Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

حدیث نبویﷺ میں ہے کہ جنگ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے اور اللہ سے عافیت مانگنی چاہئے

Posted on June 23, 2025June 23, 2025 by gabbaro
Spread the love

شرح حدیث( متفق علیہ ۔صحیح بخاری شریف و صحیح مسلم) صحابی رسول عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کا کسی لڑائی میں دشمن سے سامنا تھا، آپ ﷺ نے انتظار کرتے ہوئے جنگ کی ابتدا سورج ڈھلنے تک نہیں کی۔ جب سورج ڈھل گیا، تو صحابۂ کرام سے خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے-جب کہ عام معمول کے مطابق آپ کے خطبے، نماز کے بعد ہوا کرتے تھے- آپ ﷺ نے دوران خطاب دشمن سے مقابلہ کرنےکی تمنا کرنے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ اس میں خود پسندی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ (اس کی بجائے ) آپ ﷺ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کریں۔ پھر فرمایا کہ جب دشمن سے لڑنا پڑ جائے، تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ جنگ برپا کر دے اور دشمنوں سے مقابلے میں تمھاری آزمائش کا موقع آجائے، تو میدان جنگ میں جم جاؤ، تشویش و اضطراب کو بالائے طاق رکھ دو اور جان رکھو کہ تمھیں دو بھلائیوں میں سے ایک ضرور حاصل ہو کر رہے گی؛ یا تو اللہ تعالیٰ تمھیں دشمنوں پر فتح و نصرت عطا فرمائے گا اور تمھیں غلبہ حاصل ہوگا، اس طرح اللہ تعالی تمھیں دنیا میں دشمن پر غلبہ اور آخرت میں اجر وثواب دونوں ہی سے نوازے گا یا یہ کہ جہاد میں پوری طاقت صرف کرنے کے باوجود تمھیں شکست سے دوچار ہونا پڑجائے، تو (اپنی جاں بازی و نثاری کے بدلے) تمھیں اخروی اجر و ثواب حاصل ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ” اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایے تلے ہے” کے معنی یہ ہیں کہ جہاد جنت میں داخل ہونے کا باعث ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے، اس کی نازل کردہ شریعت اور اس کی قدرت کاملہ کا وسیلہ لیتے ہوئے، اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد و نصرت کی دعا فرمائی۔ جنگ کوئی کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے، تو حقیقت کھلتی ہے کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔اس لئے آرزو یہ ہونی چاہئے کہ یہ موقع ہی نہ آئے تو اچھا ہے۔ مگر جب مبارزت اور آمنے سامنے ہونا لازمی ٹھہرے۔ تو اللہ تعالٰی پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت و شجاعت کا بھر پور اظہار کرنا چاہئے۔ ۔تفصیل:صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔” اس حدیث میں دو باتیں اہم ہیں۔1) جنگ کی خواہش نہ کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود سے جنگ کی ابتدا نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ہی جنگ کی خواہش کرنی چاہیے، کیونکہ جنگ میں بہت سے نقصانات اور مصائب ہوتے ہیں۔ 2) اللہ سے عافیت مانگنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اللہ سے عافیت اور سلامتی کی دعا کرنی چاہیے، اور جنگ سے محفوظ رہنے کی دعا کرنی چاہیے۔تاہم، اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اس حدیث میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ اگر دشمن سے سامنا ہو جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ:1) صبر کریں:یعنی ثابت قدم رہیں، گھبرائیں نہیں اور ہمت سے کام لیں۔2) جنت کی امید رکھیں:کیونکہ اگر مسلمان صبر سے کام لے کر میدان جنگ میں شہید ہو جائیں تو ان کے لئے جنت ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ امن اور سلامتی کی کوشش کرنی چاہیے، اور جنگ کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ طلبِ عافیت!  سب سے بہتر اور جامع دعا ترمذی شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ سے ایک جامع دعا نقل کی گئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ اگرچہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور تمام مصائب و مشکلات سے پناہ شامل ہے۔ ’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘ (ترمذی،ابواب الدعوات، ج: ۲، ص : ۱۹۱،ط:قدیمی) ’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘ کثرتِ دولت سے عافیت افضل ہے؛ کثرتِ دولت ہر فرد کے حق میں مفید نہیں ہوتی، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ کثرتِ دولت کے ساتھ ساتھ دین کی نعمت اور اپناخوف بھی نصیب فرمائیں اور وہ مال کے تمام حقوق ادا کرنے والے بنیں، ورنہ دولت کی فروانی انسان کو ہزاروں فکروں اور پریشانیوں میں ڈال دیتی ہے۔ عافیت کے بغیر مال ودولت ہیچ ہیں۔ لکھنؤ کے ایک نواب کا واقعہ ے کہ اس نواب کا معدہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے کی چیز معدہ ہضم نہیں کر پارہا تھا، حتیٰ کہ ململ کے کپڑے میں قیمہ رکھ کر چوسا کرتا تھا، وہ بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ اسی شہر کے کنارے ایک لکڑہارے (جوجنگل سے لکڑیاں جمع کرکے لاکر شہر میں فروخت کرتا ہے) کا مکان تھا، اس نواب صاحب نے ایک دن دیکھا کہ وہ لکڑہارا لکڑیاں سر پر اُٹھا کر لا رہا ہے اور گھر پہنچ کر اس نے لکڑیوں کا گٹھا سر سے اُتارا، ہاتھ منہ دھوئے اور اپنے پاس تھیلی سے دو روٹیاں نکالیں، پیاز سے کھانا کھایا اور وہیں سوگیا۔ اس نواب صاحب کو نیند بھی نہیں آتی تھی۔ لکڑہارے کی یہ صورت حال دیکھ کر نواب صاحب اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ “میں دل سے راضی ہوں اگر میری یہ حالت ہوجائے، یعنی پیاز سے ہی روٹی کھا کر میں ہضم کرسکوں اور اس طرح جلدی پُرسکون نیند مجھے مل جائے، تو اس کے عوض میں اپنی ساری نوابی اور ساری ریاست دینے کو تیار ہوں۔” نواب کے پاس سب کچھ تھا، حتیٰ کہ ان کے کتے بھی سب کچھ کھاتے تھے، لیکن نواب صاحب اس نعمت سے محروم تھے۔اس لئے انسان کثرتِ مال واسباب کے بجائے اپنے رب سے عافیت اور سکون مانگے، عافیت اور سکون میسر ہو تو تھوڑا بہت بھی کافی ہوجاتا ہے اور انسان کی زندگی پُرسکون گزرتی ہے، ورنہ ساری دولت کے موجود ہوتے ہوئے انسان اس سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، وہ انسان کے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے بعض بزرگوں کا یہ قول کتابوں میں منقول ہے کہ: ’’القلیل مع العافیۃ خیر من الکثیر مع القوارع۔‘‘ ۔۔۔۔۔’’ عافیت کے ساتھ تھوڑا مال اُس زیادہ مال سے بہتر ہے جو مصیبتوں کے ساتھ ہو۔‘‘ البتہ انسان کی لالچ، طمع کے بغیر اگر اللہ تعالیٰ کچھ عطا فرمادیں تو وہ اللہ کی نعمت ہے، انسان پھر اس کا حق ادا کرے۔ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ کی انگوٹھی کا نقش؛ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ابن شہاب زہری ؒ جو بڑے محدث گزرے ہیں- کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی انگوٹھی میں یہ عبارت کندہ کروائی تھی، ’’محمد یسأل اللّٰہَ العافیۃَ‘‘ کہ ’’محمد اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتاہے۔‘‘ان کا نام محمد بن شہاب زہری ہے، ‘‘انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحت نصیب ہوتی ہے، بلاؤں، پریشانیوں اور امراض سے انسان محفوظ رہتا ہے، یہ بھی عافیت کاحصہ ہے،صحت کے زمانہ میں اس عافیت کی دولت کی قدر ہمیں نہیں ہوتی، اسی لیے عقل مندوں کا یہ قول ہے کہ ’’عافیت تو ایک تاج ہے جوتندرست لوگوں کے سروں پر سجا ہوا ہے، وہ خود تو اس تاج کو نہیں دیکھ سکتے، ہاں! جو مریض ہوں‘ وہ اس تاج کو تندرستوں کے سروں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک بزرگ کا ہمہ وقت عافیت کا سوال کرنا؛ ایک اللہ والے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ہمیشہ یوں کہا کرتے تھے: ’’ اے اللہ! عافیت عطا فرما۔‘‘ ایک بار اُن سے پوچھا گیا :’’مَا معنٰی ہٰذا الدُّعاء؟‘‘ اس دعا کا کیا مطلب ہے؟ آپ ہمیشہ عافیت کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے: میں پہلے بار برداری کا کام کرتا تھا، یعنی مزدور تھا، سامان بوجھ وغیرہ اُٹھایا کرتا تھا، ایک دن میں آٹے کا بھاری بھر کم بوجھ اپنے اوپر لادے ہوئے تھا، جس کی وجہ سے مجھے بہت مشقت اور تکلیف ہوئی، میں نے تھک کر کچھ دیر کے لئے اس بوجھ کو رکھا، تاکہ تھوڑا دم لے لوں، اس وقت میں اللہ سے یوں دعا مانگنے لگا: ’’یا رب! ولو أعطَیتَنیْ کلّ یوم رغیفین من غیر تعب لکنتُ أکتفی بِہِمَا‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’پروردگار! اگر تو مجھے روزانہ صرف دو روٹیاں بغیر محنت ومشقت کے عطا کردے تو میرے لیے کافی ہیں، میں اسی پر قناعت کئے رہوں گا۔‘‘ اتنے میں ٗمیں نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں، میں ان کے درمیان صلح صفائی کی غرض سے آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک ایک آدمی نے غلطی سے میرے سر پر کوئی چیز دے ماری، جو وہ دوسرے آدمی کو مار رہا تھا، مگر غلطی سے میرے سر پر لگ گئی، چنانچہ میرا چہرہ خون آلود ہوگیا، پولیس والا پہنچا اور اس نے ان دونوں آدمیوں کو پکڑلیا، جب اس نے مجھے خون آلود دیکھا تو یہ سمجھا کہ میں بھی اس لڑائی میں ملوث ہوں، اس نے مجھے بھی مجرم سمجھ کر گرفتار کرلیا، چنانچہ مجھے بھی جیل پہنچا دیا۔ ایک مدت تک میں جیل میں رہا، جہاں مجھے روزانہ دو روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ ایک رات خواب میں ٗمیں نے ایک آواز سنا کہ وہ مجھ سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہا ہے: ’’إنّک سألتَ الرّغیفین کلَّ یومٍ من غیر نصب، ولَمْ تسأل العافیۃَ!‘‘ تو نے روزانہ کی دو روٹیاں بلا مشقت مانگی تھیں، عافیت نہیں مانگی تھی! تو میں نے تجھے تیرا مانگا دے دیا، یعنی اللہ سے عافیت مانگنی چاہئے تھی کہ اے اللہ! اس کام میں بہت محنت، مشقت اور تکلیف ہے، مجھے آسان ذریعۂ معاش نصیب فرما اور عافیت دے۔ اس دعاکے بجائے تو نے یہ کہا تھا کہ”’ دوروٹیاں مل جائیں‘‘ لہٰذا دو روٹیوں کی طلب تجھے جیل تک لے آئی۔ بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت ہوش آیا اور سمجھ آئی کہ مجھے عافیت مانگنی چاہئے، تو اَب میں فوراً یوں ہی کہنے لگا: عافیت، عافیت۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ جیل کا دروازہ کھٹکا اور پوچھا گیا: ’’أین عمر الحمال؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’عمر بار بردار کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں ہوں۔ عافیت کی دعاکے بعد مجھے جیل سے نجات اور رہائی مل گئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے پریشانی اور مشقت کے ازالے کے لیے عافیت کی دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ! میں کمزور ہوں، مجھے عافیت نصیب فرما۔ اب عافیت میں ساری بھلائیاں اور سہولیات شامل ہوجائیں گی، لہٰذا ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہیں، اپنی ذات کے لحاظ سے بھی، اپنے اہل وعیال کے لحاظ سے بھی، دنیاوی واُخروی زندگی کے لحاظ سے بھی۔ ایمان واسلام کی بنیاد میں امن وسلامتی کا مفہوم پورے طور پر موجود ہے اور اللہ تعالٰی کے ہر برگزیدہ نبی معصوم نے امن و سلامتی ہی کادرس دیا ہے اور سب سے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے امن کو بہت فروغ بخشا اور ساری دنیا کو سلامتی کا درس دیا۔ حضور نبیِّ کریم ﷺ کی زندگی کے ہر حصہ میں عافیت اندیشی نمایاں نظر آتی ہے۔ عافیت اندیشی کہتے ہیں صحت ، سلامتی ، امن ، نیکی ، بھلائی اور خیر چاہنے کو۔ اس معنی کے اعتبار سے اللہ کے ہر نبی و رسول عافیت اندیش تھے مگر رحمتِ عالم ﷺ نے اس عافیت اندیشی کو وہ عروج وکمال عطا کیا کہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے ایسی مثال قائم فرما دی جس کا کوئی جواب نہیں ۔مکی زمانہ ہو یا مدنی ، نجی زندگی ہو یا معاشرتی ، سفر ہو یا حضر اور حالت امن ہو یا حالت جنگ الغرض ہر حال میں اور ہر موقع پر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عافیت اندیشی برقرار رہی۔ حتّٰی کہ جب دشمن کی خود سری وسرکشی لاعلاج ہوجاتی اور جہاد و قتال کی ضرورت پڑتی تب بھی آخری نبی ﷺ  کا عافیت اندیشی والا کردار نمایاں رہتا۔ وقت کے بادشاہوں کو خط لکھے تو ”اَسْلِم تَسْلِم یعنی اسلام قبول کرو سلامت رہو گے“ کے فرمان سے عافیت اندیشی کا پیغام دیا ، ہجرتِ حبشہ و ہجرتِ مدینہ بتاتی ہیں کہ تصادم  ( ٹکراؤ )  کی راہ ترک کرکے عافیت اندیشی کو اختیار کرنا چاہئے ، جنگوں میں بچّوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور جنگ نہ کرنے والوں سے تعرض نہ کرنے اور باغات و مویشیوں کو اپنی حالت پر باقی رکھنے کے احکامات کوئی عظیم عافیت اندیش ہی دے سکتا ہے ، یونہی حدیبیہ کی صلح اور فتحِ مکّہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان بھی نبیِّ کریمﷺ کی عافیت اندیشی کی زبردست مثالیں ہیں۔پیشِ نظر مضمون میں واقعات و فرامینِ نبی کی روشنی میں حضور نبیِّ کریم ﷺ کی عافیت اندیشی ، خیرخواہی اور امن پروری کو ملاحظہ کیجئے اور اپنی زندگی کو عافیت و بھلائی اور امن و سکون کے دائرے میں لانے کے لئےاسوۂ حسنہ کے اس خوب صورت پہلو کو اختیار کرنے کی کوشش فرمائیں۔  عافیت کی دعا اور ترغیب دعا؛ رسول اللہ ﷺ نے دعائے عافیت کو بہت اہمیت دی ، نہ صرف خود یہ دعا بکثرت فرماتے بلکہ اُمّت کو بھی اس کی بہت زیاد ترغیب ارشاد فرمایا کرتے تاکہ ظاہری وباطنی اور دنیاوی و اُخروی تکالیف وآزمائشوں سے بچا جائے ، چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :  1)حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح و شام یہ دعائیں ترک نہ فرماتے تھے : اَللّٰھمَّ اِنِّی اَسْاَلكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ ، اللَّھمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِی دِینی وَدُنْیای وَاَھلی وَمَالِی ، اَللّٰھمَّ اسستر عَوْرَتِی یعنی اے میرے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرتا ہوں ، اے میرے اللہ ! میں تجھ سے درگزر اور اپنے دین و دنیا اور اہل و مال میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ ! میرے پردے کی حفاظت فرما۔  2) رسول اللہ ﷺ جب گرج چمک کی آواز سنتے تو دعا کرتے : اَللّٰھمَّ لَاتَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَاتُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ ترجمہ : اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ کرنا اور نہ ہمیں اپنے عذاب سے تباہ کرنا اور ہمیں اس سے پہلے عافیت عطا فرما دینا۔ 3)  ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہم منبر رسول کے پاس کھڑے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو یاد کرکے رونے لگے ، پھرفرمایا : بے شک رسولِ پاک ﷺ نے ہجرت کے پہلے سال اسی جگہ ارشاد فرمایا : لوگو ! اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرو  ( یہ تین مرتبہ فرمایا ) کیونکہ کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ 4)  ایک شخص نے حضورِ اکرم ﷺ  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:  یارسول اللہ ﷺ ! سب سے افضل دعا کون سی ہے؟   ارشادفرمایا : اپنے ربِّ کریم سے عافیت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا سوال کیا کرو۔ دوسرے دن بھی اس شخص نے حاضر ہو کر عرض کی:  یارسول اللہ ﷺ! سب سے افضل دعا کون سی ہے؟   آپ نے اسی دعا کا ارشاد فرمایا۔ تیسرے دن آکر پھر اس نے یہی سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں دنیا و آخرت میں عافیت مل جائے تو تم کامیاب ہوگئے۔    5 ) رسولِ پاک ﷺے ارشاد فرمایا : بندہ اس سے افضل کوئی دعا نہیں مانگتا ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ°  ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتاہوں۔ یوں ہی ارشاد فرمایا: اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے کہ اُس سے عافیت کا سوال کیا جائے۔ عبادات ومعمولات میں عافیت اندیشی؛ میانہ روی بھی عافیت ہی کا ایک گوشہ ہے، جبکہ حضور نبی کریم ﷺ نے عبادات ومعمولات میں اسے اپنانے کی بہت زیادہ ترغیب ارشاد فرمائی ہے کیونکہ آپ ﷺ  کو یہی محبوب تھا کہ عبادات میں بھی حتی الامکان تکلیفوں اور مشقتوں سے اُمّت کو بچایا جائے تاکہ لوگ کسی بوجھ و آزمائش کے بغیر دین پر بآسانی عمل کرسکیں ، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا 1) اپنی جانوں پرسختی نہ کرو کہ اللہ پاک تم پر سختی فرمادے کیونکہ ایک قوم  ( یعنی عیسائیوں ) نے اپنی جانوں پر سختی کی تو اُن پر سختی کردی گئی۔  2 )  ایک بار۔ چند صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے رسالت مآبﷺ  کی کسی زوجہ محترمہ سے گھر میں آپﷺ  کی عبادت کے متعلق پوچھا ، جو انہیں بتایا گیا اُسے انہوں نے کم سمجھا اور یوں کہنے لگے: ہم رسول اللہ ﷺ  کی معصوم ہستی کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ خود کو ان پر قیاس کرنے لگیں ، یہ تو وہ ہیں کہ جن کے سبب ان کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دیئے گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں اب ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔دوسرے نے کہا : میں ساری زندگی بلاناغہ روزے رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا : میں ہمیشہ عورتوں سے اجتناب کرتے ہوئے کبھی شادی نہیں کروں گا ۔ اسی اَثنا میں جناب رسالت مآب ﷺ  تشریف لے آئے اور ارشاد فرمایا : تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا۔ خدا کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے بڑا متقی ہوں لیکن میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں ، ( رات میں ) نماز پڑھتا ہوں اورسوتا بھی ہوں اور میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں تو جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں۔   عام زندگی میں عافیت اندیشی؛ علامہ ابنِ اثیر جزری رحمہ اللہ نے فرمایا : عافیت یہ ہے کہ تم بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہو۔ جبکہ علامہ عبدالرؤف مناوی فرماتے ہیں : دینی لحاظ سے فتنوں اور شیطان کے فریب سے اور دنیاوی اعتبار سے دُکھوں اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کو عافیت کہا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرکار دو جہان ﷺ عام زندگی میں عافیت کا بہت زیادہ درس دیا کرتے تھے ، باربار ایسی ہدایات جاری فرماتے رہتے جن پر عمل کی صورت میں دینی و دنیاوی عافیت حاصل رہے اور لوگوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ یہاں بعض وہ احادیثِ مبارکہ درج کی جاتی ہیں جو رسالت مآب سرور عالمﷺ کی عافیت اندیشی ، اُمّت پر رحمت و شفقت اور ان کے ساتھ خیرخواہی کو واضح کرتی ہیں :  1) حضور سید ِعالم ﷺ نے فرمایا : تین شخص ہیں کہ تیرا رب ان کی دعا قبول نہیں کرتا : ایک وہ کہ ویرانے مکان میں اترے۔دوسرا وہ مسافر کہ سرِ راہ  ( یعنی سڑک سے بچ کر نہ ٹھہرے ، بلکہ خاص راستے ہی پر )  پڑاؤ ڈالے۔ تیسرا وہ جس نے خود اپنا جانور چھوڑ دیا ، اب خدا سے دعا کرتا ہے کہ اسے روک دے۔  جنگوں میں عافیت اندیشی؛ رسول اللہﷺانتہائی بہادر اور دلیر ہونے کے باوجود کوشش ہوتی کہ جنگ میں نقصان کم سے کم ہو ، آپ کی جنگی ہدایات اور ان مواقع کی تعلیمات آپ کی عافیت اندیشی کو خوب اجاگر کرتی ہیں۔ آئیے یہاں جنگ کے مواقع کی اُن احادیث و روایات سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں جوحضور نبیِّ رحمت ﷺ کی عافیت اندیشی کو بیان کرتی ہیں :  1) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ پاک سے عافیت طلب کرو اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ پاک کو یاد کرو۔معلوم ہوا کہ ابتداء ً مسلمانوں کو جنگ یا کسی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہئے لیکن جب ان پر جنگ مُسلّط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں ۔  2) کسی جنگ کے موقع پر دوران لڑائی ایک شخص نے کلمہ پڑھا تو صحابی نے اس بنا پر اسے قتل کرڈالا کہ اس نے یہ کلمہ تلوار کے خوف سے پڑھا ہے۔ جب دربارِ رسالت میں یہ بات پہنچی تو حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہَلَّا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ یعنی کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔  3) حضرت عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ ن ے  ( دورانِ جنگ )  عورتوں اور بچّوں کے قتل سے منع فرمایا۔یہ ہے مسلمانوں کا جہاد ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضرت یزید بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہما کو شام کے جہاد پر بھیجا تو فرمایا کہ کفّار کے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، راہبوں  وغیرہ کوقتل نہ کرنا صرف انہیں قتل کرنا جو تم سے لڑنے کے لئے مقابلہ میں آئیں۔  4) ایک جنگ میں حضور نبیِّ پاک ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ نہ تو کسی عورت کو قتل کریں اور نہ ہی کسی محنت کش کو۔ عورت و مزدور سے مراد وہ ہی ہے جو جنگ میں حصہ نہ لیتے ہوں فوج یا کسی فوجی کی خدمت کے لئے آئے ہوں۔ان کی علامت یہ ہوتی ہوگی کہ ان پر سامان جنگ نہ ہوگا اور خدمت کے اسباب یا علامات ہوں گے۔سُبْحٰنَ اللہ ! اسلام میں کیسا عدل و انصاف ہے کہ لڑتے وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عافیت کے طلبگار پیارے نبی کریم ﷺ نے میدان جہاد میں عافیت اندیشی ، خیرخواہی اور عدل کے بے مثال نقوش ثبت فرمائے ہیں ، ورنہ فاتحینِ زمانہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے میدانِ جنگ میں ہرطرح کے ظلم وستم روا رکھے ، ایسے موقعوں پر وہ بھول گئے کہ عافیت کیا شے ہوتی ہے ، انہوں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے ، انسانیت کا تقدس پامال کیا ، شہروں کے شہر خون سے رنگین کردیئے اور آج دنیا ان کو جابر و ظالم حکمران کہتی نظر آتی ہے جبکہ دوسری طرف امام الانبیا والمرسلین ﷺ  کی عظیم ذات اقدس ہے کہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے موقع پر اپنے خون کے پیاسوں تک کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا ، ارشادفرمایا : اِذْھبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ یعنی جاؤ ! تم آزاد ہو۔ اور فرمایا”قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیکمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰہ لَکمْ٘-وَ ھوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(92)… ترجمہ؛(کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔سورہ یوسف)سیدنا یوسف نے ان کے اس اندیشہ کو بھانپ لیا اور انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، کوئی سرزنش نہیں اور آئندہ میں تمہاری ایسی تقصیر کا ذکر بھی نہ کروں گا۔ میں نے سب کچھ تمہیں معاف کیا اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ بھی تمہیں معاف فرما دے اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ ضرور تمہیں معاف فرما دے گا، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔فتح مکہ والے دن رسول اللہ ﷺ نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردران قریش کو، جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی تھیں، یہی الفاظ ارشاد فرما کر انھیں معاف فرما دیا تھا۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ طالب دعا : رشید احمد گبارو

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

June 2025
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
30  
« May   Jul »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb