Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

بر صغیر پاک و ہند اور بنگال جو کسی زمانے میں براعظم کہلاتا تھا۔۔

Posted on May 4, 2025May 10, 2025 by gabbaro
Spread the love

پاکستان اور بھارت کی حالیہ جنگی کشیدگی پر ایک تاریخی جائزہ۔

جنگ چھڑنے کی صورت میں بھارت کو ہی بڑا نقصان ہوگا۔۔ شمال مشرقی سرحد پر چین سکم کے علاقے پر کنٹرول چاہتا ہے ۔ جبکہ بنگلہ دیش اپنے شمال مشرق میں واقعہ آسام کا دعوے دار ہے۔بھارتی مشرقی پنجاب میں رہنے والے سکھوں کیلئے کمزور اور شکست خوردہ بھارت سے الگ خالصتان ریاست کا اعلان ہونا باقی ہے ۔ مودی کے ہندو توا سے نجات اور سکھوں پر حملوں کے ردعمل کا درست وقت ہوا چاہتا ہے کہ اپنے آزاد ریاست کا اعلان کریں۔ سکھ علیحدگی پسند مشرقی پنجاب کو خالصتان کی شکل میں آزاد کرانا چاہتے ہیں۔۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمان بھارت سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔۔ جبکہ کشمیری حریت پسند کسی خاص موقع کی تاک میں ہیں کہ جلد از جلد کشمیری اپنے علاقے سے بھارتی فوج کو نکال سکیں۔۔۔ افغانستان اگر کسی صورت بھارت کے ساتھ اپنا اتحاد رکھنا چاہے تو واخان کوریڈور سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔الغرض برصغیر میں پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع ہو تو بھارت ہر طرح سے چین،پاکستان، مشرقی پنجاب اور بنگلہ دیش کے نرغے میں آئے گا ۔ پاکستان نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو حیران کرنے کے پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اب دفاعی لحاظ سے اتنا مضبوط ہے کہ بھارت کا جغرافیہ بدل سکتا ہے۔۔

پاکستان بین الاقوامی برادری کو اپنے طرف متوجہ کرکے ہمدردی حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ بھارت کی بلوچستان میں دہشتگردی کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کسی صورت میں بھی بھارت پر حملے میں پہل نہیں کرے گا۔ بھارت اگر پاکستان پر حملہ کرے تو اسی بنیاد پر پاکستان، بھارت پر جوابی حملے ضرور کرے گا۔

جوابی حملے کی صورت میں بحیثیت مسلمان قوم ایک بات تو اٹل ہے کہ پاکستان سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنائے گا۔۔البتہ پاکستان جوابی حملے میں بھارت کے زیر نگرانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں سٹرٹیجک فوائد ضرور حاصل کرے گا۔۔اور
بھارت کے فوجی تنصیبات کو تباہ کرے گا۔۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بھارت میں فوجی تنصیبات سے سامان دوسری جگہوں پر شفٹ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے افواج کا موازنہ تو کسی صورت ممکن ہے ہی نہیں، کیونکہ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں زیادہ فوجی و حربی صلاحیت ہے۔ اگر پاکستان اور انڈیا کے میڈیا کا موازنہ کیا جائے تو پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی صلاحیت پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے پاس زیادہ ہے۔ اگر بین الاقوامی میڈیا جانچ پڑتال کرے کہ دونوں ممالک میں کون حقائق پہ مبنی رپورٹنگ کررہا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ہندوستان کی میڈیا کو جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں پاکستان پر سبقت حاصل ہوگی۔ ‏انڈین میڈیا کو چاہئے کہ وہ پاکستانی میڈیا سے ٹرینگ لے۔ برصغیر کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے ملک میں کوئی آزاد میڈیا نہیں ہے۔۔

تاریخ کا اجمالی خاکہ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کسی زمانے میں ایک وسیع و عریض ملک تھا۔ اتنا بڑا کہ اسے ماضی بعید کے زمانے میں الگ تھلگ براعظم تصور بھی کیا جاتا رہا۔۔
برصغیر کا ساحل کم و بیش پانچ ہزار میل تھا ۔ خشکی کی سرحد تقریبًا چھ ہزار میل پر محیط تھی ۔ شمال میں سنگلاخ پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش دو ہزار میل تک پھیلے ہوئے تھے۔
برصغیر اپنی زرخیزی کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا جس وجہ سے اس سرزمین نے غیر قوموں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا۔ صدیوں تک جنوبی قوموں کا تمدن شمالی ہندوستان کو متاثر کرتا رہا۔
حملہ آور قوموں کے یہاں آنے سے سندھ و ہند و پنجاب میں مختلف تہذیب و تمدن کا ایک مجموعہ تیار ہو گیا۔ ہر تمدن برصغیر کو متاثر کرنے کے بعد خود کسی دوسرے تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔
دور قدیم میں برصغیر میں دو قومیں بستی تھیں جس کی یادگاریں آج تک نیل گری کی پہاڑیوں میں باقی ہے۔ کول اور بھیل اقوام نے برصغیر کو اپنا گھر بنایا۔
صدیوں بعد دراوڑوں نے ان قوموں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ دراوڑ کے قد چھوٹے رنگ کالے پیلے اور ناک چپٹی تھی۔ دراوڑ ابتدا میں شمالی برصغیر میں آباد ہوئے لیکن آریاؤں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دراوڑ کولوں اور بھیلوں سے کر چکے تھے۔

آریاؤں نے دراوڑوں کو شمالی برصغیر سے نکال دیا۔ وہ جنوبی برصغیر میں چلے گئے۔ آج جنوبی برصغیر میں دراوڑوں کی اکثریت ہے۔ ان کی زبانیں ہندی آریائی زبانوں سے مختلف ہیں۔ شمالی برصغیر میں دراوڑ شہری تمدن کے انتہائی جدید مدارج تک پہنچ چکے تھے۔
ان کا تمدن سومیری تمدن سے ملتا جلتا تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھنڈرات نے ان کے تمدن کی عظمت کو ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیا ہے۔
ان شہروں کا تمدن صدیوں کی آغوش میں پلا بڑا ہوگا۔ مصر ، عراق اور ایران کی تہذیبوں کے پہلو بہ پہلو دراوڑی تہذیب بھی اپنی قدامت اور عظمت کی داستان کھنڈرات کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔
موہنجوداڑو اور ہڑپہ آریاؤں کے آنے سے صدیوں پہلے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ سندھ اور پنجاب کا تمدن مصر اور عراق کے ہم عصر تمدن سے کسی طرح پیچھے نہیں تھا۔ ان شہروں کے لوگ سوتی کپڑا بننا جانتے تھے۔ گھروں میں غسل خانے تھے۔ شہریوں کے مکان بہت بلند اور صاف ہوتے تھے۔ ان کا مذہب مصریوں اور سومیریوں سے ملتا جلتا تھا۔
آریا تقریبا 1500 سے 3200 قبل مسیح یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام سے سے 3200سے1500 سال قبل مدیان ایران کی راہ سے شمالی سندھ خیبر سے برصغیر میں داخل ہوئے۔
چمکدار آنکھوں والے آریا وسط ایشیا یوریشیا کے میدان اعظم سے ایران افغانستان اور شمالی سندھ میں پیدل ننگے پاؤں چل کر آئے۔ گورا رنگ ، دراز قد جو وسط ایشیا سے ہندوستان کی زرخیزی دیکھ کر وارد ہوئے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے والے اور گھوڑی کا دودھ پینے والے آریا جفا کش دلیر اور بہادر قوم تھے۔
قدیم ہند و سندھ( برصغیر)کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے دراوڑ چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریا ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔
آریاؤں کی آمد کے ساتھ ساتھ یا ان سے پہلے شمالی مشرقی ہندوستان برما بنگال آسام کے درّوں سے منگولی قومیں بھی ہندوستان میں داخل ہوتی رہیں۔

آریا برصغیر کے شمال مغرب سے داخل ہوئے۔ شمالی برصغیر میں وہ صدیوں تک دراوڑوں سے لڑنے کے بعد پنجاب پر قابض ہوئے۔ پنجاب سے وہ گنگا کی وادی میں پہنچے۔ جہاں آریاؤں کی سیاست اور تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔
قدیم ہندوستان میں ایک عظیم الشان آریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ تقریبًا 600 قبل مسیح میں اس سلطنت کے زمانہ میں گوتم بدھ ہمالیائی ریاست کپل وستو میں پیدا ہوئے ۔بدھ نے اپنے زمانہ کی تمام معاشرتی برائیوں کے خلاف بغاوت کی۔۔

ایران کے بادشاہ دارا نے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سکندر اعظم نے بھی 336 قبل از مسیح میں ہندوستان کا رخ کیامگر راجہ پورس نے اس کا خوب مقابلہ کیا ۔
پاٹلی پترا فتح کرنے کی ہوس لے کر سکندر اعظم کو واپس جانا پڑا۔
یونانی تہذیب نے شمالی ہندوستان کو متاثر کیا۔ سکندر اعظم کے جانے کے بعد پنجاب سے چندر گپت موریا اُٹھا۔
اس کے وزیر چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ نظم و نسق حکومت پر غالباً پہلی کتاب ہے۔
موریا خاندان کے شہنشاہ اشوک اعظم کا عہد حکومت بدھ مت کے مذہب کو سرکاری طور پر رائج کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔
موریا سلطنت کی تباہی کے بعد پانچ سو سال تک ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت دکھائی نہیں دیتی۔

اس زمانہ میں ساکا او یوچی قوموں نے ہندوستان پر دھاوا بولا۔
ساکا قوم کا سب سے مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ اسی زمانہ میں بدھ مت اور برہمن میں کشمکش ہوئی۔
پُران بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔

کم و بیش اسی زمانے میں پوریا سلطنت قائم ہوئی۔ اب پاٹلی پترا کی جگہ اجین کو ہندوستان کی مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہ زمانہ برہمن اور راجپوتوں کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔
مہا راجہ عظیم بکرما جیت سنگھ اسی پوریا خاندان کا ایک حکمران تھا۔ چندر گپت پوریا خاندان کے عہد حکومت میں ہندوستانی علوم و فنون اور صنعت و حرفت نے خوب ترقی کی۔ واضح رہے کہ چندر گپت پوریا اور چندر گپت موریا دو الگ الگ اقوام کے مہاراجے رہے ہیں۔۔۔

ہندوستان اور روم میں تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے جاوا اور سماٹرا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔
چندر گپت پوریا خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان پھر بیرونی حملہ آوروں کا شکار ہوا۔
اب کے سفید ہن اور سیتھین قوم نے شمالی ہندوستان کو تخت و تاراج کیا ٹیکسلا کو تباہ برباد کیا یہ مہاراجہ اشوک کی سلطنت تھی۔ آج بھی کھنڈرات موجود ہیں۔

مہر گل ہن قوم کا مشہور بادشاہ تھا۔ وہ ہاتھیوں کو پہاڑوں سے گرا کر ان کے مرنے کا تماشا دیکھتا اور خوش ہوتا۔

ساتویں صدی میں ہرش وردھن نے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نظم و نسق کو مشہور مورخ ہیون سانگ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہرش وردھن اگرچہ بدھ مت کا پیرو کار تھا لیکن اس کے عہد میں شمالی ہندوستان میں راجپوتوں اور برہمن نے زور پکڑ لیا تھا۔

لگ بھگ 600 عیسوی میں ہرش وردھن کی موت کے بعد ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔

اسلام اس وقت عرب کے صحراؤں میں پھل پھول رہا تھا۔
آٹھویں صدی عیسوی میں محمد بن قاسم دیبل کے راستے کراچی کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا۔

راجہ داہر کو شکست دی اور ملتان تک پہنچا۔ لیکن کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی لیکن سندھ کے لوگوں پر کافی اثر چھوڑا۔
سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں تک بھی بنا لیں۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔

غزنی سے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کرکے گجرات میں سومنات کے مندر کو فتح کیا۔

سلطان محمود غزنوی نے اپنے مشہور غلام ملک ایاز کو لاہور کا امیر بنایا اور ہندوستان کو اپنے ریاست کا حصہ بنایا۔۔
غزنویوں کو شکست دینے کے بعد سلطان محمد غوری نے لاہور کے راجہ جے پال کو بے دخل کرکے نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ پہلی اسلامی سلطنت تھی جو خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ہوئی۔

سلاطین دلی میں التمش ۔ رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین بلبن نے تاریخ میں شہرت پائی۔
التمش اور رضیہ سلطانہ کو خلجیوں نے فتح کیا۔

خلجیوں میں علاؤالدین خلجی مشہور سلطان تھا۔

خلجیوں کو خاندان تغلق نے فتح کیا جن میں محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق مشہور سلاطین گزرے۔

محمد بن تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آیا۔ اور بہت معلومات اپنے سفر نامے میں لکھیں۔

فیروز تغلق اور غیاث الدین تغلق مشہور ہوئے۔
محمود شاہ تغلق کمزور سلطان تھا۔
امیر تیمور کے حملے نے تغلق خاندان کے قوت و عظمت کو خاک میں ملا دیا۔

دہلی کو تیمور لنگ نے تخت تاراج کیا۔
اور دہلی میں خون کی ندیاں بہادیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ امیر تیمور نے کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی البتہ خوب لوٹ مار کر کے چلا گیا۔

بعد ازاں خضر خان نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی۔ سید خاندان کی کمزوری دیکھ کر بہلول لودھی نے دلی پر قبضہ کیا اور لودھی خاندان کی بنیاد ڈالی۔

سکندر لودھی اس خاندان کا مشہور سلطان تھا۔ سکندر لودھی نے آگرہ شہر آباد کیا اور آگرہ کو دار السلطنت بنایا۔ سکندر لودھی کے بعد ایک کمزور حکمران ابراہیم لودھی سلطان بنا۔ جس کو ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

ظہیرالدین بابر وسط ایشیا کی ریاست فرغانہ کے امیر شیخ مرزا کا بیٹا تھا۔ والد کی وفات کے وقت بابر کی عمر بارہ سال تھی۔
بھائیوں اور چچا کی مخالفت کی وجہ سے فرغانہ کو چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ پتھریلے پہاڑوں پر ننگے پاوں چلتے ہوئے اس کے پاوں اتنے سخت ہو گئے کہ کانٹا چبھنے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔

جنگلوں میں گھومتے ہوئے اس نے مختلف قبائل جمع کرکے بارہ ہزار فوج اکٹھی کی اور کابل پر قبضہ کیا۔
ہندوستان کی زرخیزی اور دولت دیکھ کر اس نے بارہ ہزار فوج سے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔
ءسنہ1526 میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔

بابر نے رانا سانگا کو بھی شکست دی اور اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ بابر اتنا جفاکش تھا کہ دو آدمیوں کو اٹھا کر قلعے کی دیوار پر دوڑ لگاتا تھا۔

بابر بڑا مردم شناس تھا۔ ایک دفعہ بابر نے تمام حکومتی امراء کو دعوت دی۔ دعوت میں شیرشاہ سوری بھی امراء میں شامل تھا۔
شیرشاہ سوری نے بابر کے سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا اپنا خنجر نکال کر کاٹ کر کھانے لگا۔ دعوت ختم ہونے پر بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو تنبیہ کی کہ اس شخص شیرشاہ سوری سے بچ کر رہنا۔
پھر ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ جب شیر شاہ سوری کے جانشین کمزور ہوئے تو ایرانی بادشاہ کی مدد سے ہمایوں نے دوبارہ سوری حکمران پر حملہ کیا اور اسکو شکست دے کر دوبارہ برصغیر کا شہنشاہ بنا۔
لیکن پانچ سال کے بعد طبعی موت مرگیا۔

ہمایوں کے بیٹے اکبر کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کے استاد بیرم خان نے جلال الدین اکبر کے نام سے اکبر کو تخت پر بٹھایا اور خود اس کا سرپرست بن گیا۔

اکبر نے پچاس سال حکومت کی
دین الہی کے نام سے ایک نیا دین جاری کیا۔ ہندو عورتوں سے شادی کی جہانگیر ایک ہندو عورت جودا بھائی کے بطن سے پیدا ہوا۔
اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا۔
تزک جہانگیری میں زنجیر عدل کا ذکر ملتا ہے۔
اسکے بعد جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں شہنشاہ بنا۔

شاہ جہاں کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کو انجینیر بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ تاج محل۔ شالیمار باغ اور ٹھٹھہ کی مسجد شاہ جہاں قابل ذکر ہیں۔
شاہ جہان بیمار ہوا تو اس نے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد بنایا۔

اورنگزیب عالمگیر دکن میں مرہٹوں سے لڑ رہا تھا۔
اس کو پتہ چلا تو تخت نشینی کی جنگ چھیڑی۔ جس میں اورنگزیب فتح یاب ہوا۔
شاہجہاں کو قید کرکے بھائیوں کو شکست دی اور تخت پر بیٹھ گیا۔

اس نے بھی پچاس سال حکومت کی لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیر نے بنائی۔

اس کی وفات کے بعد جانشین کمزور ہوتے گئے تیمور اور مغل خون میں ملاوٹ کی وجہ سے سست ہوگئے۔

جس نی محمد شاہ رنگیلا جیسے بادشاہ پیدا کئے۔ نادر شاہ نے بھی دلی پر حملہ کیا خوب دولت لوٹی۔

مشہور کوہ نور ہیرا اور تخت طاؤس بھی ساتھ لے گیا۔

ہندوستان جس کی دولت کے سرمائے سکندر کے زمانے سے یورپ جا رہے تھے۔

واسکوڈے گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان (برصغیر) کے ساحلی مقام کالی کٹ پر پہنچا۔

ہندوستان کے لوگوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی کے پیش نظر اس نو وارد کا استقبال کیا۔
کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اُشتر کی طرح پرتگیز بھی اسے خیمہ سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔

پرتگیزوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد کالی کٹ کے سینہ پر ایک پرتگیزی قلعہ نظر آیا۔ تھوڑی مدت بعد پرتگیزی عَلم گوا کی دیواروں پر لہرایا۔
کالی کٹ کے لزبنی مہمانوں نے زیمورن کے شاہی محلات کو نذر آتش کرنے سے گریز نہ کیا۔
میزبان کی خدمت میں مہمان کا ہدیہ تشکر! پرتگیزی آخر اس ملک کے ساحل پر پہنچ گیا۔۔ ۔

انگریز بھی شروع میں تجارت ہی کی غرض سے ہندوستان آئے۔

مغل بادشاہ جہانگیر کو کچھ تحفے تحائف دیے اور ہاتھ پاؤں جوڑ کر تجارت کی اجازت مانگی۔
اجازت ملنے کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں قائم کی۔

اور بڑھتے بڑھتے اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کھوکھلی کرنا شروع کر دیا۔

بالآخر 1858 کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگوں بھیج دیا۔
اور انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔۔

تاریخ میں بہت سے حملہ آور آتے رہے اور کچھ نا کچھ ساتھ لاتے رہے۔ اور بہت کچھ لے کر جاتے رہے۔

آج سے پانچ ہزار دو سو سال پہلے جو لوگ موجود تھے اب ان کی نسلوں میں بہت ملاوٹ ہو گئی ہے۔
جو بھی آیا اپنا نشان چھوڑ گیا۔ خالص کوئی نہیں بچا۔

اسی طرح راجپوت بھی خالص نہیں رہے۔ سارے حملہ آور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
مغل بھی خالص نہیں رہے۔
بابر دراصل چنگیز اور تیمور کا مکسچر تھا۔ اسکے بعد اکبر اعظم نے ہندووں سے شادی کی تو جہانگیر تو مکسچر ہی تھا۔
آگے والی نسل اس بھی زیادہ مکسچر ہوتے رہے۔

انگریزوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
اور اینگلو انڈین کے نام سے نئی قوم وجود میں آئی۔
آج کے برصغیر میں دیکھیں تو شمال مغرب کے لوگ گورے چٹے اور چائنا ناک والے ہیں۔
جوں جوں آپ جنوب کی طرف جائیں تو لوگ سانولی رنگت کے نظر آئیں گے۔
گورے چٹے بھی ہیں۔ اور جنوبی ہندوستان میں کالے اور چپٹی ناک والے زیادہ نظر آئیں گے۔
شائد ہی کوئی گورا اور گندمی ہو۔
جو کراس نسل سے ہو گا۔
بنگال میں زیادہ تر لوگ کالے چپٹی ناک والے ہونگے۔
لیکن کچھ خوبصورت اور گندمی رنگت والے بھی نظر آئیں گے۔

کراچی میں بھی حبشی نسل کے گھنگریالے بالوں والے ملیں گے جن کو مکرانی کہتے ہیں۔
یوں برصغیر میں تمام حملہ آوروں اور باہر سے آنے والوں نے اپنا اثر ڈالا۔

حملہ آور درہ خیبر کے ذریعے آتے رہے۔ آریا آئے۔ سکندر آیا منگول آئے۔ افغان۔ لودھی سوری۔ مغل جس راستے سے گزرتے گئے اپنا بیج بوتے گئے۔۔
اسلام تو آیا 610 عیسوی میں۔ اور ہمارے پاس دو تین سو سال بعد آیا اس سے پہلے لوگ یا بدھ ازم یا ہندو ازم مانتے تھے۔ ابھی بھی ٹیکسلا ۔سوات۔ افغانستان، گلگت، کوہستان میں مہاتما بدھ کی مورتیاں اور کھنڈرات موجود ہیں۔ ہم ہندوؤں یا،بدھ مت سے مسلمان ہوئے ہیں۔

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

May 2025
M T W T F S S
 1234
567891011
12131415161718
19202122232425
262728293031  
« Mar   Jun »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb