمد ، ابن الفرضی ( تاریخ علماء الاندلس )الخشنی (قضاة قرطبہ ) وغیرہ ۔ ان مؤرخین کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ طارق بن زیاد نے اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد اپنی کشتیوں کو آگ لگادی تھی۔ حتّٰی کہ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون تک کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ۔احراق سفن (کشتیوں کو جلانے) کا واقعہ پہلی بار چھٹی صدی ہجری میں بیان کیا گیا ۔ ابو مروان عبد الملک بن الکردبوس چھٹی صدی ہجری کا ایک مؤرخ ہے۔ اس نے اپنی کتاب تاریخ الاندلس میں اس قصے کو درج کیا۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ قصہ اس کو کس ذریعےسے معلوم ہوا۔ اس لئے آج ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس کے مآخذ کی تحقیق کریں۔دوسرا شخص جس نے ابتداءً اس قصے کو بیان کیا وہ بھی چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ یہ ابو عبد اللہ محمد الادریسی (م ٥٦٠ھ) اس نے نزھۃ المشتاق کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں احراق سفن کا قصہ درج کیا۔ مگر اس نے بھی اس کا کوئی ذریعہ نہیں بتایا۔ انھیں دونوں کتابوں کے حوالے سے دوسرے لوگوں نے اس قصہ کو نقل کرنا شروع کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ جو واقعہ لوگوں کو ساڑھے چار سو سال تک معلوم نہ تھا ، وہ ساڑھے چار سوسال بعد کس طرح لوگوں کے علم میں آ گیا۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ قصہ سراسر فرضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی دانش مند جرنیل ایسا نہیں کر سکتا۔ اسپین میں قیام کے دوران طارق بن زیاد کا رابطہ شمال مغربی افریقہ سے برابر جاری رہا۔ بفرض محال اگر کشتیاں جلا بھی دی جاتیں تو یہ رابطہ کیوں کر ممکن ہوتا۔ طارق بن زیاد نے اسپین کے حالات کا اندازہ کرنے کے بعد اموی گورنر موسٰی بن نصیر مقیم افریقہ سے مدد طلب کی۔ چنانچہ موسی بن نصیر نے پانچ ہزار مزید فوجی بطور امداد روانہ کئے ۔ یہ پیغام رسانی اور سمندر میں لشکر کی منتقلی کشتیوں کے بغیر کیسے ممکن ہوئی۔
تاریخی تفصیلات ما قبل و مابعد فتح اندلس
طارق بن زیاد رمضان ۹۱ ھ میں اسپین کے ساحل پر اترے تو ان کے ساتھ سات ہزار کا لشکر تھا۔ ساحل افریقہ اور اسپین کے درمیان دس میل کی آبنائے بحیرہ روم کو ، ان کے لشکر نے چار کشتیوں کے ذریعہ پار کیا تھا۔ اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانےکے ایک “مؤرخِ اسلام” لکھتے ہیں: “اس سے اس زمانہ کے جہازوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنے بڑے تھے” ۔موصوف نے قیاس کیا کہ پورا لشکر ایک ہی بار چار کشتیوں پر سوار ہو کر دوسری طرف پہنچ گیا ہوگا۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اس زمانہ میں ایسی کشتی وجود میں نہیں آئی تھی جس پر دو ہزار فوجی اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ بیک وقت بیٹھ سکیں۔ اصل یہ ہے کہ ان لشکریوں نے کئی پھیروں میں آبنائے جبل الطارق کو پار کیا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے آخر تک مسلمانوں نے افریقہ کو بحیرہ روم کے آخری ساحل تک فتح کر لیا تھا۔ بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ سے ختم ہو چکی تھی ۔ تاہم مراکش کے ساحل پر واقع سبطہ اور اس کے مضافات کے علاقے فتح اندلس سے پہلے ہسپانوی گورنر کاؤنٹ جولین کے قبضے میں تھے۔ یہاں رومیوں نے زبر دست قلعہ بنایا تھا۔ اموی گورنر موسٰی بن نصیر ؒ نے اس کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی طاقت دیکھ کر بالآخر انھوں نے مصلحت یہ سمجھی کہ جولین سے صلح کرلیں اور اس ساحلی قلعہ کو اس کے قبضہ میں چھوڑ دیں۔ افریقہ سے بازنطینی سلطنت کے خاتمے کے بعد سبطہ کے حاکم جولین نے اپنے سیاسی تعلقات اندلس کی عیسائی حکومت سے قائم کر لئے۔ اندلس سے برابر کشتیوں کے ذریعہ اس کو مدد پہنچتی رہتی تھی۔یہاں یہ سوال ہے کہ جو مسلمان سبطہ کے گورنر جولین سے خود اپنے مفتوحہ براعظم میں صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے ، انھوں نے سمندر پار کر کے خود اسپین پر حملہ کس طرح کیا۔ اس کا جواب زیر بحث مسئلہ کے تاریخی مطالعہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔415ء میں قوط قبائل اسپین میں گھس آئے اور پانچ سو سالہ رومی سلطنت کو ختم کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ بعد میں ان لوگوں نے ٹھیک اسی طرح مسیحی مذہب کو اختیار کر لیا، جس طرح سلجوقی سلاطین نے مسلم دنیا پر قابض ہونے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ گاتھ کا مقصد اس تبدیلی ٔمذہب سے یہ تھا کہ مقامی عیسائیوں کو مطمئن کر کے اسپین میں اپنے سیاسی اقتدار کو مستحکم کریں۔ جس زمانے میں مسلمانوں نے بازنطینی اقتدار کو شام، مصر، فلسطین سے ختم کیا ، طلیطلہ (ٹالیڈو) پر گاتھ کا آخری بادشاہ وئیکا (فیطشہ) حکمران تھا۔ وئیکا کی بعض کمزوریوں سے اس کے ایک فوجی افسر رذریق (راڈرک) کو موقع ملا کہ وہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے اور خود ہسپانیہ کا حکمران بن جائے۔سبطہ کا گورنر جولین اگرچہ وئیکا کا رشتہ دار تھا ۔ تاہم اس نے مصلحت کے تحت اپنی وفاداریاں رذریق سے وابستہ کر دیں۔ مگر بعد میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کو بے حد مشتعل کر دیا۔ اور اس کو اپنے بادشاہ کا مخالف کر کے مسلمانوں کے قریب کر دیا جو افریقی براعظم میں اس کے جغرافی پڑوسی تھے۔اس زمانے میں ہسپانیہ کا حکمراں طبقہ بدترین قسم کی عیاشیوں کا شکار تھا۔ رواج کے مطابق امراء کی لڑکیاں ایک خاص عرصے تک شاہی محل میں رکھی جاتی تھیں تاکہ شاہی آداب و قواعد کو سیکھ سکیں اور بادشاہ کی خدمت کریں۔بادشاہ رذریق کے عہد میں جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی اسی رواج کے مطابق شاہی محل میں داخل ہوئی۔ لڑکی جوان ہوئی تو بادشاہ رذریق اس پر فریفتہ ہو گیا اور جبری طور پر اس کی عصمت دری کی ۔لڑکی نے کسی طرح اس واقعے کی اطلاع اپنے باپ کو دے دی۔جولین کو اس واقعہ کا انتہائی صدمہ ہوا۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک رذریق کی سلطنت کو دفن نہ کرلے ، سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ چنانچہ وہ طلیطلہ گیا اور لڑکی کی ماں کی بیماری کا بہانہ کر کے اس کو سبطہ واپس لایا۔ اس کے بعد وہ موسی بن نصیر سے ملا اور درخواست کرکے تسخیر اندلس پر آمادہ کیا۔ اس نے موسٰی بن نصیر کو اندلس کی اندرونی کمزوریاں بتائیں اور وعدہ کیا کہ وہ خود اور اندلس کے بہت سے لوگ اس مہم میں اسلامی فوج کا ساتھ دیں گے۔ یہ واقعہ ٩٠ھ کا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جولین نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام مسلم رکھا تھا۔اس کے بعد اموی گورنر موسی ٰ بن نصیر ؒ نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک سے خط و کتابت کی۔ کئی خطوط کے بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے لکھا: ” مسلمانوں کو خوفناک سمندر میں نہ ڈالو ۔ اگر تم پُراُمید ہو تو ابتداءً تھوڑی سی فوج بھیج کر صحیح اندازہ کرو”۔ جناب موسٰی بن نصیر ؒ نے رمضان ۹۱ ھ میں مسلمانوں ایک کمانڈر طریف جناب ابوزرعہ طریف ؒ کو پہلی مہم کے طور پر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ اسپین روانہ کیا۔ سبطہ کے گورنر جولین (جو مسلمان ہوچکا تھا )بھی ان کے ساتھ تھا۔ شمالی افریقہ کے ساحلی ملک مراکش اور اسپین کے درمیان دس میل کا آبی فاصلہ ہے۔ ان لوگوں نے چار کشتیوں کے ذریعے اس کو عبور کیا اور دوسری طرف ساحل پر اتر گئے۔ یہ لوگ ساحلی علاقوں میں رہے اور وہاں کےحالات کا اندازہ کر کے دوبارہ واپس آگئے۔ اس کے بعد اگلے سال رمضان ٩٢ھ میں عظیم مجاہد جرنیل جنابطارق بن زیاد رحمہ اللہ کی سرکردگی میں سات ہزار کا لشکر دس میل کی آبنائے کو پار کر کے اسپین کے ساحل پر اترے تو کہا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد نے اپنی تمام کشتیاں جلادیں ۔ مگر کشتیاں جلانے کا واقعہ بعد کا اضافہ شدہ افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس زمانےمیں ، اور آج بھی ، فاتحین کی داستانوں میں اس قسم کے افسانوی اضافے عام رہے ہیں۔ تاریخ اندلس کی قدیم کتابوں میں یہ واقعہ سرے سے مذکور نہیں ۔ سینکڑوں سال بعد کے مؤرخین نے یہ مشہور کیا کہ آبنائے سمندر کو پار کر کے جب طارق بن زیاد اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنے فوجیوں کو خطبہ دیا کہ اے لوگو ! دشمن تمہارے سامنے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے ہے، تمہارے لئے خدا کی قسم اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ صبر کرو اور جم کر مقابلہ کرو۔اپنے سپہ سالار کے اس جوشیلے تقریر کو سن کر لشکری چیخ اٹھے : . طارق ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ جبکہ اس زمانے کے قریبی مؤرخین کے متفقہ تاریخ کے مطابق مخالف فوجوں سے مقابلہ ساحل پر اترتے ہی فورا ً پیش نہیں آیا تھا۔ بلکہ یہ خطبہ اس وقت دیا گیا تھا جب کہ عملاً مقابلہ پیش آیا تھا ۔ اندلس پر حملے سے پہلے طارق بن زیاد کے خطبے کےالفاظ: ” سمندر تمہارے پیچھے ہے۔ اللہ کی قسم اب سوائے ہمت و استقلال کے تمھارے لئے کوئی راستہ نہیں۔ یہی دونوں اوصاف ہیں، جو شکست نہیں کھا سکتے۔ تمھارا دشمن اپنی فوج اور سامانِ جنگ کے ساتھ مقابلے پر آچکا ہے۔ اس کے پاس سامانِ رسد کا ذخیرہ بھی وافر ہے، مگر تمھارے پاس کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دشمن سے یہ اسباب چھین کر حاصل کرلو۔ اگر تم نے کوتاہی کی اور بزدلی دکھائی تو تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ میں تمھیں ایسے مقام پر لایا ہوں، جہاں سب سے سستی چیز انسانوں کی جانیں ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے آپ سے شروع کرتا ہوں۔ مجھے تم جو کچھ کرتا ہوا دیکھو، اسی کی پیروی کرو۔ اگر میں حملہ کروں تو تم بھی ٹوٹ پڑو۔ لڑائی کے میدان میں سب مل کر ایک شخص واحد کی صورت اختیار کرلو‘‘۔ اس پُرجوش خطبے سے فوج کے دل عزم و ہمت، جوش و خروش اور فتح و ظفر کی امیدوں سے معمور ہوگئے۔ جب ۲۷؍ رمضان ۹۲ھ/ ١٩؍ جولائی ٧١١ء کی یادگار صبح کا سپیدہ نمودار ہوا تو طبل جنگ بجایا گیا۔ حملے کی ابتدا ہسپانیہ کے لشکر کی طرف سے ہوئی۔ گھمسان کا رن پڑا۔ ۲۷؍ رمضان سے ۵؍ شوال تک جنگ جاری رہی۔ بطل اسلام جناب طارق بن زیاد اور اس کی بہادر فوج نے بالآخر جنگ جیت لی اور اندلس کا اکثر حصہ فتح ہوگیا ، لوگوں میں عام ہوئے تو قصہ گووں نے اس میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا کہ یہ تقریر کشتیوں کو جلانے کے بعد کی گئی تھی۔ شاید ان کے نزدیک سمندر کے پیچھے ہونے کے لئے ضروری تھا کہ سمندر اور فوجوں کے درمیان سے کشتیوں کو ہٹایا جا چکا ہو۔ وائرلیس کے دور سے سینکڑوں سال پہلے سمندر پار کے ملک میں اترنے والا ایک کمانڈر اس حقیقت سے بےخبر نہیں رہ سکتا تھا کہ اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد یہی کشتیاں وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے وہ اپنے مرکز سے رابطہ میں رہ سکتا ہے۔ طارق بن زیاد اور گورنر افریقہ موسٰی بن نصیر کے درمیان پیغام رسانی کا دوسرا کوئی ذریعہ اس زمانے میں ممکن نہ تھا۔ یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ، ساحلِ اسپین پر اترنے اور مقابلہ پیش آنے کے درمیان تقریباً دو ماہ تک یہی کشتیاں تھیں جو دونوں کے درمیان باہمی رابطہ اور پیغام رسانی کا ذریعہ بنی رہیں۔ طارق جس مقام پر اترے اس کا نام قلۃ الأسد یعنی شیر کا چٹان تھا۔ بعد میں وہ جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام سے مشہور ہوا۔ طارق بن زیاد اسپین کے جس ساحل پر اترے وہ اس وقت ایک غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں ایک دشوار گزار پہاڑی کو جائے پناہ قرار دے کر وہ لوگ اکٹھے ہوگئے ، تاکہ حالات کو سمجھ کر آئندہ کا نقشہ بنا سکیں۔ اسپین کا بادشاہ رذریق ان دنوں بنبلونہ کی ایک جنگ میں مشغول تھا ، جہاں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی تھی۔ اس کو جب طارق بن زیاد کے اسپین میں داخلہ کی خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ ایک لاکھ فوج جمع کی جائے تاکہ مداخلت کاروں کو باہر نکالا جاسکے۔ طارق کا جاسوسی نظام بھی کام کر رہا تھا۔ انھیں جب رذریق کی تیاریوں کی خبر ملی تو انھوں نے فوراً اپنا ایک قاصد مزید کمک کے لئے گورنر افریقہ موسٰی بن نصیر کے کے پاس روانہ کیا۔ ادھر جناب موسی بن نصیر ؒ بھی بے تاب تھےاور مسلسل جنگی تیاریوں میں مشغول تھے۔ چنانچہ انھوں نے کشتیوں کے ذریعہ پانچ ہزار مزید سپاہی بھیج دیئے ۔ اس طرح طارق بن زیاد کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی۔ طارق بن زیاد نے پیغام رسانی کا یہ تمام کام کشتیوں کے ذریعہ کیا۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس زمانےمیں ممکن نہ تھا۔ اور پھر یہ کشتیاں ہی تھیں جنھوں نے پانچ ہزار فوجیوں کی دوسری قسط کو اسپین کے ساحل پر اتارا ، جس کے بعد طارق اس قابل ہوگئے کہ وہ اندلس کی سلطنت پر حملہ کر سکیں۔ طارق اگر اسپین کے ساحل پر اترتے ہی اپنی کشتیوں کو جلا دیتے تو یہ پیغام رسانی ممکن نہ ہوتی اور نہ مقابلہ کے وقت مزید کمک پہنچ سکتی۔
اس معرکہ میں گورنر سبطہ جولین بھی پوری طرح طارق بن زیاد کے ساتھ تھا۔ اس نے شاہ رذریق کے خلاف مقامی باشندوں کی ناراضگی سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تعلقات کی بنیاد پر ہسپانوی شہریوں کی ایک جماعت طارق بن زیاد کی خدمت میں حاضر کر دی۔ ان لوگوں نے دشمن کی خبریں فراہم کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور فوجی اعتبار سے کمزور مقامات کی اطلاع مسلمانوں کو دی اور مسلمانوں کی رہبری کرتے رہے ۔ دریں اثناء یہ واقعہ بھی مسلمانوں کے لئے ایک نعمت ثابت ہوا کہ تین سال ٨٨-٩٠ھ تک اندلس میں سخت قحط پڑا تھا ، اس کی وجہ سے اتنے لوگ مرے کہ کہا جاتا ہے کہ اندلس کی آبادی آدھی رہ گئی۔ مزید یہ کہ رذریق کی ایک لاکھ فوج میں ایک عنصر ایسا بھی تھا جو سابق ہسپانوی بادشاہ سے عقیدت رکھنےکی وجہ سے بیشتر باغی اندرون خانہ بادشاہ رذریق کے مخالف تھے۔ ان کے فوجی سرداروں میں شسسرت اور ابتہ بھی تھے جو سابق شاہ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے اپنی خفیہ میٹنگ کی اور کہا : “رذریق خبیث ہمارے ملک پر خواہ مخواہ مسلّط ہوگیا ہے ، حالانکہ شاہی خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہمارے یہاں کے کمینوں میں سے ہے۔ رہے مسلمان ، وہ تو صرف وقتی لوٹ مار کے لئے آئے ہیں۔ اس کے بعد اپنے وطن کو واپس چلے جائیں گے۔ اس لئے مقابلے کے وقت اس خبیث کو زک پہنچانے کے لئے ہم کو خود شکست کھا جانا چاہئے” ۔بادشاہ رذریق کی فوج کے ایک حصہ نے نہایت سخت جنگ کی مگر غیر مطمئن فوجیوں نے جنگ میں زور نہیں دکھایا۔ بالآخر شکست ہوئی اور رذریق میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کے بعد وہ نہ زندہ مل سکا نہ مردہ ۔ کہاجاتا ہے کہ بھاگنے کے دوران وہ ایک دلدل میں پھنس کر مر گیا۔
اسپین کے بعض علاقوں کو طارق بن زیاد نے فتح کیا۔ بعض کو مغیث رومی نے ، بعض کو موسی بن نصیر ؒ نے، جو بعد میں ۱۸ ہزار فوج کے ساتھ اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ رعایا کی اپنے بادشاہ اور سرداروں سے بیزاری کی وجہ سے ان کو خود ہسپانیوں میں مددگار اور جاسوس ملتے چلے گئے۔ تمام مؤرخین لکھتے ہیں کہ غیر مسلم جاسوسوں نے اسپین کی ابتدائی فتوحات میں بہت مدد کی تھی۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ١٩٨٤ نے لکھا ہے کہ اسپین پر مسلمانوں کا حملہ گاتھ کی دعوت پر ہوا تھا نہ کہ محض اپنی تحریک پر ۔ ۷۰۹ء میں وٹیزا کی موت سے اسپین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں رذریق کے مقابلہ میں وٹیزا کے خاندان نے موسی بن نصیر سے مدد چاہی۔ اس کے بعد طارق بن زیاد ٧١١ ء میں آبنائے جبل الطارق کو پار کر کے اسپین میں اترے اور رذریق کو فیصلہ کن شکست دی۔اس کے بعد تعجب خیز طور پر اکثر ہسپانیوں نے رضا کارانہ طور پر اس کی اطاعت قبول کرلی۔ بیس ہزار کی ایک فوج کے ہاتھوں اس تیز رفتار فتح کا سبب غالباً یہ تھا کہ اس وقت اسپین کے لوگوں میں اتحاد نہ تھا۔ مزید یہ کہ مسلمانوں سے اسپین کے لوگوں کو بہت فائدے پہنچے۔ مثلاً نئے حکمرانوں نے ان کے اوپر سے ٹیکس کا بوجھ کم کر دیا۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو آزادی حاصل ہوگئی ۔ یہود پر عیسائیوں کی طرف سے ہونے والے مظالم ختم ہو گئے اور انہیں سماج کے اندر برابری کا درجہ مل گیا۔ اس طرح آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف حصہ میں مسلم اسپین کے اندر ایک نیا اور بالکل مختلف سماج قائم ہو گیا۔ طارق بن زیاد کی زندگی سے ہمیں قیادت، ہمت اور اپنے مقصد کے لئے جانفشانی سے کام کرنے کا سبق ملتا ہے۔ انہوں نے انتہائی کم وسائل کے باوجود ایک عظیم فتح حاصل کی ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیدے اور عزم کے ساتھ کوئی بھی ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان کی زندگی سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ایک کامیاب رہنما کو اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔
طارق بن زیاد کی زندگی سے ملنے والے چند اہم اسباق درج ذیل ہیں
عزم اور ہمت
، طارق بن زیاد نے انتہائی مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھیں.
قیادت
انہوں نے اپنی فوج کی قیادت کی اور انہیں فتح کے لئے تیار کیا۔ انہوں نے اپنی فوج کو متاثر کیا اور ان میں اعتماد پیدا کیا۔
استعداد
طارق بن زیاد نے کم وسائل کے باوجود اپنی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے فتح حاصل کی۔
استقامت
طارق بن زیاد نے کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔
انتظام
انہوں نے اپنی فوج کو منظم کیا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔
تعلیم و تربیت
طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو تعلیم اور تربیت دینے پر بھی توجہ دی۔طارق بن زیاد کی زندگی سے ملنے والے یہ اسباق آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم اپنے مقاصد کے لیے عزم اور ہمت سے کام کریں تو کوئی بھی ہدف حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔
بہادری اور عزم کا پیکر ، بطل اسلام جناب طارق بن زیاد رحمہ اللہ کا نام تاریخ میں امر ہو کر متعدد مقامات کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے جن میں سرِفہرست جبل طارق ہے۔سال ٢٠١٢ء میں برطانیہ کے مرکزی بینک نے جبرالٹر کی حکومت کے لئے پانچ پاونڈ کا ایک کرنسی نوٹ جاری کیا جس پر طارق بن زیاد کی خیالی تصویر ہے۔



طارق کی دعا
مصور پاکستان، شاعر مشرق، علامہ محمد اقبال رح کی ایک مشہور نظم بال جبریل میں اسی معرکہ سے متعلق ہے ۔ اس نظم بعنوان اندلس کے میدان جنگ میں، شاعر مشرق علامہ اقبال نے طارق بن زیاد اور امت محمدیہ کے مجاہدین کی بہادری اور جذبے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نظم میں، اقبال نے مومن کی شہادت کی خواہش اور خدا کی راہ میں لڑنے کے جذبے کو اجاگر کیا ہے۔
نظم کے چند اہم نکات یہ ہیں
مجاہدین اسلام کی بہادری۔ بال جبریل سے اقتباس اس نظم کے شروع میں علامہ اقبال ؒ نے اسلام کے ہیرو یعنی بطل اسلام ،عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد ؒ اور مجاہدین اسلام کی بہادری اور ان کے جذبے کو بیان کیا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ وہ مجاہدین ہیں جنہیں خدا نے اپنے دین کی محبت عطا کی ہے۔
شہادت کی خواہش، اقبال ؒ کیمطابق مومن کے لئے شہادت سب سے بڑا مقصد ہے، مالِ غنیمت یا فتح نہیں۔
عشقِ الٰہی، نظم میں عشقِ الٰہی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، کہ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو دنیاوی خواہشات سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
عزائم کی تجدید، علامہ اقبال دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں پھر سے وہ بجلی پیدا ہو جو نعرہ لاتذر میں تھی۔ وہ مسلمانوں کے عزائم کو بیدار کرنے اور ان کی نگاہوں کو تلوار بنانے کی دعا کرتے ہیں۔یہ نظم مسلمانوں میں جذبہ ایمانی اور جہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ نظم علامہ اقبال کی مشہور اور مؤثر کلام میں سے ایک ہے۔
(اندلس کے میدان جنگ میں)
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیئے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے
علامہ اقبال ؒ نے اِس دلدوز اور مؤثر نظم ”طارق کی دُعا“ میں بطلِ اسلام فاتحِ اندلس عظیم مجاہد جرنیل جناب طارق بن زیاد رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے اُن جذبات کی عکاسی اپنے الفاظ میں کی ہے جو آغازِ جنگ سے پہلے اس مردِ مومن کے دِل میں موجزن ہوئے ہوں گے اور پھر دعا کی صورت میں اس کی زبان تک آئے ہوں گے۔ یہ اشعار بلاشبہ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی تخیّل کی قوت کے کمال کی دلیل ہیں کیونکہ اگرچہ دعا کے الفاظ اپنے کلام کی صورت میں اُن عظیم مجاہدین تک نہیں پہنچے لیکن جو کچھ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے میدان کار زار کا نقشہ منظوم شکل میں پیش کیا ہے، اس کو پڑھ کر ہم پر آشوب نظارہ کر سکتے ہیں کہ غالباً طارق بن زیاد اور مجاہدین اسلام نے اللہ تعالٰی سے اسی نوعیت کی ہی دعا کی ہوگی۔(ترتیب و تالیف ۔ طالب دعاء، رشید احمد گبارو )