Skip to content

RASHID AHMED GABARO

Menu
  • Home
  • About Me
    • Photo Gallery
  • History
    • Shina People:
    • Dardic History of North Indus
    • Dardic Languages of North Indus
  • Hall of Fame
  • Islamic Studies
    • Quran Majeed
    • Seerat Un Nabi (SAW)
    • Seerat e Awlia
    • Islamic history
  • Posts
  • Downloads
  • Contact Us
Menu

اپنی اصلاح کی ضرورت

Posted on December 7, 2020August 29, 2023 by gabbaro
Spread the love

عظیم تابعی حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے : . کہ تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے ۔۔ منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے سنا ،کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ : جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے”۔۔ امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وبے انصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی و انکساری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔’مادر وطن میں بڑے لوگ یعنی صلحا، سخی، دانشور اور معالج آج کے اس مختصر زمانے میں یکے بعد دیگرے اس دنیائے فانی سے بڑی جلدی میں رخصت ہو رہے ہیں۔۔۔دراصل .موت العالِم موت العالم (عالِم کی موت عالم کی موت ہے) کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہیں کسی افق میں کوئی آفتابِ علم غروب ہوتا ہے، موت ایک تلخ سچائی ہے اور ہر ذی نفس کو اس سچائی کا زائقہ چکھنا ہے، جو لوگ رخصت ہوئے ہیں انہیں جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی تھا، مگر معاشرے کے بڑے قیمتی لوگوں کے جانے سے جہاں یہ غم ہے کہ یہ لوگ علم و عمل کی محفلوں سے دفعۃً اٹھ کر چلے گئے وہاں یہ غم بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو جگہیں خالی ہورہی ہیں ان کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہے، بعض مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ دور تو نہیں آگیا جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: (بخاری رقم الحدیث: ۶۰۷۰۔۔۔۔نیک لوگ زار و قطار اٹھائے جائیں گے اور جو یا کھجور کے سڑے بھوسے کی طرح ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کو ذرا پرواہ نہ ہوگی۔وللہ اعلم

~Rashid Ahmed Gabaro

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

Number of Visitor

0108534
Visit Today : 17

calendar

December 2020
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031  
« Sep   Apr »
©2025 RASHID AHMED GABARO | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb