
مراد رسول ، شہید محراب، خلیفہ الراشد ثانی امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ: ابوحفص سیدنا عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی ( 586مکہ – 590 ع مدینہ) خلیفہ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ الراشد محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ الاسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار سابقون الاولون ، علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634 عیسوی بمطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13 ھجری کو مسند خلافت سنبھالی۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نسب نویں پشت میں نبی آخر الزمان رسول اللہ ﷺسے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ: ’’عمررضی اللہ عنہ ، مرادِ رسول ﷺہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسولﷺ ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسولﷺ ہیں۔ ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام ،حکمائے اسلام اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا، لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلانِ نبوت نعوذ باللہ! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔ اہلِ مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔ جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لائو، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھائوں گی، انہوںنے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الاسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الاسلام بأبی الحکم بن ھشام و بعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِی صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد) چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جائوں اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّی عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہوں ۔ ۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میں درج کی ہے کہ :’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘غزوۂ بدر کے قیدی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشورہ :غزوۂ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا عظیم معرکہ تھا جو ۱۷ رمضان ۲ ہجری کو بدر کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ درحقیقت حق اور باطل کے درمیان پہلا کھلا تصادم تھا۔ مسلمان تعداد میں محض ۳۱۳ تھے جن کے پاس صرف دو گھوڑے، ستر اونٹ، اور معمولی اسلحہ تھا۔ دوسری طرف قریش کا لشکر ایک ہزار سے زائد تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل تھا جو پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ باوجود اِس کمی کے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی قیادت، ایمان کی طاقت، اور اللہ کی نصرت حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرمائے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قتال کیا اور یوں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔اِس جنگ میں قریش کے ستر سردار مارے گئے اور ستر قیدی بنائے گئے۔ ان قیدیوں میں کئی ممتاز شخصیات شامل تھیں، جیسے نبی کریم ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، حضرت علیؓ کے بھائی عقیل بن ابی طالب، سہیل بن عمرو اور حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص بن ربیع۔جنگ کے دوران بہت سے قریشی سردار مارے گئے، جن میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ شامل تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اسلام کے سخت ترین دشمن تھے اور مسلمانوں پر مکہ میں ظلم ڈھاتے آئے تھے۔اِسی جنگ میں حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ کے دل میں ایمان اتنا غالب آ چکا تھا کہ خونی رشتہ بھی حق کے مقابلے میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ بعد میں جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اسلام کے مقابلے میں خون کا رشتہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘‘جب جنگ ختم ہوئی اور قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ، جو نرم دل اور صلح جُو طبیعت کے مالک تھے، عرض کیا: “یا رسول اللہ! یہ ہمارے رشتہ دار ہیں، اگر ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کر دیا جائے تو ممکن ہے اِن کے دل نرم ہو جائیں اور اسلام کی طرف مائل ہوں۔” دوسری طرف حضرت عمرؓ نے فرمایا: “یا رسول اللہ! یہ سب اسلام کے دشمن اور فتنہ پرور لوگ ہیں، میں کہتا ہوں کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، ہر صحابی اپنے رشتہ دار قیدی کو قتل کرے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ اسلام خونی رشتوں پر بھی مقدم ہے۔ علیؓ کو حکم دیں عقیل کو قتل کرے، حمزہؓ کو حکم دیں عباس کو قتل کریں اور مجھے میرے رشتہ دار کے بارے میں حکم دیں۔”نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو ترجیح دی اور فیصلہ فرمایا کہ قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے بعض قیدیوں کو مال کے بدلے رہا کیا گیا جبکہ کچھ پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دینے کی شرط پر آزاد کیا گیا۔ یہ فیصلہ اس وقت نرم مزاجی اور مصلحت پر مبنی تھا۔چند دنوں بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت تنبیہ نازل ہوئی۔ سورہ انفال میں فرمایا:ما کان لنبی أن یکون لہ أسری حتی یثخن فی الأرضیعنی “کسی نبی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ زمین میں غلبہ حاصل کرنے سے پہلے قیدی بنائے۔”پھر فرمایا:لولا کتاب من الله سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم یعنی “اگر اللہ کا پہلے سے فیصلہ نہ ہوتا تو جو تم نے کیا، اس پر تمہیں سخت عذاب پہنچتا۔”یہ آیات دراصل حضرت عمرؓ کی رائے کے حق میں تھیں۔ بعد میں حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ “اس دن اگر میری رائے مانی جاتی تو یہ تنبیہ نہ آتی۔”غزوہ بدر نہ صرف ایک عسکری فتح تھی بلکہ نظریاتی بنیادوں پر بھی اسلام کی بالادستی کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ ہمیں سکھاتا ہے کہ بعض اوقات رحم اور نرمی کی جگہ سختی اور فیصلہ کن اقدام زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب دشمن دین کی جڑیں کاٹنے پر تلا ہو۔ حضرت عمرؓ کی غیرت ایمانی، عدل اور فیصلہ کی طاقت نے بعد کے واقعات میں بارہا امت کو فائدہ پہنچایا، اور اُن کی رائے کا درست ثابت ہونا ایک بار پھر اُن کی بصیرت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا أخی أشرکنا فی صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک وموتا فی بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے۔ عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔ مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔۔‘‘آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ