Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

کیا اسرائیل “عظیم تر اسرائیل ” کے منصوبے پر کام کررہا ہے؟ امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ !

Posted on January 9, 2025June 13, 2025 by gabbaro

تحریر و تالیف : رشید احمد گبارو

صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ‘ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔

اس مغضوب قوم کا ماننا ہے کہ ’جب بنی اسرائیل حضرت موسی و ہارون علیھما السلام کے دور میں مصر سے نکل کر آئے تھے تو اس وقت ان کا مرکز فلسطین تھا جہاں آکر وہ آباد ہوئے‘ اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے اور اس کے علاوہ “عظیم تر اسرائیل” میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں یہودی آباد تھے۔

یہودی مذہب کے مطابق “عظیم تر اسرائیل” سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔

حقیقت میں گریٹر اسرائیل ایک ایسا مذہبی واہمہ ہے جو قابل عمل نہیں ’مگر اہل کتاب یہودیوں سے زیادہ صیہونی سیاست میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ’عملی طور پر‘ اسرائیلی، فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کو اپنا حصہ مانتے ہیں لیکن اگر صرف ’مذہبی واہمہ و مفروضہ ‘ کی بات کی جائے تو گریٹر اسرائیل میں جزیرہ نمائے عرب یعنی آج کے سعودی عرب، عراق، اردن، مصر کے کچھ علاقے اس میں شامل ہیں۔

گریٹر اسرائیل یعنی ’مملکت موعود برائے بنی اسرائیل‘ کے متعلق جب حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہودی مصر میں آباد ہوئے تب ان کی حکمرانی فلسطین سے لے کر بلادِ شام اور فرات کے کچھ علاقوں تک تھی اور عرب ریاستیں نہ ہونے کے باعث ان کا اثر و رسوخ کئی علاقوں تک تھا اور گریٹر اسرائیل کا تصور یہیں سے آیا ہے کہ ’بنی اسرائیل کی اولاد جہاں جہاں پلی بڑھی ہے وہ سب علاقے ہمارے ملک کا حصہ ہوں۔‘

مگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے اور اب اسرائیل کا مطلب صرف مقبوضہ علاقے ہیں جن میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ شامل ہیں۔

سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔

اس کے بعد اسرائیلی سیاستدان اور سابق وزیراعظم مینیچم بیگن نے کہا تھا کہ ’فلسطین کی تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے بحال کیا جائے گا۔‘

اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ’زایونزم 2.0: تھیمز اینڈ پروپوزلز آف ریشیپنگ ورلڈ سیویلائزیشن‘ کے مصنف ایڈرئن سٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا مطلب مختلف گروہوں کے لئے مختلف ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں اور ملک سے باہر رہنے والے یہودیوں کے لیے گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کا مطلب مغربی کنارے (دریائے اردن) تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرنا ہے۔ اس میں بائبل میں درج یہودیہ، سامرہ اور ممکنہ طور پر وہ علاقے شامل ہیں جن پر 1948 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں سینائی، شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔

’ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔‘
جنوری 2024 میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل رہا جس میں انھوں نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔‘

صیہونی شدت پسند یہودیوں کا گریٹر اسرائیل یا ہندو توا کا اکھنڈ بھارت کے خواب کا نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ اسرائیل و بھارت کے پاس اتنی فوجی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے توسیع پسندانہ منصوبے کو مستقبل میں عملی جامہ پہنا سکیں لیکن فرض کریں ’اگر اسرائیل اور بھارت ایسی کوئی کوشش کرتے بھی ہیں تو مغرب و مشرق کی سیاسی و فوجی تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔‘ یہ محض ایک ذہنی شبہ یا واہمہ ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے مصنوعی سیاسی وینٹیلیٹر کا کام کرتی ہے جو ان کے مسخ شدہ نظریات کو زندہ رکھنے میں اور ان کے لئے معاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ویسے ہی ہوگی جیسے پاکستان میں کچھ لوگ خلافت اور دنیا بھر پر راج کرنے کا تصور رکھتے ہیں۔
مزید برآں گریٹر اسرائیل کا قیام اہل مغرب میں رہنے والے اہل کتاب یہودیوں کو قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ کیونکہ جب 1947 میں یہودیوں کے لئے اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت صیہونی تحریک کے پس منظر میں یہی خیال تھا کہ پوری دنیا میں انھیں استحصال کا سامنا رہا ہے لہٰذا انھیں بعینہ تقسیم برصغیر میں پاکستان کی طرح ایک الگ ملک ملنا چاہئے جہاں وہ اپنے مذہب کے استحصال سے بچ کر زندگی گزار سکیں اور تمام مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں آج بھی گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ مغربی کنارہ اور غزہ کو مقبوضہ علاقے کہا جاتا ہے اور اسے امریکہ اور برطانیہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
چہ جائیکہ گریٹر اسرائیل کی بات تو ایک طرف ان مقبوضہ علاقوں کے علاوہ گولان ہائٹس جہاں اسرائیل 1967 سے قابض ہے، اسے بھی تمام مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے مقبوضہ علاقہ مانتے ہیں جو کہ فلسطین کا حصہ ہے۔
بفرض محال اگر اسرائیل “گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہے تو مغرب کا اس پر کیا ردِعمل ہو گا؟ اس حوالے سے بین الاقوامی ماہرین و تجزیہ نگاروں کا یہ ماننا ہےکہ اب تک مغرب، بالخصوص امریکہ نے زمینی حقائق کی تبدیلی اور اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے حوالے سے کمزور ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت اس سال کے شروع میں جب اسرائیل نے کچھ پرتشدد آباد کاروں کو بستیاں قائم کرنے کی منظوری دی تو ’بائیڈن انتظامیہ نے بہت واضح انداز میں ان کی مذمت بھی کی تھی۔‘
سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی اور عملی طور پر گریٹر اسرائیل کے قیام کی باتیں محض خیالی ہیں اور اسرائیل میں موجود سنجیدہ یہودی سیاست دان تک اس بارے میں کبھی بات کرتے نظر نہیں آتے تاہم یہ مذہبی واہمہ ان طبقات میں ضرور موجود ہے جو ایک طرح سے پوری دنیا میں یہودیت کی نشاةِ ثانیہ کا تصور رکھتے ہیں۔ آج کے اسرائیل میں موجود سنجیدہ یہودیوں کا ماننا ہے کہ عملی طور پر یہ اس لئے بھی ناممکن ہے کہ وہ اردن جیسے ہمسایہ ممالک کی سرحدی حدود کو تسلیم کرتا ہے۔

جنوری کو اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شئیر کئے گئے نقشے کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ مملکت اسرائیل تقریباً 3000 سال پہلے قائم ہوئی اور اس کے پہلے تین بادشاہوں میں حضرت طالوت، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام شامل تھے جنھوں نے مجموعی طور پر 120 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دور میں یہودی ثقافت، مذہب اور معیشت میں ترقی ہوئی۔
اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ931 قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہودہ۔ شمالی مملکت اسرائیل 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں (568 قبل مسیح) ختم ہو گئی۔
’یہ تقسیم صدیوں تک سیاسی تنازعات کا باعث بنی لیکن جلاوطنی کے دوران یہودی قوم اپنی ریاست کی بحالی کی خواہاں رہی جس کا قیام 1948 میں ریاست اسرائیل کے طور پر ہوا جو آج مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست ہے۔‘
اگرچہ گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا خیال نہیں مگر یہ تصور کہاں سے آیا اور ’دا پرومسڈ لینڈ‘ میں کون کون سے علاقے شامل ہیں، یہ جاننے کے لیے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔
مگر یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔
حالیہ دنوں اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک نقشے میں فلسطین، شام، لبنان، سعودی عرب اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے ’گریٹر اسرائیل‘ کا متنازع نقشہ جاری کرنے کے ردعمل میں سعودی عرب، فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عرب لیگ نے شدید الفاظ میں اسے مسترد کر دیا ہے۔
سعودی عرب نے واضح انداز میں اس نقشے کو انتہا پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ اس طرح کے عزائم اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں۔
فلسطین اور اردن کے حکام نے بھی اس متنازع نقشے کی شدید انداز میں مذمت کی ہے۔
عرب لیگ نے تو سختی سے خبردار کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس طرح کے اشتعال انگیزی سے نمٹنے میں ناکامی پر ہر طرف سے انتہا پسندی بڑھنے کا خطرہ ہے۔

مسلم امہ کے لئے یہ لمحے انتہائی قابل غور اور فکریہ ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے لبنان میں اپنے قبضے کو وسعت دینے کی ناکام کوششوں کے بعد، جنگ زدہ اور تباہ حال ملک شام کی غیر مستحکم صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اپنی تمام تر توجہ بلادِ شام پر مرکوز کردی ہے۔ صیہونی طاقت کی اس نئی جنگی حکمت عملی کا ثبوت یہ ہے کہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلی بار صہیونی افواج شامی سرزمین میں داخل ہوئی ہے اور بہت اندر تک اپنے فوجی بیس قائم کرلئے ہیں۔
گولان کی پہاڑیوں کو امریکا کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک شام کا حصہ قرار دیتے ہیں اور اس علاقے میں اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے شام کے ساتھ 1974 کے جنگ بندی کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز کو مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ شامی فوجیوں کی جانب سے سیکورٹی پوسٹوں کو ترک کرنے کی وجہ سے دراندازی ضروری تھی اور یوں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، جس کا مکمل رقبہ تقریباً 1,800 مربع کلومیٹر ہے، اس میں سے 1,200 مربع کلومیٹر پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور اب اسرائیل شام کے دارالحکومت تک اپنی فوجوں کو تعینات کرچکا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے ممکنہ حکمت عملی کیا ہوگی۔

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

January 2025
M T W T F S S
 12345
6789101112
13141516171819
20212223242526
2728293031  
« Mar   Mar »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb