
تحریر؛ رشیداحمدگبارو۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت ہی عزت دلاتی ہے اور کمزوری تباہی کو دعوت دیتی ہے۔ آج ایران، اسرائیل کی جانب سے سنگین حملوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل، امریکی پشت پناہی اور بعض مسلم ریاستوں کی فضائی راہداری کے ساتھ، ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ ایران کا جواب صرف بیانات، چند ڈرون حملوں اور “اسٹریٹجک تحمل” جیسے الفاظ تک محدود ہے۔ اس بے عملی نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ایران اس وقت فیصلہ کن جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ایران کے اتحادی روس اور چین صرف تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ وقتِ ضرورت جدید ہتھیار نہ ملے، اور عالمی حمایت بھی صرف زبانی کلامی بیانات تک محدود رہی۔ اس خاموشی نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات وعدوں پر نہیں، مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ جبکہ ایران کو اپنی جنگی صلاحیت دنیا کو باور کرانے کی عین ضرورت ہے، اسرائیل پر کاری ضرب اب ایران ہی کو لگانا پڑے گا۔جن ممالک نے اپنی بقا کا انحصار دوسروں کے وعدوں پر کیا، وہ ماضی میں لیبیا اور عراق کی طرح تاریخ کی گرد آلود صفحات میں گم ہوگئے۔
لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی مرحوم نے مغرب کے ساتھ مفاہمت کرکے جوہری پروگرام کو ترک کیا، مگر انجام ایک عبرت ناک موت اور تباہ شدہ ریاست کی صورت میں سامنے آیا۔ عراق کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر برباد کر دیا گیا۔ دونوں ممالک نے دفاعی خود مختاری کھوئی اور قیمت نسلوں نے چکائی۔

برعکس اس کے، شمالی کوریا نے دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ اسے ناپسند کیا جاتا ہے، مگر اس کی طاقت کا احترام سب پر لازم ہے۔ کوئی اسے کھلی آنکھ دکھانے کی جرات نہیں کرتا، کیونکہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہے جو دشمن کو روکنے کے لیے کافی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی کہانی مختلف اور سبق آموز بن جاتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض دفاعی ہتھیار نہیں، بلکہ ہماری نظریاتی اور جغرافیائی خودمختاری کا پہرہ دار ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو دشمن کو کسی بھی جارحیت سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور یہی بیان محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان مرحوم کے 28 مئی 1998 میں دیا تھا۔ حالیہ دنوں 8مئی کے پاکستان اور بھارت کے جنگی صورتحال نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت نہ ہوتی، تو ہماری حالت بھی لیبیا یا عراق سے مختلف نہ ہوتی۔
یہ ایٹمی پروگرام ، ریاست پاکستان کے لئےامن اور آزادی کا وہ تالا ہے، جس کی چابی صرف ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ یہ ہماری خارجہ و دفاعی پالیسی کا مرکز و محور اور قومی مفاد و اتحاد اور اتصال کا محافظ ہے۔ دشمن ہو یا دوست، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو دبایا نہیں جا سکتا، کیونکہ اس کی پشت پر وہ طاقت ہے جو صرف جنگی نہیں بلکہ نظریاتی ہتھیار بھی ہے۔
اس پروگرام کی بنیاد رکھنے والے رہنماؤں اور اسے پروان چڑھانے والے سائنس دانوں کو تاریخ سلام پیش کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف تک جن قائدین نے اس راستے میں بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود یہ طاقت قوم کو بخشی، انہوں نے دراصل پاکستان کو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے سے بچا لیا۔

یہ سبق ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا
دنیا کمزور کی نہیں سنتی، وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اور اگر ہم نے اپنی اس طاقت کو کمزور کیا یا نظرانداز کیا، تو ہماری داستان بھی ایک اور عبرت کے باب میں بدل جائے گی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمارے قومی وجود کی ضمانت ہے—اور اس پر کوئی سمجھوتہ، صرف سیاسی غلطی نہیں، قومی خودکشی ہوگی۔