Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو۔ڈٹ جاﺅ تم حسینؓ کے انکار کی طرح

Posted on July 5, 2025July 5, 2025 by gabbaro
Spread the love

امام عالی مقام سیدنا حسینؓ شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر سن کر سیدِ عرب و عجم، سرکار دو عالم محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی ﷺ اپنے لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اور نومولود سیدنا امام حسینؓ کے کانوں میں اذان دی اور آپؓ کے منہ میں اپنا مبارک لعاب دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ کا نام نامی حسینؓ رکھا۔ نواسۂ رسولؐ،جگر گوشۂ بتول ؓ،نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسولؐ سید نا حضرت حسینؓ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا امیرالمومنین سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ جناب فاطمۃ الزہراءؓ کے عظیم فرزند اور سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سید، طیب، مبارک، سبط النبیؐ، ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسولؐ القابات ہیں۔سیدنا حسینؓ نے تقریباً سات سال تک سرور کونین، جناب رسالت مآب ﷺ کے سایۂ لطف نبوت و رسالت میں پرورش پائی۔ نبی کریم ﷺ سیدین السعیدین جناب حسنینؓ الکریمین سے غیر معمولی محبت و شفقت فرماتے اور تمام صحابہ کرامؓ بھی رسالت مآب ﷺ کی اتباع میں سیدین السعیدین حسنین کریمینؓ سے خصوصی شفقت و محبت رکھتے اور اکرام فرماتے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلیفۃ الرسولؐ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا ذی النورین عثمان غنیؓ بھی حضرات حسنینؓ کو نہایت عزیز اور مقدم رکھتے اور انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔ سیدنا امام حسینؓ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ آپؓ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے شبیہ تھے۔ آپؓ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبویؐ میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپؓ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا حسینؓ کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر آپؓ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپؓ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ آپؓ کو نماز سے بے حد شغف تھا۔ اکثر روزے سے رہتے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کا ذوق اتنا کہ متعدد حج پاپیادہ ادا فرمائےتمام ارباب سیرت نے سیدنا امام حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بڑے درجے کے حامل تھے۔ امیرالمومنین سیدنا علیؓ المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم قضاء و افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ نے بھی حصول علم کے بعد مسند تدریس کو زینت بخشی اور مسند افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابرین مدینہ منورہ مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ دور نبوت کے ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘۔ (ترمذی)۔سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت، ناانصافی، عہد شکنی، ظلم و جبر اور فسق و فجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے دور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیادیں رکھی جانے لگیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہوگیا، لہٰذا اس نازک وقت اور سنگین دور میں یہ عظیم سعادت سیدنا حسینؓ کا مقدر ٹھہری۔ آپؓ ایمانی جذبے سے سرشار ہو کر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوئے اور برائی کے سدِّباب کے لئے آپؓ نے ہر ممکن کوشش کی۔ امام حسینؓ نے تمام خطرات کے باوجود اسلام کی خاطر رخصت کے بجائے عزیمت کی راہ اختیار کی، کیونکہ ایک طرف ذاتی خطرات تھے اور دوسری طرف ناناﷺ کا دین اور امت محمدیؐ کا مفاد تھا، لہٰذا آپؓ نے نہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سربلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کردیا تمام ارباب سیرت نے امام عالی مقام سیدنا حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بہت بڑے درجے کے حامل تھے۔ ۔سبط رسولؐ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپؓ کےتبحر علمی، علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپؓ کے خطبات سے کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے کچھ آج بھی کتب سیرت میں موجود ہیں۔جگرِ گوشۂ بتولؓ، سیدنا امام حسینؓ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ آپؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہ رسالتﷺ میں حضرات حسنینؓ کریمین کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی آخر الزمانﷺ اپنے دونوں نواسوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپؓ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:٭… ’’حسن ؓاور حسینؓ، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)٭… سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا: ’’حسنؓ و حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں‘‘۔ (ترمذی) ۔ حضرت ابن ابی نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے آپ ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کیا (کہ اگر محرم کے لباس کو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟) سیدنا عبداللہ ابن عمر  رضی اللہ عنہما  نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ: اہلِ عراق میں سے ہوں۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! یہ مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے، حالانکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ  کے بیٹے (نواسے) کو شہید کر ڈالا، میں نے رسول اللہ ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ: یہ (حسن و حسین) دونوں میرے دنیا کے پھول ہیں۔‘‘(صحیح البخاری، رقم: ۵۹۹۴) حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ : ’’رسولِ خدا  ﷺ  سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا کہ: حسن ؓ و حسین ؓ سے، چنانچہ رسول اللہ  ﷺ  حضرت فاطمہ ؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘(ترمذی: ۳۷۷۲) سیدنا ابوبریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ ﷺ  ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ: اچانک سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما  سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ  منبر سے اُترے، دونوں حسنین کریمین  ؓ کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔‘‘ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہے) میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر اُنہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۷۷۴)۔ رحمتِ عالم ﷺ  اپنے ان پیارے نواسوں کو ان خوب صورت الفاظ میں دم کرکے شیطان اور نظرِ بد وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیتے تھے:’’أُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ۔‘‘ ’’ میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات سے ہر شیطان، تکلیف دہ چیز اور ہر قسم کی بدنظری سے پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘نیز فرماتے کہ: ’’جناب سیدنا ابراہیم  علیہ السلام  بھی اسی طرح اپنے صاحبزادوں سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق  علیہم السلام  کو پناہ ِ خداوندی میں دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۳۷۱)۔ امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ یوم عاشور، ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا،جس میں امام مظلوم سیدنا امام حسینؓ اپنے فرزندوں، بھتیجوں اور اپنے دیگر عزیزوں اور جانثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے اور باطل کو وہ شکست فاش دی کہ رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی ، حق و صداقت کی وہ لازوال شمع روشن کی جو کفر و باطل کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انسانیت کے لئے راہِ نجات اور چراغ راہِ منزل ہے۔ رحمتِ دوعالمﷺ نے فرمایا: ’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘۔(نسائی، ترمذی) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔”جس نے بھی امام حسینؓ کو شہید کیا ان کے قتل میں مدد کی یا ان کے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ اللہ تعالیٰ نہ اُن کے عذاب کو دور کرے گا اور نہ اس کا عوض قبول کرے گا“۔[فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد 4 صفحہ 487 ] ۔ جبکہ سیدنا امام حسینؓ نے دور ظلم و جور میں جس شان سے افضل جہاد کیا اور جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ایمان و عمل، ایثار و قربانی، تسلیم و رضا کی جو بے مثال داستان رقم کی، تاریخ انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؓ کے قیام نے لوگوں کے شعور کو جلا بخشی، جذبہ حریت بیدار ہوا اور خلافت کی حدود کا تعین ہوا۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ کے قیام کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق، اللہ تعالیٰ کی سر زمین میں اللہ جل شانہ کی حکومت کا قیام، دین مبین کی ترویج و اشاعت اور حق و صداقت کی نشر و اشاعت تھا۔ نواسۂ رسولؐ سیدنا حسینؓ نے اپنی بے مثال قربانی سے لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم اُجاگر کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 10 محرم الحرام، یوم عاشور 61 ہجری کے دن جب امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اس دن روئے زمین کے اپر آپ سے محترم و برتر کوئی شخصیت نہ تھی۔۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر اگر امام حسینؓ قیام نہ فرماتے تو حقیقت یہ ہے کہ شاید آج تک حقیقت مشتبہ ہی رہتی، کچھ معلوم نہ ہوتا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا؟ ہمیں کون سا نظام اختیار کرنا ہے اور کس نظام سے بچنا ہے؟اگر آپؓ قیام نہ فرماتے تو ملوکیت کو سند جواز مل جاتی، تاریخی فرض ادا کرنے پر امام حسینؓ بجاطور پر خیر الاُمم ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ استبدادی حالات اور ظلم و جور کی حکومت میں امام حسینؓ کا اقدام یقینا سنت قائم کرتا ہے۔ اگر سیدنا حسینؓ کا اسوہ ہمارے سامنے نہ ہو تو جبر و استبداد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا اور ظلم کے خلاف کوئی تحریک نہیں چل سکتی۔ امام الشہداء سیدنا امام حسینؓ کا فلسفۂ شہادت نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل انسانیت کے لئے ایک دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیں اور انسانی اقدار کی عظمت و اہمیت کو فروغ دیا۔ لہٰذا استبدادی حالات اور ظلم و جور کی حکومت میں سیدنا حسینؓ کا اقدام ہمارے لئے درس فراہم کرتا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، باطل چاہے کتنا ہی طاقت ور ہو، شر اور یزیدی قوتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں ،حق و صداقت کا علم اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت، اسوۂ نبویؐ کے احیاء اور دین کی سربلندی کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے، چاہے اس راہ حق میں جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے، چاہے اس راہ حق میں اپنی جان ہی چلی جائے، راہِ حق میں اپنی گردن ہی کیوں نہ کٹوانی پڑے۔آج چودہ سو برس گزرنے کے باوجود سیدنا حضرت امام حسینؓ کا پیغام اور فلسفہ حق و صداقت دین اسلام کی سربلندی کا روشن نشان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں امام عالی مقام سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ ، جملہ اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہ عنہم  اور خاندانِ نبوت کے تمام افراد کی محبت و اُلفت عطا فرمائے اور اُن کے نقوشِ پا پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین۔

 “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى  إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ”. 

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108373
Visit Today : 16

calendar

July 2025
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031  
« Jun   Aug »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb